شہر کے تعلیمی اداروں کو ڈرگ فری بنانے کی تیاریاں

اِنسداد منشیات مہم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سکول و کالج اور یونیورسٹیوں میں گٹکا،سپاری پر بھی پابندی

ہفتہ 4 نومبر 2017

Shahr k Taleemi Idarroo Ko Drug Free Bnany ki Tyarri
رابعہ عظمت:
صوبائی دارالحکومت کے 22 تعلیمی اداروں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان اور استعمال کے خلاف انسداد منشیات مہم کے تحت متعدد پروگرامز تشکیل دیئے گئے ہیں کنسلٹنٹ انسداد منشیات کے مطابق سکولوں اور کالجوں میں منشیات کے استعمال کے بارے میں تعلیمی اداروں کے سربراہ آگاہ ہوتے ہیں لیکن کوئی بھی کاروائی کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شیشہ کیفوں کے خلاف بل 2014ء کو بھی جان بوجھ کر التواء کا شکار بنایا جا رہا ہے تا کہ یہ بل قانون نہ بن جائے اور غیر قانونی کیفوں اور نوجوان نسل کی رگوں میں زہر اتارنے والوں کو پابند سلاسل نہ کردے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ حکومتی سطح پر پالیسیاں بنائی جائیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ لاہور کے تعلیمی اداروں بالخصوص بڑے سکولوں اور کالجوں میں منشیات ، چرس ، گٹکا، سپاری ، طالب علموں کو اس کا عادی بنایا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

افسوس تو اس بات کا ہے کہ نشے کی لت میں صرف طلبہ ہی نہیں طالبات بھی مبتلا ہوچکی ہیں اور منشیات کا استعمال بالخصوص امیرطالب علموں میں فیشن کی صورت اختیار کر گیا ہے ۔ پنجا ب ہائر ایجوکیشن کمشن کے مطابق منشیات فراہم کرنے والے عناصر تعلیمی اداروں میں موجود ہیں کمشن نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ سکولوں اور کالجوں میں نشے کا رجحان فروغ پا رہا ہے اور اب تعلیمی اداروں کو ڈرگ فری بنانے کیلئے قواعد وضوابط بنائے جارہے ہیں ۔

انسداد منشیات مہم کے کنسلٹنٹ سید ذوالفقار حسین کہتے ہیں کہ نویں اور دسویں جماعت کے طالب علم بھی نشے کی لعنت کا شکار ہیں ۔ جبکہ 80 فیصد طالب علم بری صحبت کے باعث منشیات کے عادی ہو جاتے ہیں ۔ پنجاب ایجوکیشن ہائرکمشن حکام کا کہنا ہے کہ تمام تعلیمی اداروں سے نمائندے لئے جارہے ہیں جنہیں انسداد منشیات کی تربیت فراہم کی جائے گی تاہم اس ضمن میں والدین کا کردار انتہائی اہم ہے ۔

لاہور کے تعلیمی اداروں میں منشیات جیسا زہر فروخت کرنے کا انکشاف اس وقت ہواجب نجی یونیورسٹی کے دو طلبہ موت کی وادی میں چلے گئے۔ اگرچہ ورثاء نے کسی بھی قسم کی پولیس کاروائی سے انکار کردیا تھا۔ تاہم پولیس نے خودسے تفتیش کی تو ڈیفنس کے علاقے سے ایک طالب علم کو حراست میں لے لیا گیا۔ افسوناک بات یہ ہے کہ حراست میں لئے جانے والے افراد پولیس اہلکار نکلے۔

ملزم طالب علم کا ایک ساتھی اہلکاروں کے ساتھ مل کر ”کوکین، چرس، اور آلس“ مہیا کرتا تھا، سرکاری گرلز کالجوں میں ”نشہ آور چیونگم“ کی فروخت کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ جی جی سیی کو مقامی طالب علم نے بتا یا کہ کالج سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب وہ شہر کی مشہور یونیورسٹی میں پہنچا تو اس کو چند دوستوں نے نشے کا عادی بنا دیا۔ پہلے چرس پھر”ہیروئن“ کی عادت پڑگئی۔

متعدد تعلیمی اداروں میں سکیورٹی گارڈز جبکہ کچھ تعلیمی اداروں کے باہر کھرے چند ٹیکسی چلانے والے بھی اس دھندے میں ملوث ہیں۔ غیر سرکاری ادارے ”ساسی“ کی سربراہ کا کہنا ہے کہ ہمارے سرکاری تعلیمی اداروں کے بچے بالعموم اور تعلیمی اداروں کے بچے بالخصوص کسی نہ کسی صورت میں منشیات کے عادی ہیں جس کی شرح 43سے 53 فیصد ہے ۔ ایک اور انکشاف کے مطابق تعلیمی اداروں میں منشیات بکنے میں طلباء کے ساتھ پولیس والے بھی ملوث پائے گئے ہیں جن کے خلاف کاروائی کی اشد ضرورت ہے۔

امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق سینٹ میں تحریک التواء پر موقف بھی پیش کرچکے ہیں۔ لاہور کے تعلیمی اداروں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال پر انہوں نے کہا کہ شہر کی درس گاہوں میں یومیہ 30 لاکھ روپے کی منشیات کا زہر ہمارے طالب علم اپنے اند اتار رہے ہیں اور پنجاب حکومت تعلیمی اداروں کے تقدس کو برقراررکھنے اور تحفظ میں مکمل طورپر ناکام ہوچکی ہے۔

تعلیمی اداروں میں اور ان سے ملحقہ ہاسٹلز میں منشیات کادھندہ ایک کاروبار کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے جس میں متعلقہ ادارے کے اساتذہ، ملازمین محکمہ ایکسائز اور پولیس ملازمین بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسا گٹھ جوڑ ہے جو اوپر سے نیچے تک لوگوں کی جیبیں گرم رکھ کر معصوم نوجوانوں کی زندگیوں کو تباہ کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ ظلم تو یہ ہے کہ جب معاملہ حکومت تک پہنچتا ہے تو صرف کمیٹیاں بنانے پر اکتفا کیا جاتا ہے اور ا س کے بعد پھر انکوائری رپورٹین بھی سرد خانے میں ڈال دی جاتی ہیں جبکہ اس گھناؤ نے دھندے میں ملوث افراد کو پولیس مکمل سکیورٹی فراہم کرتی ہے ۔

جس کی وجہ سے وہ کھلے عام ہماری نوجوان نسل کو برباد کرنے میں مصروف ہیں اور کوئی نہیں پوچھنے والا انہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی اداروں میں منشیات ونشے کے مضر اثرات پر مضامین پڑھائے جائیں۔ الیکٹرانک میڈیا جس کا اثر آج کل بہت گہرا ہے اس کے ذریعے عوام کو اس بارے میں آگاہی دیجائے ۔ نوجوان طلبہ کو بتایا جائے کہ ڈرگ مافیا انہیں کس طرح اپنے جال میں پھنسا سکتا ہے۔

یہ بات بھی سمجھے کی ہے کہ یہ خاندان تناؤ اور انسیت کی کمی بھی بہت سے بچوں کو منشیات کی تاریک دنیا میں دھکیل سکتی ہے۔ اس وقت تعلیمی اداروں کے سربراہوں کے لئے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ وہ طلبہ کو منشیات سے بچائیں ۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو ہی اہنے منصب کے ساتھ انصاف کرتے دکھائی دیں گے۔ اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں میں غیر نصابی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے۔

شہر میں تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیل کے میدان آباد کئے جائیں اور نوجوانوں کو صحت مند سرگرمیوں کی جانب راغب کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں ۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق لاہور کے ڈیفنس، جوہر ٹاؤن ، گلبرگ، شادمان، ماڈل ٹاؤن سمیت دیگر پوش علاقوں میں واقع تعلیمی اداروں میں منشیات کے ساتھ شراب بھی فروخت کی جارہی ہے اور مقامی تھانوں کی پولیس کو نشہ آو ر مشروب سپلائی کرنے والا ادارہ منتھلی ادا کر رہاہے۔

تعلیمی اداروں کے سکیورٹی گارڈز اور دیگر عملہ بھی طالب علموں کو شراب بیچنے والے گروہ کے ساتھ ملوث پائے گئے ہیں۔ خفیہ طریقے سے شراب مہیا کی جارہے ہے۔ طلبہ شراب استعمال کرنے کے بعد منہ میں خوشبو والے سپرے کا استعمال کرتے ہیں تاکہ کسی کو شک نہ ہوسکے۔ جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ ابھی تک ایسی کوئی شکایت سامنے نہیں آئی کہ سکول وکالج میں شراب کا استعمال کیا جارہا ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Shahr k Taleemi Idarroo Ko Drug Free Bnany ki Tyarri is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 November 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.