سید صلاح الدین امریکی عتاب کا شکار کیوں․․․؟

امریکہ نے پابندی سید صلاح الدین پر نہیں پاکستان پر لگائی ہے

پیر 10 جولائی 2017

Syed Salahuddin Amrici Ittab Ka Shikar Kiun
ارشاد احمد ارشد:
حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر اور متحدہ جہاد کونسل کے چیئرمین سید صلاح الدین کو امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے ایگزیکٹو آرڈر 13224 کے سیکشن ’ون بی‘ کے تحت خصوصی طور پر نامزد ہشت گرد قرار دے دیا گیا ہے۔کشمیری رہنما سید صلاح الدین کو امریکہ کی طرف سے عالمی دہشت گرد قرار دینا کوئی انہونی نہیں اس لئے کہ امریکہ اس وقت اسلام دشمن طاقتوں کے سرخیل کا کردار ادا کر رہا ہے اس وقت اس کا ہر اقدام اسلام دشمنی پر مبنی ہے۔

سید صلاح الدین کو دہشت گرد قرار دینے کے دو پہلو بہت اہم ہیں ایک یہ کہ امریکہ نے یہ قدم عین عیدالفطر کے دن۔۔۔۔دوسرا پہلو یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور مودی ملاقات سے چند گھنٹے قبل یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔

(جاری ہے)

اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس اقدام کے پیچھے اسلام اور پاکستان دشمنی کا جذبہ کارفرما ہے۔یہی وجہ ہے کہ بھارت ن ے دل وجان سے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔

بات یہ ہے کہ یہود وہنود ہم قافیہ ہی نہیں ہم مزاج اور ہم خیال بھی ہیں۔دونوں اسلام دشمن ہیں۔امریکہ یہودیوں کی کھونٹی سے بندھا ناچ رہا ہے اور بھارت امریکی کھونٹی سے بندھا ہوا ہے۔ سید صلاح الدین کو دہشت گرد قرار دینے کا یہی پس منظر ہے۔
اس سے پہلے امریکہ پروفیسر حافظ سعید کو دہشت گرد ہی نہیں بلکہ ان کے سر کی قیمت بھی لگا چکا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کے حربوں اور ہتھکنڈوں سے آزادی کی تحریکوں کو دبایا جاسکتا ہے۔

تو یقینا اس کا جواب نفی میں ہے۔اگر آزادی کے سالاروں کو دہشت گرد قرار دینے اور ان کے سروں کی قیمتیں لگانے سے آزادی کی تحریکوں کو کچلنا ممکن ہوتا تو آج امریکہ برطانوی راج کے تسلط سے آزاد ہوتا اور نہ ہندوستان آزاد ہوتا۔برطانوی استعمار کے پنجہ استبداد سے امریکہ اور ہندوستان کی آزادی اس بات کا ثبوت ہے کہ جب کوئی قوم آزادی حاصل کرنے کا فیصلہ کرلے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر نہیں رکھ سکتی۔

یہی حال کشمیری قوم کا ہے اہل کشمیر بھی بھارت سے آزادی حاصل کرنے اور غلامی کی زنجریں توڑنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔جس قوم کو سید صلاح الدین جیسے مجاہد کمانڈر کی قیادت نصیب ہو بھارت کے لئے ایسی قوم کو زیادہ دیر غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رہنا ممکن نہیں۔سیدصلاح الدین اس وقت تحریک آزادی کشمیر کے عسکری میدان کی سب سے معروف اور مقبول شخصیت ہیں اور گذشتہ 28 سال سے اپنے وطن کی آزادی کے لئے برسرپیکار ہیں۔

سید صلاح الدین کا اصل نام سید یوسف شاہ ہے جبکہ سید صلاح الدین ان کا کوڈ نام ہے تاہم اس وقت وہ اپنے اصل نام کی بجائے کوڈ نام سے ہی دنیا بھر میں معروف ہیں۔اپنے خاص حلقہ میں وہ ”پیرصاحب“ کے نام سے جانے اور پکارے جاتے ہیں۔سید صلاح الدین پاکستان کے قیام کے چھ ماہ بعد یعنی فروری 1948ء میں وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام کے علاقے سونبگ میں پیدا ہوئے۔

ان کے والد بھی اگرچہ گدی نشین تھے اور ان کے اراد تمندوں کا وسیع ترین حلقہ تھا لیکن انہوں نے مریدوں سے نذرانے وصول کرنے ان نذررانوں کے ذریعے کاوربار حیات چلانے کی بجائے رزق حلال کمانے کے لیے محکمہ ڈاک میں ملازمت اختیار کی۔سید صلاح الدین نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کی۔بچپن میں ان کا رجحان طب کے پیشہ کی طرف تھا۔لیکن بعد میں سول سروس میں شمولیت کا فیصلہ کیا اور طب کی جگہ سیاسیات کے مضمون کا انتخاب کیا۔

لیکن خالق کائنات نے روز ازل طب اور سول سروس کی بجائے اس نوجوان کا انتخاب ایک عظیم مقصد کے لئے کر لیا تھا۔یہی وجہ تھی کہ سری نگر کی کشمیر یونیورسٹی سے 1971ء میں پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر ڈگری حاصل کی اور دوران تعلیم ہی پیری فقیری کے لیے مشہور خاندان کا یہ ہونہار نوجوان جماعت اسلامی سے متعارف ہوا،جس سے زندگی کا رُخ ہی تبدیل ہوگیا۔تب سرکاری ملازمت کی بجائے اسلامی انقلاب،وطن کی آزادی اور بھارتی استعمار کے خلاف جدوجہد اس نوجوان کی زندگی کا مشن ٹھہرا۔

قدر ت اس نوجوان کی مزیدتربیت کرنا چاہتی تھی لہذا سید صلاح الدین نے یونیورسٹی دور میں جماعت اسلامی کی ذیلی طلبہ تنظیم جسے اُس وقت “جماعت اسلامی شعبہ طلبہ“ کہا جاتا تھا میں شمولیت اختیار کی اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک مقامی دینی مدرسے میں بطور مدرس تدریس کے مقدس شعبہ سے وابستہ ہوگئے۔ سید صلاح الدین فطری قائدانہ صلاحیتوں کے مالک ،دین کی اشاعت و تبلیغ اور
ہو حلقہ پاراں تو ریشم کی طرح نرم
رزم حق وباطل ہوتو فولاد ہے مومن
کے جذبہ صادق سے مالامال تھے۔

یہی وجہ تھی کہ سری نگر آبائی علاقہ نہ ہونے کے باوجود بھی پوری تندہی سے دعوت دین کا کام کرتے ہوئے وہ جلد ہی نہ صرف جماعت اسلامی سری نگر کے امیر منتخب ہو گئے بلکہ عوام کی بے لوث خدمت کے ذریعے سری نگر کی سیاست میں بھی اپنانام اور مقام بنا لیا۔1987ء میں مقبوضہ جموں کشمیر میں ریاستی اسمبلی کے انتخاب کا معرکہ لڑا گیا اس معرکہ میں اسلام پسند اور آزادی پسند جماعتوں نے ”متحدہ مسلم محاذ“کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا۔

سید صلاح الدین سمیت ”متحدہ مسلم محاذ“ کے تمام امیدواربھاری اکثریت سے جیت رہے تھے لیکن ”متحدہ مسلم محاذ“ کی جیت بھارتی حکمرانوں کو کسی طرح قبول نہ تھی یہی وجہ تھی کہ انتخابات کو ہائی جیک کر لیا گیا۔سید صلاح الدین کی بجائے نیشنل کانفرنس کے امیدوار خواجہ غلام محی الدین شاہ کی جیت کا اعلان کردیا گیا۔اس اعلان کے ساتھ ہی سید صاحب کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔

یہی صورتحال دیگر تمام حلقوں کی تھی بھارتی حکمران نہیں چاہتے تھے کہ اسمبلی میں آزادی پسندوں کی آواز گونجے۔اس کھلی دھاندلی کے خلاف عوام نے سخت رد عمل کا اظہار کیا اور یہی ردعمل مقبوضہ جموں کشمیر کی تحریک آزادی کا ایک موڑ ثابت ہوا۔ پوری وادی میں ہر طرف مظاہرے ،ہنگامے پھوٹ پڑے،نوجوانوں نے تھانوں پر حملے کیے پولیس اہلکاروں سے اسلحہ چھین لیا اور تھانے نذر آتش کر دیئے گئے۔

یہ وقت تھا جب کشمیری قائدین اور کشمیری نوجوان پر یہ بات واضح ہو گئی کہ بھارت شرافت سے ان کے حق خودارادیت کے مطالبہ کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔لہذا کشمیری قوم نے بھارت کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔اس موقع پر جن نوجوانوں نے مسلح جدوجہد شروع کی ان میں سید صلاح الدین بھی شامل تھے۔چنانچہ دو سال بعد 1989 میں جب وہ جیل سے رہا ہوئے تو حزب المجاہدین میں شامل ہوگئے۔

1992ء میں ان کو حزب المجاہدین کی مجلس شوریٰ نے اپنی جماعت کا سپریم کمانڈر منتخب کر لیا۔تب انہوں نے سید یوسف شاہ کی بجائے ”صلاح الدین ایوبی“ کی نسبت سے اپنے لئے نیا نام تجویز کیا اوع آج اسی نام سی دنیا میں جانے جاتے ہیں۔ سید صلاح الدین 1996 میں پہلی دفعہ آزاد کشمیر آئے،یہاں ان کا والہانہ اور پرجوش استقبال کیا گیا۔بعد ازاں ان کو مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد کرنے والی چودہ مسلح تنظیموں کے اتحاد ”متحدہ جہاد کونسل“کا چیئرمین مقرر کیاگیا۔

وہ تب سے حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر اور ”متحدہ جہاد کونسل“ کے چیئر مین چلے آرہے ہیں۔ سال 2000ء میں بھارت نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اچانک مسلح جدوجہد روکنے کی تجویز پیش کردی۔یہ ان کی نہایت ہی خطرناک اور گہری چال تھی۔ہندو اس طریقے سے مجاہدین کو بدنام اور دنیا میں تنہا کر نا چاہتا تھا۔لیکن سید صلاح الدین نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے ذریعے اور حزب المجاہدین کے فیلڈ کمانڈر عبدالمجید ڈار نے مقبوضہ کشمیر میں 15روزہ یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کرکے بھارتی منصوبہ سازوں کو چکراکر رکھ دیا۔

یوں بھارتی حکمران اپنی ہی بچھائے جال میں پھنس گئے اور ساری دنیا کے سامنے مسئلے کے حل کے حوالے سے دیے گئے اپنے بیانات سے مگر گئے ۔سید صلاح الدین کشمیری کے علاوہ اردواور انگریزی زبانوں پر یکساں عبور رکھتے ہیں اور تینوں زبانوں میں یکساں روانی سے گفتگو کرتے ہیں۔ سید صلاح الدین سے خاکسار کی پہلی ملاقات دسمبر2000 ء میں مظفر آباد میں ہوئی تھی۔

اس ملاقات کی خوشگوار یادیں آج بھی ذہن میں تروتازہ ہیں۔اس موقع پر سید صلاح الدین سے کئی معاملات پر گفتگو ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ ہماری جدوجہد اچانک شروع نہیں ہوئی بلکہ اس کے پیچھے ہمار ا چالیس سال مختلف سیاسی وسفارتی محاذوں پر کام کرتے رہے ہیں،اس کے بعد ایک وقت آیا جب ہمیں یقین ہو گیا کہ مقبوضہ جموں کشمیر کی آزادی خونِ شہیداں سے روبہ عمل آئے گی تب ہم نے عسکری جدوجہد شروع کی ۔

سید صلاح الدین اور کاسارا خاندان پاکستان کے حوالے سے انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا”اللہ کے بعد ہم اپنا سب سے بڑا مددگار پاکستان کو سمجھتے ہیں۔مکہ مدینہ کے بعد پاکستان ہمارے لئے مقدس ترین ہے۔اپنے وطن کی آزادی کے ساتھ ساتھ ہم ہروقت پاکستان کے استحکام کے لئے دعا گوہیں“۔اس سلسلے میں سید صلاح الدین نے ایک بہت ہی ایمان افروز واقعہ سنایا کہنے لگے میرے بھائی سید غلام محمد تحریک محاذ رائے شماری کے ضلعی صدرتھے۔

۔۔۔انہوں نے اپنی وفات کے وقت پر وصیت کی تھی کہ جب کشمیر آزاد ہوجائے اور پاکستانی احباب کشمیر میں تشریف لے آئیں تو میری قبر پر کھڑے ہوکر بتا دینا تاکہ میری روح کوسکون حاصل ہوجائے۔ یہ ہیں سید صلاح الدین اور ان کے اہل خانہ۔پاکستان سے بے لوث،بے پایاں محبت کرنے اور پاکستان کے نام پر جانیں قربان کرنے والے۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو امریکہ نے پابندی سید صلاح الدین پر نہیں پاکستان پر لگائی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ امریکہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کوشش کرنے والے ہر شخص کو گھیرنا اور سرنگوں کرنا چاہتا ہے ۔ان حالات میں ضروری ہوچکا ہے کہ ہم امریکہ کی چالوں کو سمجھیں اور اہل کشمیر کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کریں۔ہمیں اپنی سابقہ پالیسیوں پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔پرویز مشرف نے افغان پالیسی پر یوٹرن لیا تھا اور کہا یہ گیا تھا کہ یم نے یہ یوٹرن تحریک آزادی کشمیر کو تحفظ دینے کے لئے لیا ہے۔آج حالات نے پرویز مشرف کے اس فیصلے کو غلط ثابت کر دیا ہے لہذا اب وقت آپہنچا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کا ازسر نو جائزہ لیا جائے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنے اندر اتحاد واتفاق پیدا کریں،خود کو مضبوط ومستحکم کریں اس لئے کہ مضبوط پاکستان ہی مسئلہ کشمیر کے حل کا ضامن ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Syed Salahuddin Amrici Ittab Ka Shikar Kiun is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 July 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.