طالب علم منشیات فروشوں کے نشانے پر
حکومت ملک کے مستقبل کی تباہی پر خاموش تماشائی
جمعہ 22 ستمبر 2017
قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اشرف نے لرزہ خیز انکشاف کیا ہے کہ یونیورسٹی طلباء میں مفت شراب فراہم کی جاتی ہے اور منشیات فروشوں پر ہاتھ ڈالنے والی کوئی ایجنسی نظیر نہیں آتی۔ منشیات فروشوں کے ہاتھ اس قدر لمبے ہوچکے ہیں کہ اگر ان کے خلاف کوئی آواز بلند کرے تو اُلٹا اس کیخلاف مقدما ت قائم کرکے زندگی اجیرن بنادی جاتی ہے۔ قبل ازیں میڈیا میں ایسی ہی خبریں تواتر کیساتھ آتی رہتی تھیں کہ پنجاب کی یونیورسٹیز، کالجز اور ہائر سیکنڈری تعلیمی اداروں میں بھی منشیات کا استعمال تمام حدود پھلانگ چکا ہے۔ طلباء ہی نہیں بلکہ طالبات بھی منشیات کی عادی پائی گئیں ہیں اور ان میں منشیات کا استعمال ایک فیشن بن چکا ہے۔
(جاری ہے)
قومی اسمبلی میں بھی تعلیمی اداروں میں منشیات کے بڑھتے رجحان پر بعض ارکان اسمبلی نے تشویش کا اظہار کیا کرکے انسداد منشیات کے حوالہ سے نئی قانون سازی کرنے پر زور دیا تھا۔
جس روز قومی اسمبلی میں منشیات کے حوالے سے سوالات اٹھائے گئے ، اسی روز سے شراب کی خالی بوتلوں کی بڑی تعداد برآمد کی۔ گزشتہ دنوں فیصل آباد کے تعلیمی اداروں کے ملازمین اور بعض اساتذہ بھی منشیات کی سپلائی میں کردار ادا کرتے ہیں ، بعض حلقوں کی طرف سے منشیات فروشون اور ان کے سہولت کاروں کیخلاف سخت ترین کریک ڈاؤن کا ڈپٹی کمشنر اور سی پی او سے مطالبہ کیا گیا تھا لیکن فیصل آباد میں منشیات فروشی کے اڈے اپنی جگہ پر قائم دائم ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق منشیات فروشوں کی سرپرستی بااثر افراد بھی کرتے ہیں۔ ان میں بعض ارکان پر بھی لوگ انگلیاں اُٹھاتے ہیں کہ وہ منشیات فروشوں کے سہولت کار کا کردار ادا کرتے ہیں۔”جو چپ رہے گا چرخ کہن
بول اٹھے گی اراض وطن“
قائداعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ شراب مفت سپلائی کرنے والوں کے خلاف کوئی قدم بھی اُٹھانے کی جسارت نہیں کرسکتے۔ اس وقت منشیات کے حوالے سے جس قدر ادارے کام کررہے ہیں ان میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں، اعدادوشمار کے مطابق منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں اضافہ کیساتھ ساتھ نیہ نسل بھی تیزی سے اس لغت کی طرف راغب ہورہی ہے۔ ہم اقتدار کے نشہ کی بات نہیں کرتے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اقتدار کے نشہ میں سرشار لوگ منشیات کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں تاکہ عوام نشہ میں موہوش رہیں اور ہماری طرف ان کی نگاہ نہ اُٹھے۔ چند ماہ قبل اسلام آباد کی یونیورسٹیز کے طلباء اور طالبات کے حوالہ سے خبریں باہر آئی تھیں تو فیصل آباد کی یونیورسٹیز میں انسداد منشیات کے حوالے سے خصوصی سیمینار کا اہتمام کیا گیا ۔ ان سیمنارز میں بھی مطالبہ کیا گیا تھا کہ منشیات کے اڈے قائم ہوگئے اور بعض اڈے تو تعلیمی اداروں میں اپنے پاؤں پھیلانے کیلئے تعلیمی اداروں کے ملازمین کو بھی اپنے مکروہ دھندا میں ملوث کرکے بطور سپلائر انکی خدمات حاصل کرلیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فیصل آباد ہویا پاکستان کا کوئی اور علاقہ، غربت ، جہالت،بے روزگاری اور گھریلو مسائل کی وجہ سے منشیات کے استعمال میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ نشئی شخص اپنا ذہنی توازن برقرار رکھ سکتا ہے اور نہ ہی اچھے برے کی تمیز۔ جب طالب علم نشہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو انکی توجہ تعلیم کی جانب نہیں رہتی بلکہ وہ نشہ کی لت پوری کرنے کیلئے جرائم پیشہ افراد کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں، بعض دہشت گرد تنظیمیں بھی انہیں اپنے جال میں پھنسا لیتی ہیں اور وہ دہشت گردوں کے آلہ کار بن کر رہ جاتے ہیں ۔ نشے کے عادی افرادمعاشرے پر بوجھ نہیں بلکہ معاشرے کی خصوصی توجہ کے مستحق ہوتے ہیں۔ انداد منشیات کیلئے سول سوسائٹی اپنا کردار ادا کے کیونکہ انسانی اقدار کے وقار کیلئے معاشرے سے منشیات کے قلع قمع کیلئے کام کرنے والے سرکاری اداروں کی کارکردگی پر عقابی نگاہیں رکھے۔ اس سلسلے میں قانون سازی کرکے اس پر سختی سے عملدرآمد بھی کروایا جائے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
متعلقہ عنوان :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
مزید عنوان
Talbe Ilam Munshiyat Fraosho k Nishany Par is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 September 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.