تاج محل کو مندر قرار دینے کی سازش ناکام

”شیومندر یاتیجو مھالیہ“ بھارتی حکومت نے اسے تاریخی اسلامی عمارت تسلیم کرلیا

جمعہ 6 اکتوبر 2017

Taj Mehal Ko Mandir Qrar Dyny Ki Sazish Nakam
رابعہ عظمت:
بابری مسجد پر قبضے کے بعد ہندو فرقہ پرستوں کا اگلا ہدف تاج محل ہے۔ اس کے بارے میں نیاشوشہ چھوڑ دیا گیا ہے کہ شاہکار محبت کی لازوال نشانی کی تعمیر مندر کی زمین پر ہوئی ہے اور اسے قدیم تیجو مہالیہ مندر کاحصہ قراردینے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔ بی جے پی صدر لکشمی کانت واجپائی کا ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہنا ہے کہ مغل حکمران شاہ جہاں نے اس عمارت کی تعمیر کے لئے کچھ زمین ہند راجہ جے سنگھ سے خریدی تھی ۔

واجپائی کا دعویٰ ہے کہ اس سے متعلق دستاویزات اب بھی موجود ہیں ۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ وقف کی ملکیت پر قبضہ جمائے بیٹھے اتر پردیش کے سینئر وزیراعظم خان کی نظر اب تاج محل پر ہے اور مزید کہا کہ تاج محل میں پانچ وقت کی نماز پڑھنے کا مسلمانوں کا خواب کبھی پورا نہیں ہوپائے گا۔

(جاری ہے)

تاج محل کو مندر قرار دینے کی کوششیں کئی عرصے سے جاری ہیں۔

اب تک کئی مرتبہ تاج محل کو مندر قرار دینے کی سازشیں بنائی جاتی رہی ہیں۔ تاج محل کا نقشہ جس طرح سے بنایا گیا ہے ہندو اسے دید مندر کا حصہ قراردیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تاج محل کے مغرب کی سمت جو مسجد ہے وہ سمجھ میں آتی ہے لیکن مشرق کی جو مسجد نما عمارت ، جسے نقار خانہ کہا جاتا ہے۔ اس کی موجودگی کے بارے میں سوال اٹھائے جا رہے ہیں ۔ ہندوؤں کا کہنا ہے کہ مقبروں میں نقار خانے نہیں بنائے جاتے۔

نقار خانے پرانے زمانے میں ہندو مندروں میں ہی بنائے جاتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ تاج محل کی عمارت جو عربی آیات کندہ ہیں۔وہ بھی مندر کے نقش ونگار کو چھپانے کیلئے بنائے گئے ہیں۔ تاج محل میں ایک کنواں بھی ہے جس کے بارے میں ہندو انتہا پسندوں کا کہنا ہے کہ پرانے دور میں مندروں میں ایسے کنویں بنائے جاتے تھے تاکہ خزانہ چھپایا جاسکے۔ اس طرح کے اوٹ پٹانگ دعوؤں کے ذریعے تاج محل کو مندر قرار دینے کی سازش کی جارہی ہے۔

ترنمول کا نگریس کے مطابق دنیا کے تہذیبی ورثہ کی عظمت ووقار کو گھٹانے کی کوشش اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس تاریخی عمارت پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ ہندو فرقہ پرست مورخ پروفیسر بلداج مدھوک دنیا کی اس بے مثال عمارت کو شاہ جہاں اور ممتاز محل کی لافانی محبت کی نشانی نہیں سمجھتے بلکہ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ عمارت راجہ پوت راجہ پرماردیو کا محل یاشیو مندر تھا جس پر مغل شہنشاہ نے قبضہ کرکے اپنی ملکہ کے مقبرہ میں تبدیل کردیا ۔

حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ آگرہ میں دریائے جمنا کے کنارے نفیس سنگ مرمر سے تعمیر یہ روضہ اپنی محبت کی نشانی کے طور پر پانچویں مغل حکمران شاہ جہاں نے تعمیر کروایا تھا۔ فارسی زبان میں ایسی تاریخوں کی کمی نہیں جس میں اس عمارت کی تفصیلی کیفیات اور بنانے والوں کے نام تک درج ہیں۔ اس ضمن میں عدالت نے اس استدال کو مسترد کردیا ۔ ہندو فرقہ پرستوں کا دعویٰ ہے کہ یہ کوئی سو پچاس سال پہلے کی کہانی نہیں ۔

یہاں ہندوؤں کا مندر ہوتا تھا لیکن مغل دور میں کچھ مسلمان حکمرانوں نے اپنے عزیزوں کو یہاں دفنایا تھا اس لئے وہ دعویدار ہوگئے ہمایوں اکبر اور صفدر جنگ کو بھی ایسی عمارتوں میں دفن کیا گیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ شیوا ا مندر تھا تو اس کے دعویٰ میں اربوں ہندوؤں میں سے صرف چند انتہا پسند ہی کیوں واویلا مچا رہے ہیں۔ ان کی وجہ صرف سستی شہرت کا حصول ہے یا پھر ہندو اکثریتی طبقے کو مسلمانوں کے خلاف ورغلایا جارہا ہے ۔

تاج محل شاہ جہاں کی محبت کی نشانی کے طور پر زندہ ہے اور تا قیامت رہے گا جس کے پر شکوہ مینار آج بھی اس محبت کی یاد دلاتے ہیں۔ ماہر تعمیرات کے مطابق اس محل کو جیومیٹری کے مسلمہ اصولوں کے عین مطابق بنایا گیا ہے۔ محل میں واقع مقبروں کے مینار کا سائز مختلف ہے۔ شاہ جہاں کے مقبرے کے مینار ممتاز محل کے مقبرے سے زیادہ بلند ہیں۔ستونوں کے راز تاج محل کے چار مینار ہیں ۔

چاروں کے چاروں محل کی بنیاد سے اٹھائے گئے ہیں اور ایسا زلزلے کہ ممکنہ نقصانات سے تحفظ کیلئے کیا گیا ۔ اگر کبھی ایسا ہوا تو صرف مینار ہی گرے گا باقی عمارت محفوظ رہے گی۔ سیاح ہر طرف سے چاروں میناروں کو ایک ہی زاویے سے دیکھ سکتے ہیں اس وقت کے ماہر تعمیرات نے اس تعمیر میں فیثا غورث کا فارمولا اپنایا اور توازن کے تمام ریاضیاتی فارمولوں سے استفادہ کیا۔

ماہرین کے مطابق تاج محل کو عجوبہ بنانے کی ایک دلیل یہ ہے کہ سارادن اس کے رنگ بدلتے رہتے ہیں ۔ صبح کے وقت اس محل کو گلابی شیڈ میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ شام کو دودھیا سفید اور چاندنی رات کوسنہری دکھائی دیتا ہے۔ 22 ہزار مزدوروں نے دن رات اس کی تعمیر پر حصہ لیا۔ سنگ مرمر اور مقبرہ میں خالصتاََ سفید پتھر یعنی سنگ مرمر استعمال ہوا ہے۔ اس ضمن میں عرب،چین،افغانستان اور سر ی لنکا سے مختلف رنگوں کے قیمتی پتھر منگوائے گئے تھے جن میں سے تقریباََ 30 طرح کے پتھروں کو استعمال میں لایا گیا تھا۔

تاہم تاج محل کی خوبصورتی کا منبع اس کا مقبرہ ہے جسے پیاز کی شکل کا بنایا گیا۔ خوبصورت خطاطی میں اللہ پاک کے 99 ناموں کو بھی گندہ کروایا گیا ہے۔ تاج محل کی مجموعی بلندی 171 میٹر ہے ۔ یہ شاہکار 22 سال میں مکمل ہوا ہے۔ اس کی تعمیر1631ء میں شروع ہوئی اور 1654ء میں یہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔ عمارت کا چبوترا جو سطح زمین سے کئی فٹ اونچا ہے سنگ مرمر کا ہے۔

اس کی پشت پر دریائے جمنا بہتا ہے اور سامنے کی طرف کرسی کے نیچے ایک حوض ہے جس میں فوارے باغ بھی ہیں۔ اس مقبرے کے اندر ملکہ ممتاز اور شاہ جہاں کی قبریں ہیں۔ ہر سال 30 لاکھ سیاح اس کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں یہ تعداد ہندوستان کے کسی بھی سیاحتی مقام پر آنے والے افراد کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ جبکہ اس عظیم یادگار کو ایک طرف تو ہندو فرقہ پرست مندر بنانے کا دعویٰ کررہے ہیں تو دوسری جانب اس کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی جارہی۔

آگرہ میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کے باعث محبت کی اس عظیم یادگار کی رنگت سفید سے پیلی ہوگئی ہے۔ یہ انکشاف 2007ء میں ایک رپورٹ میں کیا گیا تھا۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی سے سنگ مرمر پیلا ہوتا جارہا ہے اور اس تاریخی عمارت کی حقیقی خوبصورتی متاثر ہورہی ہے ۔ رپورٹ میں تاج محل کی خوبصورتی کو بچانے اور سنگ مرمر کو اس کی اصل شکل میں برقرار رکھنے کیلئے اسے صاف کرنے کی سفارش کی گئی تھی جبکہ آرکیا لوجیکل سروے آف انڈیا کے ماہرین کی تحقیق میں یہ حقیقت سامنے آچکی ہے کہ تاج محل کی جگہ پر کوئی مندر نہ تھا۔

اس حوالے سے بھارتی اخبار ” نیوانڈین ایکسپریس“ نے اپنی ایک رپورٹ بتایا ہے کہ عدالت میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کو اس سے شدید صدمہ پہنچاہے جس کا اظہار سوشل میڈیا پر بھرپور انداز میں کیا گیا ہے۔ بی جے پی آگرہ یونٹ کا کہناہے کہ رواں سال مارچ میں بی جے پی اور آر ایس ایس کی چھ رکنی مشترکہ قانونی ٹیم کے سربراہ بیرسٹر ہری شنکر جین کی جانب سے آگرہ سول کورٹ میں دائر کی گئی پٹیشن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ چونکہ سترہویں صدی میں یہ تاریخی عمارت ایک مندر تھا۔

اس لئے عدالت سے استدعا ہے کہ عالمی شہرت یافتہ تاج محل کو قدیم شیو مندر قرار دیا جائے۔ اور اس عمارت کا محکمہ آثار قدیمہ سے لیکر آر ایس ایس کے حوالے کیا جائے تاکہ یہاں مسلمانوں کا داخلہ بند کرکے اس پر تاریخی شیو مندر کا بورڈ لگادیا جائے اوراس مندر میں مقامی و عالمی سیاحوں کاداخلہ بند کرکے ہندوؤں کو پوجا پاٹھ کی اجازت دی جائے۔دراصل عدالتی حکم کے تحت حکومت ہند سے سرکاری موقف مانگا گیا تھا جس پر حکومت نے آرکیا لوجیکل سروے آف انڈیا اور محققین کی ایک ٹیم کو ہندوؤں کے دعوے کی تحقیق کا کام سونپا تھا۔

اس ٹیم نے مسلسل چھ ماہ کی تحقیق کے بعد تحریری طور بی جے پی اور آر ایس ایس کے اس دعوے کو لغو قرار دیکر مسترد کردیا۔ مجموعی اعتبار سے بھارتی حکومت کی تحقیق میں تاج محل کی جگہ کسی مندر یا ہندو مذہبی مقام کی موجودگی کے شواہد نہیں ملے ہیں۔ اس لئے مرکزی حکومت کے بیان وموقف کے بعد یقین ہے کہ عدالت اس مقدمے کو خارج کردے گی جس میں تاج محل کو مندر قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔

تاج محل، مندر کیس میں ایک دلچسپ امریہ بھی ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی چھ رکنی وکلا ٹیم کی جانب سے اس کیس کا مدعی ہندوؤں کے دیو مالائی بھگوان، اگر یشور مہادیو کو بنایا گیا جن کا اس دنیا میں وجود تک نہیں ہے۔ کیونکہ خود ہندو مورخین کے مطابق وہ ایک دیومالائی کردارہے اس کے باوجود سٹی سول کورٹ میں اس کیس کو سماعت کے لئے قبول کر لیا گیا تھا۔

اس پر مسلمانوں میں تشویش پائی جارہی تھی۔ واضح رہے کہ آر ایس ایس او بی جے پی کے وکلاء نے ہندو مورخین کی لکھی کتابوں سے مبینہ تاریخی حوالوں کو بطور رشوت پیس کرتے ہوئے کہا تھا کہ تاج محل بھگوان شیو کے مندر پر بنایا گیا تھا۔ حکومت کو ہر سال تاج محل سے 50 کروڑ سے زائد کی آمدنی حاصل ہوتی ہے جس پر ہندو تنظیموں کی نظریں گڑھی ہوئی ہیں اس لئے ان کی کوشش یہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح تاج محل پر قابض ہو جائیں اس طرح سیاحوں کی آمدنی کے ساتھ ساتھ یہاں آنے والے دولت مند ہندو،ہندوعقیدت مند، ذات پات، کے لئے اربوں روپے فراہم کریں گے۔

ہندوستان کے محکمہ آثار قدیمہ نے پہلی بار تسلیم کیا ہے کہ تاج محل مندر نہیں بلکہ اسلامی تاریخی عمارت اور مقبرہ ہے۔ ہندوستانی آثار قدیمہ حکام نے عدالت میں اس بات کے ثبوت میں 1920ء میں جاری کردہ سرکاری نوٹیفیکشن بھی پیش کیا جس میں تاج محل کی حفاظت کو یقنی بنانے کا حکم دیا گیا تھا۔ سروے میں کہا گیا یہ دنیا کا ساتواں عجوبہ ہے اور 1904ء میں برطانوی دور سے اسے ایسی یادگار تاریخی ورثہ قرار دیا گیا تھا جس کی حفاظت کی جانی چاہیے۔

ہندوستان کی مرکزی وزارت ثقافت بھی وضاحت کرچکی ہے کہ تاج محل کے مندو ہونے کو کوئی ثبوت نہیں ملا۔ تاہم حکومتی اعلان کے بعد سوشل میڈیا پر ملاجلا ردعمل سامنے آیا ہے ۔ ایک بھارت عورت نے ٹویٹ کیا ہے کہ ”اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ تاج محل ہندو ہے یا مندر یاکسی مسلمان نے بنوایا تھا ۔ کیا ہم اسے صرف محبت کی نشانی کے طور پر دیکھ نہیں سکتے“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Taj Mehal Ko Mandir Qrar Dyny Ki Sazish Nakam is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 October 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.