تنگ نظر ہندو اور دو قومی نظریہ

برصغیر میں ہندو مسلم صدیوں سے ساتھ ساتھ زندگی گزار رہے تھے۔ انگریز کی آمد کے بعد ہندو قیادت نے مسلمانوں کو زیر کرنے کیلئے انگریز سے تعاون ہی نہیں کیا بلکہ مسلمانان برصغیر کی نسل کشی کے حوالے سے سنگٹھن اور شدھی کی بدنام زمانہ تحریکیں شروع کر دیں۔ جس کے نتیجے میں سرسید ، اقبال اور قائد اعظم جیسے متعدل مزاج مسلم رہنما علیحدہ منزل کا تعین کرنے پر مجبور ہوئے

بدھ 5 اپریل 2017

Tang Nazar Hindu
عزیز ظفر آزاد:
برصغیر میں ہندو مسلم صدیوں سے ساتھ ساتھ زندگی گزار رہے تھے۔ انگریز کی آمد کے بعد ہندو قیادت نے مسلمانوں کو زیر کرنے کیلئے انگریز سے تعاون ہی نہیں کیا بلکہ مسلمانان برصغیر کی نسل کشی کے حوالے سے سنگٹھن اور شدھی کی بدنام زمانہ تحریکیں شروع کر دیں۔ جس کے نتیجے میں سرسید ، اقبال اور قائد اعظم جیسے متعدل مزاج مسلم رہنما علیحدہ منزل کا تعین کرنے پر مجبور ہوئے۔

کسی نے خوب کہا کہ تقسیم ہند کی اصل وجہ ہندی قیادت کی تنگ نظری اور متعصبانہ رویہ تھا۔ سیکولر کانگریس کے دعویداروں نے تقسیم کے موقع پر لاکھوں انسانوں کو تہ تیغ ہی نہیں کیا بلکہ آبرو ریزیاں اور عصمتوں کو تار تار کرتے ہوئے معصوم بچوں کو نیزوں پر اچھالا گیا۔ بھارت کا سیکولر آئین کی دفعہ 25بتاتی ہے کہ مذہب کی آزادی کا حق آزادی ضمیر اور مذہب کو قبول کرنے اور اس کی پیروی و تبلیغ کی آزادی کا حق ہر شہری کو حاصل ہے بشرطیکہ امن عامہ ، اخلاق عامہ ، صحت عامہ اور اس حصے کی دیگر توجیحات متاثر نہ ہوں۔

(جاری ہے)

آئین کی دفعہ 29میں ثقافتی اور تعلیمی حقوق ، اقلیتوں کے مفادات کا تحفظ بیان ہے۔ بھارت کے کسی حصے میں رہنے والے شہریوں کے کسی طبقہ کو جس کی اپنی الگ جداگانہ زبان ، رسم الخط یا ثقافت ہو اس کو محفوظ رکھنے کا حق ہوگا۔کسی شہری کو ایسے تعلیمی اداروں جس کو مملکت چلاتی ہو یا جس کو مملکتی فنڈ سے امداد ملتی ہو داخلہ دینے سے محض مذہب نسل ذات زبان یا ان میں سے کسی کی بنا پر انکار نہیں کیا جائے گا۔

سیکولر بھارت کے سیکولر آئین کے برعکس آرایس ایس کے گرو گوالکر اپنی تصنیف میں یوں رقم طراز ہیں کہ ہندوستان میں غیر ہندو کو رہنے کی اجازت مل سکتی ہے بشرطیکہ وہ ہندو مذہب کو دانستہ یا نا دانستہ طور پر قبول کر لیں مطلب یہ کہ ان کی نماز روزہ پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن مسجد سے نکل کر مندر کا گھنٹہ بجانا ان کے لئے لازمی ہوگا۔ وہ عیدیں ضرور منائیں مگر اس کے ساتھ دیوالی بھی۔

ایسا لگتا ہے کہ آر ایس ایس کے بانی نے آج ہی کے دن کے لئے کہا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ ایک نہ ایک دن اس کے خوابوں کو عملی تعبیر ضرور ملے گی۔ بھارت پر حکومت کرنے والی ہر جماعت نے دوہرا معیار اختیار رکھا۔ ایک جانب جمہوریت اور سیکولر ازم کا پرچم لہراتے رہے تو دوسری جانب ہندو انتہا پسند تنظیموں کو اقلیتوں کو نیست و نابود کرنے کا موقع اور قوت بخشتے رہے۔

پنجاب میں سکھوں کا قتل عام ہو یا گجرات میں مسلم کش فسادات ، مسیحوں کا قتل عام اور آبروریزی کے واقعات ہوں یا سمجھوتہ ایکسپریس کی آتش زدگی کا سانحہ سب حکومتی سرپرستی میں انتہا پسند تنظیموں کی کارنامے ثابت ہو چکے ہیں۔ 80ء کی دہائی میں جب بی جے پی میدان سیاست میں اتری تو کون تصور کر سکتا تھا کہ انتہا پسند تنظیموں کی علاقائی قیادتیں مل کر پورے بھارت کو مذہبی جنون میں مبتلا کرتے ہوئے اس نہج تک پہنچ سکتی ہیں۔

یوپی جیسے بڑے صوبے میں انتخابی معرکہ مسلم دشمنی کی بنیاد پر سر کرلیں گی اور تعصب کے الاوٴ کو اتنا پھیلائیں گے کہ کہ چار کروڑ کے قریب مسلمانوں کو روند ڈالیں گے۔ اس واردات میں بی جے پی کا اعتماد ملاحظہ فرمائیں۔403کی ریاستی اسمبلی کے انتخاب کے لئے ایک بھی مسلمان امیدوار نامزد نہ کیا گیا مگر 319نشستیں مارلی گئیں اور اس صوبے کیلئے مہا سفاک اور متشدد درندہ صفت ادتیہ ناتھ یوگی کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا جس کا ماضی مسلم دشمنی سے عبارت ہے۔

جس نے عہدہ سنبھالنے کے بعد مودی سے مطالبہ کیا کہ بھارت سرکار فوری طور پر بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرے وگرنہ یہ کام ہم خود کرلیں گے۔ بات یہیں ہی ختم نہیں ہوتی اس نے اعلان کیا کہ اتر پردیش کی تمام مسجدوں میں موتیاں رکھوا دی جائیں۔ گوشت کا کام کرنے والوں کو چن چن کر مارا جاتا ہے۔ یوگی کا کہنا ہے کہ یوپی میں رہنے والے مسلمان یہاں سے چلے جائیں ۔

ان کے رہنے کی صرف ایک ہی شرط ہے کہ وہ ہندو دھرم اختیا ر کر لیں۔ جامع مسجد کے سامنے جشن فتح کے جلسے میں یوگی ناتھ کے ایک ساتھی نے دھواں دار تقریر کرتے ہوئے مسلمانوں سے کہا کہ وہ اپنا مذہب تبدیل کرکے ہندو ہوجائیں یا بھیانک موت کے لئے تیار رہیں۔ مسلمان عورتوں کی لاشوں کے ساتھ اس وقت تک زیادتی کرتے رہیں جب تک مسلمانوں کی مساجد سے اذان کی آواز آئی بند نہیں ہو جاتی۔

سیکولر بھارت کا ایک اور منظر مہاراشٹر کی اسمبلی کے ایک رکن منگل پرشاد لودھا نے بابری مسجد کے بعد بمبئی میں جناح ہاوٴس کو بھی مسمار کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ اس کے مطابق یہ عمارت بھی تقسیم ہند کے پاپ کا نشان ہے۔ سیکولر بھارت کی بے بس عدالتوں کی جانب رجوع کریں تو سپریم کورٹ آف انڈیا بابری مسجد کیس کا فیصلہ سنانے سے معذوری ظاہر کرتے ہوئے اسے پنجایت کے ذریعے حل کرنے کا راستہ بتا رہی ہے۔

بھارت میں مذبحہ خانے بند کرنے اور ذبح کرنے والے کو عمر قید کی سزا کے قوانین کا اجرا ہو رہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ تقسیم برصغیر کی بڑی وجہ ہندو انتہا پسندانہ اور متشدد تحریکیں تھیں۔ آج دوبارہ ان کے پروان چڑھنے سے ایک جانب مسلم ہند اپنے کانگریس نواز بزرگوں کی قبروں پر ملامت کرتے ہوئے دو قومی نظریہ پر ایمان لے آئیں گے دوسری جانب بھارت میں مسلم ، سکھ ، مسیحی اور دیگر اقلیتوں کو یکجا ایک قوت متبادل قوت کی شکل میں ڈھل کر سامنے آئیں گے۔ یاد رہے ہندو تنگ نظری کا نشانہ ہندی مسلمان ہی نہیں بلکہ پاکستان اور بنگلہ دیش بھی ہیں کیونکہ مہا بھارت اور اکھنڈ بھارت ان کا خواب ہی نہیں ان کا دھرم ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Tang Nazar Hindu is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 05 April 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.