سیاسی جماعتوں میں فصلی بیڑوں کی اڑانیں

2018ء کے الیکشن نزدیک آنے کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک دوسرے کی ڈال پر اڑانیں بھرنے کامقابلہ شروع ہو گیا پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ،تحریک انصاف اور پاک سرزمین پارٹی نے پے در پے ایک سے دوسری جگہ اڑان بھری ہے۔ کوچ کر جانے کی اس دوڑ میں سب سے زیادہ نقصان ایم کیو ایم نے اٹھایا ہے

جمعرات 5 اپریل 2018

siyasi jamaaton mein fasli beron ki uranay
 شہزاد چغتائی
2018ء کے الیکشن نزدیک آنے کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک دوسرے کی ڈال پر اڑانیں بھرنے کامقابلہ شروع ہو گیا پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ،تحریک انصاف اور پاک سرزمین پارٹی نے پے در پے ایک سے دوسری جگہ اڑان بھری ہے۔ کوچ کر جانے کی اس دوڑ میں سب سے زیادہ نقصان ایم کیو ایم نے اٹھایا ہے۔ سندھ میں مسلم لیگ (ن) کے واحد رکن قومی اسمبلی پہلے ہی پیپلز پارٹی میں چلے گئے تھے۔

اب تک مسلم لیگ کے تین ارکان صوبائی اسمبلی بغاوت کرچکے ہیں جبکہ پنجاب اور کے پی کے میں مسلم لیگ(ن) تحریک انصاف کے کپتان کی وکٹیں گرارہی ہے۔ پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال نے ایم کیو ایم فاروق گروپ کی تین زنانہ پتنگیں کاٹ دی ہیں جس کے ساتھ مصطفی کمال گروپ کے پارلیمانی ارکان کی تعداد 14 ہو گئی۔

(جاری ہے)

ان تینوں نے مختلف اوقات میں مصطفی کمال کے ساتھ بیٹھ کر پریس کانفرنس کی۔

ڈاکٹر فاروق ستار تین پارتی کی تین خواتین کے داغ مفارقت دیئے جانے سے زیادہ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے دلبرداشتہ ہوئے ہیں۔لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ دیدیا جس کے بعد وہ فاتحانہ انداز میں مصالحت کیلئے پہنچ گئے لیکن بات نہیں بنی۔ خالد مقبول صدیقی نے کہاکہ الیکشن کمیشن میں اب تک میرا نام کنوینر کی حیثیت سے موجود ہے۔

دونوں گروپوں میں دوستی نہیں ہو سکی‘ بات چیت ضرور ہوئی کیک پیسٹریاں اڑائی گئیں‘ لسی پی گئی‘ ماحول کشیدہ تھا فاروق ستار فیملی ماحول بنانا چاہتے جس کیلئے وہ بھابھی کو بھی ساتھ لے گئے تھے۔
22 اگست سے اب تک ایم کیو ایم کو 6 خواتین داغ مفارقت دے چکی ہیں جن میں تین پاک سرزمین پارٹی میں چلی گئیں۔ ہیر سوہوپیپلز پارٹی کو پیاری ہو گئیں‘ ارم عظیم فاروقی ہوا میں معلق ہیں اور ایک نے اب تک اپنے مستقبل کا فیصلہ نہیں کیا۔

پاک سرزمین پارٹی کی یہ انفرادیت ہے کہ اس نے تحریک انصاف کی وکٹ بھی گرا دی‘ تحریک انصاف کے رکن اسمبلی حفیظ الدین اب پاک سرزمین پارٹی کا حصہ ہیں۔ ایم کیو ایم کے اندر دھڑے بندی کا سب سے زیادہ فائدہ پاک سرزمین پارٹی کو ہو رہا ہے اور مایوس ارکان اسمبلی پی ایس پی میں جا رہے ہیں۔ تین باجیوں کے بعد ایم این اے عبدالوسیم نے بھی وفاداریاں بدل لیں۔

اس موقع پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے پی ایس پی کے رہنما انیس قائم خانی نے ڈاکٹر فاروق ستار اورڈاکٹر مقبول صدیقی کو بھی شمولیت کی دعوت دیدی۔ اس دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف حکم امتناعی جاری ہونے کے بعد ایم کیو ایم کے دھڑوں کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے۔ لیکن ان کے رہنماؤں کواس بات کا بھی احساس ہے کہ آپس میں اتحاد کئے بغیر وہ الیکشن نہیں جیت سکیں گے۔

ایم کیو ایم بہادر آباد اور ایم کیو ایم پی آئی بی کالونی کے مذاکرات بے نتیجہ رہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار بڑی توقعات لے کر گئے تھے لیکن ان کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ کچھ حلقوں کا دعویٰ ہے کہ مذاکرات سبوتاڑ کر دیئے گئے عامر خان نے ڈاکٹر فاروق ستار سے ملاقات نہیں کی وہ اس وقت بہادر آباد میں موجود تھے۔ میڈیا نے جب عامر خان سے استفسار کیا کہ کیا وہ فاروق ستار سے ملنے آئے ہیں تو انہوں نے کہاکہ میں اپنے آفس آیا ہوں۔

ڈاکٹر فاروق ستار چاہتے ہیں کہ کسی طرح ان کی ڈاکٹر خالد مقبول سے ون آن ون ملاقات ہوجائے تو معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔ بہادر آباد میں ڈاکٹر فاروق ستار کو پذیرائی نہیں ملی خالد مقبول ان کی پسندیدہ شخصیت ہیں لیکن انہوں نے بھی طعنے دیدئیے۔ دونوں دھڑے مذاکرات میں کس قدر سنجیدہ ہیں کہ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عامر خان کمرے سے باہر نہیں نکلے ڈاکٹر صاحب نے کہاکہ وہ مذاکرات کیلئے کل آئیں گے اور دوسرے دن بہادر آباد آنے کے بجائے اہلیہ کے ساتھ دبئی چلے گئے‘ اس روز پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال سعودی عرب جا رہے تھے۔

یہ کوئی اتفاق تھا یا طے شدہ پلان تھا کہ دونوں رہنما ایک ساتھ بیرون ملک جارہے تھے سیاسی حلقے اس پر شکوک وشبہات کا اظہار کر رہے ہیں۔ کراچی ایء رپورٹ کے لاؤنج میں مصطفی کمال اور فاروق ستار کی ملاقات بھی ہوگئی دونوں ایک دوسرے کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ بعض حلقوں کا دعویٰ ہے کہ فاروق ستار اور مصطفی کمال دونوں کو دبئی طلب کیا گیا ہے جہاں نیا فارمولا بنے گا آئندہ انضمام کے بجائے پاک سرزمین پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان اتحاد ہوگا اوردونوں پتنگ کے نشان سے الیکشن لڑیں گے۔

اس سے پہلے پاک سرزمین پارٹی اور ایم کیوا یم کے درمیان نومبر 2017ء میں معاہدہ ہوا تھا جس کو ایم کیو ایم کے انتہا پسند گروپ نے ناکام بنا دیا تھا۔ نومبر 2017ء کے معاہدے میں جو خامیاں تھیں ان کو دور کیاجارہا ہے مصطفی کمال پتنگ کے نشان سے الیکشن لڑنے کیلئے تیار نہیں اورفاروق ستار پتنگ کا نشان چھوڑنے کیلئے تیار نہیں۔ مصطفی کمال اور فاروق ستار کے اتحاد میں اس وقت عامر خان حائل ہیں۔

ان کی مخالفت کے باعث اب طے کیا گیا ہے کہ ایم کیو ایم کا نام تبدیل ہوگا دونوں جماعتیں اپنے اپنے نام سے الیکشن لڑیں گی تاکہ کراچی کا ووٹ بنک پیپلز پارٹی کے ہاتھوں لٹنے سے بچایا جائے۔ تحریک انصاف کراچی سے دوبارہ 8 لاکھ ووٹ لینے کی پوزیشن میں نہیں۔ تحریک انصاف کے تلوں میں تیل ہوتا تو پی ایس پی اورایم کیو ایم کا اتحاد کرانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔

باخبر حلقے کہتے ہیں کہ بہادرآباد سے اتحاد کیلئے فاروق ستار سنجیدہ نہیں ہیں۔
ادھر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اورچیف جسٹس ثاقب نثار کی ملاقات کے بعد مسلم لیگ کی جارحانہ پالیسی میں مزید شدت آگئی اورلہجے تلخ ہو گئے جس کی وجہ یہ ہے کہ محمد نوازشریف کسی کمزوری کا تاثر دینے کیلئے تیار نہیں۔ انہوں نے جلاوطنی کی پیشکش مسترد کر دی ہے اورجیل جانے کیلئے پرعزم ہیں لیکن جمہوریت کی بقا کیلئے محمد نوازشریف کی حکمت عملی مختلف ہے وہ تمام سیاسی جماعتوں کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں جن میں پیپلز پارٹی بھی شامل ہے۔

سابق وزیراعظم نے یہ اعتراف کر لیا کہ مسلم لیگ کے سربراہ کی حیثیت سے ان کو میمو گیٹ اسکینڈل میں عدالت میں نہیں جانا چاہئے تھا۔ سابق وزیراعظم کا یوٹرن درحقیقت پیپلز پارٹی کیلئے مفاہمت کا پیغام ہے۔ ایک ایسے وقت جب سیاسی حلقے یہ طے کر چکے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور حکمراں جماعت وزیراعظم کیلئے کسی نام پر متفق نہیں ہوسکیں گے اتفاق رائے کا وزیراعظم لانے کیلئے مسلم لیگ(ن) کی کوششیں جاری ہیں۔

نگراں سیٹ اَپ کیلئے پیپلز پارٹی کی حکمت عملی مختلف ہے الزام لگانے والے باخبر حلقے کہتے ہیں کہ وہ بیک ڈور سے نگراں وزیراعظم لانا چاہتی ہے کیونکہ جب حکومت اوراپوزیشن کسی نام پر متفق نہیں ہوں گی تو الیکشن کمیشن نگراں وزیراعظم کا فیصلہ کرے گا اوروہ پیپلز پارٹی کا حمایت یافتہ ہو گا۔ مسلم لیگ کی جانب سے عمران خان کے ساتھیوں کو اپنی صفوں میں شامل کرنا بے معنی مشق ہے جس سے مسلم لیگ کو کوئی فائدہ نہیں۔

عمران خان کے رشتہ داروں کو جمع کر کے مسلم لیگ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ دوسری جانب کراچی میں رکنیت سازی کی مہم چلانے کے بعد عمران خان لاہور اور پنجاب کے انتخابی میدان میں اتر گئے ہیں انہوں نے 29 اپریل کو لاہور میں جلسہ عام کا اعلان کیا ہے۔ لیکن پنجاب محمد نوازشریف کے ساتھ کھڑا ہے۔ مسلم لیگ کے ووٹ بنک میں بہت اضافہ ہوا ہے مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف اورحمزہ شریف کا پنجاب کے انتخابی میدان پر کنٹرول ہے وہ 2008ء سے ناقابل تسخیر ہیں اب تو مریم نواز بھی ان کے ساتھ ہیں‘ ووٹ تو محمد نوازشریف کو پڑتا ہے لیکن ووٹرز کو شہباز شریف اورحمزہ شہباز پولنگ اسٹیشن تک لاکر جیت کو یقینی بناتے ہیں۔

محمد نوازشریف کے ساتھ اب مریم نوازکا بھی ووٹ بنک ہے اس بار مریم نواز کے نام پر بھی بہت ووٹ پڑیں گے۔ مریم نواز شریف کے آنے کے بعد مسلم لیگ کم از کم پنجاب میں ناقابل شکست ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

siyasi jamaaton mein fasli beron ki uranay is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 05 April 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.