تاریخ پاکستان کی بدترین فیصلہ اور عواقب

نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف کے بدترین فیصلے نے امریکہ کو افغانستان میں فتح دلائی، سیاہ فام جنرل (ر)کولن پاول کی دھمکی پر مشرف نے ساتوں ناجائزامریکہ مطالبے مان لئے

پیر 3 جولائی 2017

Tareekh e Pakistan Ka Bad Tareen Faisla Aur Awaqib
محسن فارانی:
چیئر مین سینٹ جناب رضا ربانی کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے شروع کی گئی (صلیبی)جنگ پاکستان پر جنرل پرویز مشرف نے مسلط کی جو مستونگ اور گوادر جیسے علاقوں کے علاوہ ملک بھر میں دہشت گردی کی بدترین صورت میں سامنے آئی ہے۔حقیقت یہی ہے جنرل مشرف اکتوبر1999ء میں بلاوجہ اور بلا جواز سول حکومت کا تختہ الٹ کر برسراقتدار آئے تھے۔

کر گل کے ناقص منصوبے کو بروئے کار لانے کے نتیجے میں ان کی برطرفی عمل آئی تھی جسے انہوں نے حکومت پر قبضہ کرنے کا بھونڈا جواز بنالیا۔پھر 2001ء میں مشرف نے امریکی صدر بش مسلم کش کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے امریکی صلیبی جنگ میں تعاون کا فیصلہ کر لیا جس کے لئے اس نے کور کمانڈروں سے پیشگی مشاورت کا تکلف بھی نہیں کیا تھا۔

(جاری ہے)

ان کے ایک پیشرو آرمی چیف جنرل (ر)اسلم بیگ اپنے کالم”ایک نئی صلیبی جنگ کا آغاز“ میں لکھتے ہیں:
”دنیائے اسلام کے خلاف نئی صلیبی جنگ2001ء میں شروع ہوئی تھی اور ابھی تک نہ صرف قائم ہے بلکہ نیارخ اختیار کرچکی ہے۔

پرویز مشرف نے امریکہ کے افغانستان پر حملے کے وقت پاکستان کی تاریخ کا بدترین فیصلہ کیا اور امریکہ کو افغانستان فتح کرنے میں مدد دی۔اس بدترین فیصلے کے نتیجے میں آج سارا عذاب ہم پر مسلط ہے۔امریکہ اور بھارت کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں بھارت نے افغانستان میں اپنا جاسوسی نیٹ ورک بنایا جسے پاکستان کے خلاف امریکی سی آئی اے،برطانوی ایم آئی۔

6، اسرائیلی موساد اور نیٹو ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مدد حاصل رہی لیکن امریکہ نے پاکستان کے خلاف جاری اس کام کو روکا نہیں بلکہ 2005ء میں بھارت کے ساتھ سٹرٹیجک پارٹنرشپ کا معاہدہ کیا اور بھارت کو یہ ہدف دیا کہ اس علاقے میں اسلامی انتہا پسندی کو ختم اور چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو محدود کرے․․․ امریکہ اور بھارت اب سٹرٹیجک پارٹنر ہی نہیں بلکہ دفاعی پارٹنر بھی ہیں یعنی امریکہ بھارت کو ہائی ٹیک ہتھیار دے گا تاکہ وہ پاکستان اپنی برتری قائم رکھ سکے“۔

اس نے بھارت کو نیوکلیئر سپلائر گروپ میں بھی شامل کر لیا ہے حالانکہ بھارت نےCTBT پر سائن نہیں کئے۔
جنرل اسلم بیگ کا تجزیہ سو فیصد درست ہے۔اس کی تائید امریکہ کے حالیہ اقدامات سے ہوتی ہے۔امریکہ کی درجن بھر انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے کانگرس میں پیش کردہ رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ”پاکستان سے تاحال مبینہ طور پر دہشت گرد گروہ بھارت اور افغانستان پر حملے کر رہے ہیں اور ان کی یہ سرگرمیاں مستقبل میں بھی ممکنہ طور پر جاری رہیں گی“چنانچہ امریکہ نے لشکر طیبہ اور جماعتہ الدعوة القرآن کی قیادت پر نئی پابندی عائد کردی ہے۔


جس کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے صرف نظر کرتے ہوئے بھارت کے جھوٹے موقف کی تائیدوحمایت ہے او ایف اے سی کے ڈائریکٹر جان ای سمتھ کے مطابق ”امریکہ دہشت گردوں کو پاکستان کے اندر اور ملحقہ علاقوں میں نشانہ بنائے گا جس میں فلاحی اور دیگر سرگرمیوں میں مصروف گروہ بھی شامل ہیں جو دہشت گرد سرگرمیوں کیلئے سہولت کار کے طور پر استعمال ہوتے ہیں“۔


یہ جو امریکہ نے ”پاکستان سے دہشت گرد گروہوں کے بھارت پر حملے“کاراگ الاپا ہے،یہ اس بھارتی راگ کا چربہ ہے جو کشمیری حریت پسندوں کو درانداز اور دہشت گرد قرار دیکر بھارتی فوج کے وحشیانہ مظالم پر پردہ ڈالنے کے لئے الاپا جاتا ہے۔یہ وہ بھارت نواز امریکہ ہے جس کے سیاہ فام وزیر خارجہ جنرل (ر)کولن پاول کی اس دھمکی پر کہ ”تم ہمارے دوست ہو یا دشمن”جنرل مشرف کے اوسان خطا ہوگئے تھے اور انہوں نے امریکہ کے ساتوں ناجائز مطالبات فوراََ مان لئے تھے۔

جنرل شاہد عزیز اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب مشرف نے واشنگٹن کے آگے سرنڈر کرکے ساتھی جرنیلوں کو آگاہ کیا تو بیشتر نے امریکی جنگ میں تعاون کی مخالفت کی۔اس پر مشرف بولے:”میں توامریکیوں سے کمنٹ منٹ کر چکا ہوں“۔لیفٹیننٹ جنرل محمود ( ISI) اور لیفٹیننٹ جنرل عثمانی دونوں کو مشرف کے فیصلے کی مخالفت کے باعث ہی فوج سے فارغ ہونا پڑا تھا۔انہی دنوں جنرل مشرف نے سینئر صحافیوں اور مدیران کی میٹنگ بلائی اور انہیں اپنے فیصلے سے آگاہ کیا۔

سب کر لیا،پھر ہمیں بلانے کا کیا مقصد؟“مجید نظامی نے ترت جواب دیا:”میں آپ کی جگہ کیوں ہوتا؟ میں اخبار کا ایڈیٹر ہوں اور اپنی جگہ کام کر رہاہوں،آپ بھی اپنی حدود میں رہتے تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا“۔اس پر مشرف کبیدہ خاطر ہوئے اور میٹنگ برخاست ہو گئی۔
دراصل مشرف کو موقع کی تلاش تھی کہ کیونکرواشنگٹن کی خوشنودی حاصل کرے۔اس سے پہلے مارچ 2000ء میں بھارت میں 5 دن گزارنے کے بعد امریکی صدر کلنٹن ان شرائط پر 5 گھنٹوں کیلئے پاکستان آئے تھے کہ مشرف کے ساتھ ان کے مصافحے والی تصویر شائع نہیں ہوگی اور طرفین کے مذاکرات کے دوران میں ان کی میزوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہوگا اور یہ کہ ان کے دورے کے اختتام پر کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں کیا جائے گا،نیز امریکہ صدر ریڈیو/ٹی وی پر پاکستان قوم سے خطاب کریں گے۔

مشرف نے کلنٹن کی رضا مندی کیلئے یہ ساری ناروا شرائط مان لیں اور مشرف نے ایک ظلم یہ کیا کہ پاکستان کی حدود میں امریکی ڈرون حملوں کی اجازت دیدی،نیز امریکی مطالبے پر لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر چڑھائی کردی جس کی کوئی ضرورت نہ تھی۔یہ حملہ اس طرح کیا گیا جیسے دشمن ملک پر کیا جاتا ہے۔اس کے نتیجے میں ملک خودکش دھماکوں اور بدترین دہشت گردی کا شکار ہوگیا۔

امریکی جنگ میں تعاون کرتے وقت جنرل مشرف نے اس کا جواز ایٹمی اثاثوں کا تحفظ ،مسئلہ کشمیر کی پاسداری اور بھارت نواز شمالی اتحاد کو نئی کابل حکومت سے دور رکھنے کے امریکی وعدے کو بتایا تھا۔
یہ ان کی احمقانہ خوش فہمی تھی۔اپنے اقتدار کی بقا کے لئے مشرف امریکہ کی آنکھ کا تارہ بن گئے تھے لیکن امریکیوں نے کابل پر قابض ہوتے ہی وہاں بھارت نواز شمالی اتحاد کولابٹھیایا اور دوسری طرف بھارت کی ہمنوائی میں جہاد کشمیر کو دہشت گردی قرار دے دیا۔علاوہ ازیں مشرف نے ضعیف العمر بلوچ لیڈر اکبر بگٹی کو قتل کر ا کر بلوچستان میں جو آگ بھڑکائی،اس کے شعلے اب گوادر تک جا پہنچے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Tareekh e Pakistan Ka Bad Tareen Faisla Aur Awaqib is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 July 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.