تشدد سے جذبہ حریت میں کمی کی بجائے تیزی

مذاکرات سے تمام مسائل کو مل بیٹھ کر حل کیا جاسکتا ہے تشدد سے مگرجذبہ حریت میں کمی کی بجائے تیزی آتی ہے۔انڈیاکی موجودہ انتہاپسندسرکار کو8جولائی 2016ء میں کشمیرکے اندر اس قدر مزاحمت کا سامنا نہیں تھاجس قدرآج 8جولائی 2017ء میںآ زادی کا حق مانگنے والے برہان وانی کو شہید کروا دینے کے بعد بی جے پی گورنمنٹ بھگتتی نظر آتی ہے

پیر 10 جولائی 2017

Tashadud Se Jazba e Hurriyat Main Kami Ki Bajaye Teezi
سجاد اظہر پیرزادہ:
مذاکرات سے تمام مسائل کو مل بیٹھ کر حل کیا جاسکتا ہے تشدد سے مگرجذبہ حریت میں کمی کی بجائے تیزی آتی ہے۔انڈیاکی موجودہ انتہاپسندسرکار کو8جولائی 2016ء میں کشمیرکے اندر اس قدر مزاحمت کا سامنا نہیں تھاجس قدرآج 8جولائی 2017ء میںآ زادی کا حق مانگنے والے برہان وانی کو شہید کروا دینے کے بعد بی جے پی گورنمنٹ بھگتتی نظر آتی ہے۔

ہندوستان کے تمام لبرل طبقے ،خواہ مارکینڈے کاٹجو جیسے نامور جسٹس ہوں،برکھا دَت جیسے ٹی وی اینکر ہوں،ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر ونندشرما ،ارون دھتی رائے جیسے صحافی ،مصنف ہوں یا شبنم لون جیسے ممتاز وکیل ، سب ہی کشمیریوں کے آزادی اظہار کے حق میں پہلے کی نسبت قدرے زور سے آواز اٹھانے لگے ہیں۔ انڈین سپریم کورٹ کے سابق جسٹس کاٹجو نے تو اْس ظالم انڈین فوجی کو ایوارڈ دینے پر بھی اپنی فوج کو آڑے ہاتھوں لیا‘ جنہوں نے کشمیری جوان کو اپنی جیپ کے آگے باندھ کر سڑکوں پر گھسیٹا تھا۔

(جاری ہے)

اِن سب تازہ حقائق کا نظارہ دہلی کے جنتر منتر چوک میں اپنی آنکھوں سے بھی ہم نے دہلی کے دورے کے دوران اس وقت کیا تھاجہاں کئی نامور لبرل شہری، سیاستدان ،صحافی،دانشور اکٹھے ہوکر کشمیریوں کو ان کے حقوق دینے کا اظہارکر رہے تھے۔ہندوستانی سرکار کو چاہئے کہ اپنے دانشوروں کی رائے پر چلتے ہوئے ‘ اپنی ساری مکار سیاست اور چالاکی کو چناوٴ تک محدود رکھ کر اپنے پڑوسی ملک پاکستا ن کو نیچا دکھانے کی بجائے سلیقے سے مسئلہ کشمیر حل کر نے کی طرف قدم بڑھائے۔

اب تو 70سال کی یہ نئی تاریخ بھی گواہ ہے کہ بڑی سے بڑی جنگوں کے بعد بھی مسائل صلح و مذاکرات کے بغیر حل نہیں ہوتے !۔ گھمنڈی اور مغرور کسی شخص کی صورت میں ہو یا ایک سر کار کی ‘ سر ہمیشہ ایک دن ایسوں کا نیچا ہوتاہے۔
پاکستان کی گورنمنٹ جب بھی مقبوضہ کشمیرمیں ہونے والے مظالم پر انڈین سرکار سے احتجاج کرتی ہے تو سشما سوراج کا یہ جملہ پڑھنے کو ملتا ہے کہ کشمیراْن کا اٹوٹ انگ ہے اورپاکستان کو ہمارے داخلی معاملات میں دخل نہیں دینا چاہئے۔

یہ بات درست ہے کہ ہندوستان کو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا اور ایک آزاد ملک ہونے کے واسطے اس بات کا حق ہے کہ وہ اپنے شہریوں پر جس طرح کا چاہے قانون نافذ کر دے لیکن گستاخی معاف ! ابھی جب مقبوضہ کشمیر کا فیصلہ ہوا ہی نہیں اور اقوام متحدہ کی قرار داد کے مطابق یہ علاقہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان متنازعہ ہے تو پھر کیسے ہندوستان کی وزیرخارجہ سشما سوراج یہ گستاخی کر سکتی ہیں کہ وہ کشمیریوں سے اْن کی مرضی جانے بغیر اْن پر اور ان کے کشمیر پر نت نئے کالے قانون کی بھر مار کرنا اپنا اٹوٹ انگ مقصد ہی بنالیں؟ ۔

دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے!۔ابھی حال ہی میں امریکہ کے دورے پر ہندوستان کے وزیراعظم مسٹر مودی یہ دہرا کر آئے ہیں کہ ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ لیکن آئیے اس سوال کاجواب دیجئے کہ کیا جمہوریت میں فوج کا کام محض سرحدوں کی حفاظت کرنا نہیں ہوتا ؟ اگر جمہوریت میں فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہی ہوتا ہے تو پھر مودی سرکار سے ہندوستان کے لبرل طبقے یہ سوال بھی ضرور پوچھیں کہ فوج سمیت 7لاکھ سکیورٹی فورسز اْس حسین وادی میں کیا کر رہی ہے جس کا نام مقبوضہ کشمیر ہے ؟
آج2017ء کی بی جے پی سرکار کو معلوم ہونا چاہئے کہ کشمیروں کا ہر غم اور ہر خوشی آزادی کے نظریہ کے ساتھ ہی وابستہ ہے۔

اگر کشمیریوں کی موجودہ لڑائی زورو شور پر ہے تو اِس کی وجہ بھی ان کے اندر غلامی کے ساتھ زندہ رہنے کی عادت کا ذرا برابرموجود نہ ہونا ہے۔ انتہاپسندنظریات کی پروردہ رولنگ پارٹی کواس بات کی بھی خبر ہونی چاہئے کہ کشمیریوں کی حدمیں رہنے کی روش سے ہی ابھی ہندوستان کا سماں رنگین ہے کشمیریوں کی حد ِا دب سے ہی ہندوستان کے دارالحکومت دہلی کی سرکار کا جہاں آباد ہے۔

جس دن کشمیریوں کی برداشت جواب دے گئی اورجس دن وقت کا لکھا سامنے آگیا پھر21ویں صدی والے ہندوستانی سیاستدانوں کے ہوش بھی اسی طرح ٹھکانے آ ئیں گے جس طرح اگست 1947ء میں ہندوستان کی تقسیم دیکھ کر20ویں صدی والے گھمنڈیوں کو چھٹی کا دوددھ یاد آیا تھا۔فیصلہ ہے یہی بات ہے یہ اٹل،آزادی اظہار حق اور اپنے حقوق کے لئے جابروں سے ٹکرا جانے والے کشمیریوں کاآج کے زمانے میں کوئی بدل نہیں ہے۔

پاکستان میں جعلی پاسپورٹ کے ذریعے داخل ہوکر جاسوسی کا اعتراف کرنیوالے انڈین جاسوس کی رہائی کا معاملہ تو عالمی عدالت انصاف نے پینڈنگ کر لیا ہے26جنوری 1950ء کو نافذ ہوئے انڈیا کے آئین میں مقبوضہ کشمیر کی مقبوضہ عوام کے لئے کالے قانون کی موجودگی کیوں آزادی اظہار حق کے چیمئین بننے والوں کو زہر نہیں لگتی؟بے شک ایک طے شدہ فریم ورک کے مطابق مذاکرات سے تمام مسائل کو مل بیٹھ کر حل کیا جاسکتا ہے‘ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشمیر کے مسئلے پراقوام متحدہ نے ایک فریم ورک طے کیا ہوا ہے۔

اس فریم ورک کے مطابق کشمیر سے فوج نکال کرکشمیریوں کو حق خودارادیت کا موقع دینا ہے کہ وہ ووٹ کہ ذریعے چناوٴ کریں کہ انہوں نے کہاں رہنا ہے۔پاکستان اقوام متحدہ کے اِسی فریم ورک پر عمل کرنے کا وعدہ ہندوستان کو بار بار یاد دلاتا ہے۔ہندوستان کی حکومت مگر 1جنوری 1948ء سے جب ہندوستان کے وزیراعظم جواہر لال نہرو خود کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ لے کر گئے تھے، اس طے شدہ فریم ورک پر عمل کرنے سے گریزاں ہے۔ اب وہ کشمیریوں پر تشدد کر کے اْن کے اظہار حق اور حق آزادی کا گلا گھوٹنا چاہتی ہے۔ ہندوستان کی سرکارکو مگر یہ معلوم ہونا چاہئے کہ تشدد سے جذبہ حریت میں کمی کی بجائے تیزی آتی ہے۔8جولائی 2017ء کو آج برہان وانی کی پہلی برسی پر کشمیریوں کے جذبات اس بات کامزید ثبوت ہیں !۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Tashadud Se Jazba e Hurriyat Main Kami Ki Bajaye Teezi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 July 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.