طالبان کے خلاف امریکہ کی نئی جنگی حکمت عملی!

عراق اور شام کی طرز پر آپریشن کی تیاریاں․․․․․․ افغانستان میں امریکی فوجیون کی تعداد 14 ہزار سے تجاوز کرگئی

منگل 26 دسمبر 2017

Talban K Khilaff America ki naii Jangi Hikmat Amlii
محمد رضوان خان:
افغانستان میں امریکہ کے علاوہ نیٹو ممالک نے اپنی فوج بھیجنے سے یا تو صاف انکار کردیا یا پھر کسی نے حیلے بہانے شروع کردیئے ہیں جبکہ دوسری طرف افغانستان میں برسراقتدار امریکہ سپانسرڈ اتحادی حکومت کی عملداری اب کابل میں بی برقرار رکھنا کافی مشکل دکھائی دے رہی ہے جس کا اندازہ کابل میں ہونے والی حالیہ کاروائیوں سے لگایا جاسکتا ہے ، اس سلسلے میں تازہ ترین کاروائی ہفتہ رفتہ کے دوران اس وقت دیکھنے میں آئی جب دارالحکومت کابل میں ہونے والے ایک خودکش بم حملے میں دس افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوگئے۔

یہ حملہ اس وقت ہوا جب افغان صوبے بلخ کے گورنر اور جماعت اسلامیہ کے تاجک رہنما عطا محمد نور کے گھر میں ایک اہم اجلاس جاری تھا۔

(جاری ہے)

ان سطورکے لکھے جانے تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ حملے کے وقت اجلاس میں عطاء محمد بھی موجود تھے کہ نہیں، نہ ہی ان کے بارے میں آخری خبریں آنے تک کوئی اطلاع موصول ہوئی۔ تاہم ہلاک ہونے والوں میں سات پولیس اہلکار اور دو عام شہری شامل ہیں، اہم بات یہ ہے کہ اس حملے کی ذمہ داری دولت اسلامیہ نامی تنظیم نے قبول کی ہے جبکہ طالبان نے اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔

عام طور پر طالبان یا تو ذمہ داری قبول کرتے ہیں یانہیں کرتے لیکن اس حملے کے بعد ان کی جانب سے بطورخاص یہ وضاحت کی گئی کہ وہ اس واردات میں ملوث نہیں ہیں جس اجلاس کو نشانہ بنایا گیا اس کے بارے میں کہاجارہا ہے کہ اس دوران افغانستان کے آئندہ انتخابات کے حوالے سے منصوبہ بندی کی جارہی تھی۔ یاد رہے کہ افغانستان میں جون میں جماعت اسلامیہ کے رہنماؤں کے اجلاس کو اس وقت بھی نشانہ بنایا گیا تھا جب ایک خود کش بمبار نے اجلاس پر حملہ کیا تھا ، اہم بات یہ ہے کہ اس اجلاس میں افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ بھی شریک تھے۔

افغانستان میں ان حالات پر قابو پانے کیلئے ہی امریکہ نے نئی افغان پالیسی تیار کی تھی۔ جس کے تحت نیٹو ممالک سے بھی کہا گیا تھا کہ وہ اپنے فوجی افغانستان بھجوائیں لیکن ان ممالک نے اپنے عمل سے انکار کردیا تو اب امریکہ نے مزید اپنے ساتھیوں کی راہ دیکھنے کے بجائے اپنے فوجیوں کو افغانستان بلالیا ہے۔ امریکہ میں ان تازہ دم فوجیوں کی آمد کے بعد اب افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد بڑھ کر 14 ہزار ہوگئی ہے، اس سے پہلے اوباما انتظامیہ نے یہ تعداد گھٹا کر 9800 کردی تھی اور ساتھ ہی یہ پالیسی بھی بنائی گئی تھی کہ امریکی فوجی افغانستان میں متحارب کاروائیوں کا حصہ نہیں بنیں گے بلکہ زیادہ تر اپنے فوجی اڈوں کے اندر ہی قیام کریں گے، اگر دیکھا جائے تو افغانستان کے اندرونی حالات کے تناظر میں اوباما نے کوشش کی امریکہ کو متحارب رول سے باہر نکال لایا جائے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی فوج کا نہ صرف جنگی کردار پھر سے بحال کردیا بلکہ ان فوجیوں کی تعداد پہلے بڑھا کر 11 ہزار کی اور اب اس میں تین ہزار کی تازہ دم فوج شامل کردی گئی ہے۔

امریکی فوج کو اب اوبامہ انتظامیہ کے فیصلے کر برعکس متحرک کردار ادا کرنا ہوگا ان میں افغان فضائیہ کے ساتھ تو اب امریکی فوج مل کر کام کرے گی جس کے دوران کوشش کی جائے گی کہ عراق اور شام کی طرز پر حملے کئے جائیں گے، اس حکمت عملی کو امریکہ کئی بار آزما چکا ہے لیکن افغانستان میں ابتدائی بمباری کے بعد دوبارہ اس طرح کے حملے نہیں دیکھے گئے جبکہ وہ فوجی جو افغانستان سے ناکامی دیکھ کر گئے ہیں اُن کا کہنا ہے کہ امریکہ کو پہلے فضاء سے افغانستان کی سرزمین پر قائم جنگجوؤں کے ٹھکانوں کو ختم کرنے کیلئے عراق جیسا آپریشن کرنا ہوگا ، یاد رہے کہ امریکہ کچھ عرصہ قبل افغانستان میں دنیا کے بھاری بھرکم بم جن کو وہ بمبوں کی ماں کا نام دیتا ہے ، وہ بھی گراچکا ہے لیکن افغان حلقے اسہم کے استعمال کوکسی حربی کاروائی کے مقابلے میں اسے بم کا تجربہ قراردیتے ہیں اس بم کو افغان صوبے لنگر ہار میں یہ کہہ کراستعمال کیا گیا تھا کہ اس کے ذریعے لنگر ہار میں موجود داعش کے جنگجوؤں کو نشانہ بنایا جائے گا لیکن اس قدر بھاری بھرکم بم گرانے کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے۔

امریکہ کے اس بم تجربے پر سابق افغان صدر حامد کرزئی نے اس وقت بھی کڑی تنقید کی تھی جس میں انہوں نے باکانہ انداز میں الزام لگایا کہ داعش کو افغانستان میں امریکہ کی درپردہ سپورٹ حاصل ہے، دوسری طرف کرزئی کی رائے کے برعکس افغانستان میں امریکی فورس کے سربراہ جنرل جان نکلسن نے نئی امریکی انتظامیہ کو بتایا کہ افغا نستان میں طالبان پھر سے منظم ہورہے ہیں اس لئے امریکیوں سمیت نیٹو ممالک کی تازہ دم فوج کو افغانستان بھیجنا ہوگا۔

جنرل جان نکلسن کی اس عرضی پر نیٹو ممالک سے تاحال کسی نیٹو ممالک نے اپنی فوج نہیں بھیجی حالانکہ 15 نیٹو ممالک نے امریکہ کو برسلز میں نیٹو کے اجلاس کے دوران یقین دھانی کروائی تھی کہ وہ اپنے فوجی افغانستان بھیجیں گے لیکن انہوں نے اپنی فوج دوبارہ افغانستان میں نہیں بھیجی۔ قرائن بتارہے ہیں کہ افغانستان میں نیٹو فوجیوں کی مزید تعداد کا آنا اب محال ہے اس لئے امریکہ کو اب اپنے زور بازو پر انحصار کرنا ہوگا۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈٹرمپ نے اسی وجہ سے افغانستان میں امریکی فوجیوں کو ماہ اگست سے متحارب کردار ادا کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ امریکہ نے افغانستان میں اب چودہ ہزار دفوجی بھیج دئے ہیں، تا ہم امریکی ذرائع ابلاغ اب بھی دعویٰ کررہے ہیں کہ اگر افغانستان میں حالات قابو میں نہ آئے تو ٹرمپ انتظامیہ مزید فوج بھی طالبان سمیت دیگر متحارب جنگجوؤں کو ختم کرنے کیلئے بھیجی جائے گی، اس اضافی فوج کو افغان فوج کے ساتھ نہ صرف فضائی بلکہ زمینی فوجی آپریشن میں بھی شامل کیا جائے گا۔

افغانستان کے حالات کے تناظر میں ٹرمپ انتظامیہ کا یہ بہت بڑا فیصلہ ہے جو حکومت کے گلے میں بھی پڑسکتا ہے کیونکہ طالبان ببانگ دہل یہ بات کہہ چکے ہیں کہ انہیں افغانستان میں غیر ملکی فوجیوں کے زمینی آپریشن کا بے صبری سے انتظار ہے ، دوسری طرف امریکہ نے اپنے اس متوقع اقدام سے قبل افغانستان میں بارود برسانا شروع کردیا ہے، جس کا ندازہ ان اعدادو شمار سے کیا جاسکتا ہے ۔

امریکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی حکمت عملی کے اعلان کے بعد ستمبر میں امریکہ طیاروں نے 751 بم طالبان اور داعش کے مشتبہ ٹھکانوں پر برسائے ، اس سے قبل اگست میں امریکی جنگی طیاروں نے 503 بم طالبان کے مشتبہ ٹھکانون پر برسائے تھے ان حملوں کا مقصد یہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ طالبان کا ماردیا جائے اور اس کے بعد امریکی فوج کو افغان فوج کے ساتھ اکھٹا کرکے بری کا روائیوں کیلئے اتارا جائے گا، تاہم یہ مرحلہ اسی وقت آئے گا۔

جب فضائی قوت کو استعمال کرکے طالبان کو اس قدر کمزور کردیا جائے گا کہ وہ بری حملے کے خلاف کم سے کم مزاحمت کرسکیں۔ امریکہ عراق اور شام میں یہ تجربہ کرچکا ہے لیکن اب سوال یہ ہے کہ کیا تجربہ افغانستان میں بھی کامیاب ہوپائے گا کہ نہیں؟ اس بارے میں کوئی پیش بینی کافی مشکل ہے کیونکہ کچھ عرصہ قبل طالبان نے ایک ایسا امریکی بمبار جہاز گرایا تھا جس کی وجہ سے امریکی اپنے سرپکڑ کر بیٹھ گئے تھے، اس اعتبار سے اگر دیکھاجائے تو امریکہ نے اس جارحانہ پالیسی کیلئے وقت کا چناؤ بہت خوب کیا ہے لیکن جو موقع امریکی تلاش کررہے ہیں وہی وجہ امریکیوں کیلئے بھی انتہائی کھٹن ثابت ہوسکتی ہے جو موسم ہوگا، واضح ہوکہ افغانستان میں ستمبر سے لے کر مارچ تک موسم اس قدر شدید ہوتا ہے کہ متحارب کاروائیاں نہایت مشکل ہوجاتی ہیں اس لئے عام طور پر ان 6 مہینوں میں طالبان جنگجو بھی زیر زمین چلے جاتے ہیں اور پھر جشن نوروز کے ساتھ ہی دوبارہ اپنی حربی کاروائیوں کا آغاز کردیتے ہیں، اس لئے شاید امریکیوں نے سوچا ہوگا کہ طالبان کو اس روپوشی کے دوران ہی ختم کردیا جائے لیکن مشکل یہ ہے کہ موسمی شدت امریکی فضائیہ کیلئے بھی مسئلہ کھڑا کرے گی کیونکہ موسمی شدت کے دوران ان کے طیاروں کیلئے بسااوقات پر واز کرنا مشکل ہوسکتا ہے جبکہ دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ کیا جنگجوؤں کے ٹھکانوں کا بمباری سے پہلے درست طور پر تعین بھی کیا جاسکے گا کہ نہیں؟ ساتھ ہی طالبان جنگجوؤں کو مقامی ہونے کی وجہ سے پیچ راستے ازبر ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے آپ کو بچا لیتے ہیں، بہرحال دونوں کے پاس مثبت اور منفی نکات موجود ہیں اور یہ جوڑ خاصا دلچسپ ثابت ہوگا۔

افغانستان میں یہ عسکری تیاری ایک ایسے وقت میں ہورہی ہے کہ جب پاکستانی فوج کی طرف سے افغانستان میں بھارت کے کردار پر تحفظات کو بے جا قرار دیا جارہا ہے، اگرچہ افغان حکومت نے تو ابھی تک اس بارے میں لب کشائی نہیں کی لیکن افغانستان کے ایک بھارت نواز سیاسی رہنما سابق قانون ساز اور سیاسی جماعت نیشنل سالیڈ یرٹی موومنٹ آف افغانستان کے سربراہ سید اسحق گیلانی نے کہا ہے کہ افغانستان ایک خود مختار ملک ہونے کے ناتے اپنی خارجہ پالیسی ملکی مفادمیں وضع کرنے میں آزاد ہے۔

گیلانی نے یہ بات مسلح افواج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات نے اسلام آباد میں ایک سیمنار کے دوران دئے گئے ریمارکس کے جواب میں کہی تھی جس میں جنرل زبیر نے کہا تھا کہ ان ملکوں کو جن کی افغانستان کے ساتھ کوئی سرحد نہیں ملتی وہاں اسٹریٹجک یا آپریشنل نوعیت کا کوئی کردار سونپنے سے افغانستان کی صورت حال مزید پچیدہ ہوسکتی ہے۔

جنرل زبیر محمود حیات نے یہ بات امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جنوبی ایشیاء سے متعلق پالیسی کا بلواسطہ ذکر کرتے ہوئے کہی تھی جس میں بھارت کو افغانستان میں اہم کردار ادا کرنے کے لئے کہا گیا ہے ۔ سید اسحق گیلانی پاکستان سے کچھ زیادہ ہی شاکی دکھائی دئے کہ انہوں نے اپنے دل کا غبار کچھ اس انداز سے نکالا کہ ”افغانستان پاکستان کی کالونی (نوآبادی) نہیں ہے ، اس کی اپنی (خارجہ) پالیسی اور اپنی سیاست ہے وہ کسی بھی ملک کے ساتھ اچھے تعلقات رکھ سکتا ہے۔

پاکستان کو ٹھنڈے انداز میں اس پر غور کرنا چاہیے اور افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو (بہتر کرنے)پر توجہ دیں تاکہ کسی اور ملک کے لئے وہاں گنجائش نہ (پیدا)ہو۔ اسحق گیلانی کا کہناتھا کہ اگر اسلام آباد اور کابل کے ایک دوسرے کے بارت میں تحفظات ہیں تو وہ بات چیت ہی سے دور ہوسکتے ہیں۔ اسحق گیلانی کی ان باتوں کو افغان ذرائع ابلاغ نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔

افغان حلقے گیلانی کے خیالات کو غنی حکومت کا غیر اعلانیہ مئوقف گردان رہے ہیں۔ افغانستان میں اس قسم کی سوچ دن بدن مضبوط ہوتی جارہی ہے جبکہ ساتھ ہی پاکستان سے یہ تقاضا بھی کیا جاتا ہے کہ وہی تعاون بھی کرے جو بہت مشکل ہے اس لئے اب افغانستان کو بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کا چناؤ امریکی عینک اتار کر کرنا ہوگا تب جا کر اعتماد سازی ممکن ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Talban K Khilaff America ki naii Jangi Hikmat Amlii is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 December 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.