شرعی قوانین خطرے میں ،طلاق ثلاثہ غیر آئینی قرار

ہندو راشٹریہ کوڈ کا نفاذ مسلم تنظیموں کے ذمہ دار سپریم کورٹ میں شرعی قوانین کی حفاظت میں ناکام

منگل 26 ستمبر 2017

Shraii Qawannen Khatry Me  Talaq Slassa Ghair AInee Qrrar
رابعہ عظمت
مودی حکومت کی مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت کا سلسلہ جاری ہے اور مسلم پرسنل لاء پر کاری ضرب لگانے کیلئے بھارتی سپریم کورٹ کی خدمات لی گئی ہیں جس نے حالیہ فیصلے میں طلاق ثلاثہ کو غیر آئینی قراردیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کردی ہے۔ بھارتی عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ تین طلاق کا عمل قرآن مجید کے بنیادوں ضابطوں کے خلاف ہے۔

عدالتی فیصلے پر وزیراعظم نریندرمودی نے کہا کہ یہ خواتین کو با اختیار بنانے اور مسلم خواتین کو برابری کا حق فراہم کرنے کی سمت میں اہم قدم ہے، چنانچہ یہاں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ یہ معاملہ اب طلاق تک محدود نہیں رہے گا بلکہ یہ ہندو راشٹرسول کوڈ تھوپنے کے ایجنڈا کا ہی ایک حصہ ہے اور آہستہ آہستہ ہندوستان کو ہندو راشٹریہ میں تبدیل کرنے کی جانب پہلا قدم ہے۔

(جاری ہے)

انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک کے سٹڈیز صدر نے کہا کہ مسلم تنظیموں کے ذمہ دار سپریم کورٹ میں شرعی قوانین کی حفاظت میں ناکام رہے ہیں لہٰذا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور ملی تنظیموں کے عہدیداران کو اخلاقیات کی بنیاد پر اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے بھی زیادہ تکلیف کی بات تو یہ ہے سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد اس سنگین موضوع پر مسلم سماج رہنمائی نہیں کر پارہے ہیں یوں تو بھارتی میڈیا نے اس فیصلے کے حق میں دلائل دینے کی دوڑ لگا رکھی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے عورت کو آزادی ،وقار اور تحفظ دیا ہے۔

اسلام سے قبل عورت کی حیثیت جانور جیسی تھی۔ عورت کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کردیا جاتا تھا ۔ اس کو جینے کا حق اسلام نے دیا اور بھارتی نام نہاد مفکر نے یہ واویلا مچا رکھا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے مظلوم خواتین کو انصاف ملا ہے۔ انہیں آزادی ملی ہے، مساوات کا درجہ ملا ہے جبکہ ایک ہی نشست میں طلاق کا مسئلہ درحقیقت کوئی مسئلہ نہیں بلکہ اس کو بعض مفاد پرست عناصر کی جانب سے اچھا لاگیا اور اس کو انتہائی ظالمانہ طریقہ کار کے طور پر پیش کی گیا ۔

بھارتی عدالت نے اس کو ایک غلط رواج قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ اس مذہبی معاملہ کو خالص سیاسی مفادات کے لئے اچھالا گیا اور اسے ایک غلط انداز میں پیش کرتے ہوئے اس کو مسلم پرسنل لاء کے ایک ظالمانہ وجاہلانہ قانون کے طور پر پیش کرنے کی پوری پوری کوشش کی گئی۔ حالانکہ حقیقت کے بالکل برعکس ہے لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتاکہ اس معاملے کو اس حد تک پہنچانے میں خود مسلم سماج کے ذمہ داروں کی کوتاہی بھی شامل ہے۔

32 سال قبل شاہ بانو کیس میں مسلم پرسنل لاء بورڈ نے عدالت کویقین دلایا تھا کہ وہ ثلاثہ و حلالہ جیسے مسائل کے حوالے سے ضروری تبدیلیاں اور اقدامات رویہ عمل لائیں گے تاکہ دوبارہ ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہو لیکن بورڈ ایسے اقدامات کرنے میں ناکام رہا۔ مسلم سماج میں طلاق کی شرح آج بھی دیگر مذہب سے بہت کم ہے اس سے حالات دگرگوں ہوتے جارہے ہیں اور مسلم دشمن طاقتوں کو اس سے ایک بہترین موقع ملا گیا ہے۔

یکساں سول کوڈ کے لئے عرصہ دراز سے بی جے پی اور اس کی حلیف بھگوا جماعتیں کوشاں ہیں اور براہ راست اس معاملے کو چھیڑنے کے بجائے اس کی ایک شق طلاق ثلاثہ کے ذریعہ راہ ہموار کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور انہیں اس میں بڑی کامیابی بھی مل چکی ہے۔ سبرامنیم سوامی اور وزیر اعلیٰ اتر پردیش نے اس فیصلے کو یکساں سول کوڈ کی سمت ایک پیش رفت قرار دیا۔

اب مسلم پرسنل لاء بورڈ کے لئے یہ لازمی ہے کہ وہ پوری یکسوئی کے ساتھ پرسنل لاء اور شریعت کے تحفظ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ شاہ بانو کیس کے بعد مسلم پرسنل لاء بورڈ اور دیگر تنظیموں نے 1985 ء میں جو مہم چھیڑی تھی اور جس کے نتیجہ میں بورڈ کی رضا مندی سے مرکزی حکومت نے مسلم خاتون ایکٹ کے عنوان سے جو قانون1986ء میں بنایا تھا وہ کالعدم ہوگیا اور حال ہی میں جو ”شریعت بچاؤ اور آئین بچاؤ“ عنوان سے مہم چلائی تھی اور جس میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ تین طلاق کے خلاف معاملہ یکساں سول کوڈ کی طرف پیش قدمی ہے اور تین طلاق کو بدستور برقرار رکھا جائے جبکہ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ” تین طلاق اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہ اور اس روایت کو آئین کے آرٹیکل 25 بنیادی حقوق سے متعلق کا تحفظ حاصل نہیں ہے لہٰذا اسے ختم کردینا چاہیے“ حالانکہ مسلم پرسنل لاء بورڈ عدالت سے درخواست کرتا رہا کہ اس معاملے میں عدالت کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے ، لیکن عدالت نے اس میں مداخلت کرکے تین طلاق کو غیر آئینی قراردیدیا ۔

اس میں موجود مرکزی سرکار کی بدنیتی پر مبنی دلچسپی کا بھی بڑا دخل ہے۔ ایشیا کی عظیم درسگاہ دارالعلوم دیوبند کے مہتم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے کہا کہ تین طلاق شریعت اسلام کا مسئلہ ہے جس کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا ۔یہ کسی انسان کا بنایا ہوا قانون نہیں بلکہ قرآن وحدیث سے ثابت ہوتا ہے اس لئے اس میں مداخلت قابل قبول نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ کسی کے بھی مذہب میں حکومتی مداخلت سراسر غلط ہے۔

مسلمانوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزاریں۔ ملک میں ایسا فرقہ موجود ہے جو طلاق ثلاثہ کے بہانے یکساں سول کوڈ نافذ کرانے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے، گزشتہ سال سپریم کورٹ میں بھارتی ریاست اتراکھنڈ کی رہنے والی مسلمان خاتون سائرہ بانو نے طلاق ثلاثہ ،نکاح، حلالہ کی آئینی روایت کو بھی چیلنج کیا تھا۔ سائرہ نے مسلم پرسنل لاء کے تحت خواتین کے ساتھ جنسی تفریق کے مسائل اور یکطرفہ طلاق اور آئین میں ضمانت کے باوجود پہلی شادی کے رہتے ہوے دوسری شادی کرنے کے ایشو پر غور کرنے کی درخواست بھی دی تھی۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ طلاق ثلاثہ بھارتی آئین کی دفعہ 14,15 کے تحت ملنے والے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے کئی درخواستیں بھی دی گئیں۔ اس معاملے میں بھارتی سپریم کورٹ نے بھی از خود نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس سے درخواست کی تھی کہ وہ خصوصی بنچ کی تشکیل کریں تاکہ تفریق کی شکار مسلم خواتین کے معاملوں کو دیکھا جاسکے۔

سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کے اٹارنی جنرل اور نیشنل لیگل سروس اتھارٹی کو جواب داخل کرنے کو کہا تھا۔ عدالت میں درخواست گزار کے وکیل رام جیٹھ ملانی نے طلاق ثلاثہ کو نفرت انگیز بناتے ہوئے کہا کہ یہ خواتین کو طلاق کا یکساں حق نہیں دیتا۔ شادی ختم کرنے کے اس طریقے کے حق میں کوئی دلیل نہیں دی جاسکتی، دوسری مسلم علماء دانشوروں میں اس عدالتی فیصلے پر شدید اختلافات پایا گیا ہے ۔

بعض نے فیصلے کو درست قرار دیا ہے اور بعض نے اسے غیر آئینی قراردیا ہے اور بعض نے اس پرتشویش کا اظہار کیا ہے ۔ وزیر قانون روی شنکر پر ساد کا کہنا ہے کہ تین طلاق پر نیا قانون بنانے کی ضرورت نہیں، عدالت کا فیصلہ ہی ملک کا قانون ہے۔ حکومت کے ایک سنیئر افسر نے بتایا کہ اگر کوئی شوہر ایک بار میں تین طلاق بولتا ہے تو اب شادی ختم نہیں ہوگی جبکہ بھارتی میڈیا مسلمان عورتوں کا ہمدرد بن کر ایسے سامنے آگیا ہے جیسے 14 سو سال بعد مسلمانوں کو حقوق ملے ہیں، انہیں آزادی نصیب ہوئی ہے، حالانکہ کروڑوں مسلم عورتوں نے اپنے دستخطوں سے اسلامی شریعت اور مسلم پرسنل لاء کی حمایت میں دستخطی مہم کا اعلان کیا تھا اس وقت بھارتی متعصب میڈیا کہا تھا۔

اس وقت میڈیا نے سرد مہری کا ثبوت دیا تھا اب اسلام مخالف فیصلہ سامنے آنے پر وہ بھی مسلمانوں کا بڑا عمدرد بن بیٹھا ہے۔ یہ میڈیا اس وقت کہا ں ہوتا ہے جب گائے کے تحفظ کے نام پر مسلم عورتوں کو بے آبرو کیا گیا۔ ان کے شوہروں کو مارا پیٹا گیا، جان سے ماردیا۔ طلاق ثلاثہ خالص اسلامی قوانین کے مطابق ہی حل ہونا چاہیے لیکن مودی حکومت نے اسے اچھال کر مسلم عائلی قوانین کو عدم تحفظ سے دوچار کردیا ہے، اگر کسی نے ایک ساتھ تین طلا ق دیدی تو قانون کے لحاظ سے کچھ نہ ہوگا جبکہ شرعاََ طلاق کا وقوع ہوجائے گا اگر وہ دونوں ساتھ رہتے ہیں تو شریعت کی روسے ناجائز ہوگا جبکہ قانونی طور پر وہ اکٹھے رہ سکتے ہیں۔

اندازہ کیجئے گا اس فیصلے کا مسلم سماج پر کیا اثر پڑے گا؟ جس سے موجودہ حکومت کی مسلم دشمنی نمایاں ہے جس سے کسی معقول قانون سازی کی امید نہیں کی جاسکتی ، دوسری جانب اگر بھارتی حکومت اپنے عائلی قوانین پر توجہ دے تو زیادہ بہتر ہوگا اس وقت ممبئی فیملی کورٹ میں طلاق کے بارہ ہزار کیس ہیں جن میں فیصلہ آتے آتے 2 سے 20 سال تک لگ جاتے ہیں۔ایک خبر کے مطابق ایک کیس میں ایک شخص کا اپنی بیوی سے جھگڑا ہوا اس وقت اس کی عمر 33 سال تھی اور یہ کیس عدالت میں 23 سال چلا۔

فیصلہ آیا تب عمر 57 سال کی ہوچکی تھی۔ یعنی اب وہ شادی کے لئے تیار نہ ہو۔ ہندوستان بھر میں 20 لاکھ کے قریب ہندو خواتین ہیں جن کو ان کے شوہروں نے بنا طلاق کے ہی چھور رکھا ہے اور یہ ایک بڑا انسانی المیہ ہے ۔ بیوہ خواتین کا معاملہ اس سے الگ ہے اور یہ تعداد لاکھوں میں ہے۔اغواء شدہ بچیوں ، خواتین کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ بردہ فروشی کے اس گھناؤ نے جرم میں بی جے پی کے لوگ شامل ہیں۔

کیا اس پر بھی بھارتی عدالتیں کوئی فیصلہ کریں گی۔ دیوداسیوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ جن کو مذہب کے نام پر مندروں کی دیکھ بھال اور وہاں موجود سوامیوں کی خدمات کے لئے وقف کردیا جاتا ہے۔ ان بے چاریوں کا استحصال جار ی ہے۔ کوئی ان کے تحفظ کے لئے آگے نہیں آتا نہ ہی بھارتی میڈیا میں ان کی حالت زار کے حوالے سے کچھ بتایا جاتا ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ میں یہ معاملہ اٹھایا جاتا ہے۔ عدالتوں کو گجرات مسلم کش فسادات میں ان مظلوم عورتوں کے آنسو نظر نہیں آتے جن کے مجرم آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔ بلقیس بانو بھارتی عدالتی انصاف کی واضح مثال ہے جس کے مجرموں کو رہا کردیا گیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Shraii Qawannen Khatry Me Talaq Slassa Ghair AInee Qrrar is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 September 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.