شام۔۔ خون آشام

”غوطہ “کے مسلمانوں ظلم و ستم کے سیلاب میں غوطہ زن اوربے حس حکمران؟ لاکھوں مسلمانوں کی نعشیں نوحہ کناں‘ تہذیب و ثقافت کا گہوارہ خطہ کھنڈر بننے لگا

پیر 16 اپریل 2018

shaam khoon aasham
قاضی کاشف نیاز

شام۔۔۔۔۔۔ جہاں کبھی مسلمانوں کے ہاتھوں وقت کی سپر پاور” روما“ کی شام ہوگئی تھی۔۔۔۔۔۔ اس شام میں آج کلمہ پڑھنے والوں کے ہاتھوں امت مسلمہ کی شام ہو گئی ہے۔۔۔۔۔۔ فرعون وقت بشار الاسد اور اس کے اتحادی روس، ایران اور امریکہ کی ملی بھگت سے گل و لالہ کی حسین ترین سرزمین خون میں نہلا دی گئی ہے سب سے بڑا نشانہ الغوطہ بنایا گیا جسے اپنی خوبصورتی کی وجہ سے دنیا کی ساتویں جنت ارضی کہا جاتا تھا، اسی غوطہ میں تو حید وسنت کے نام لیوا مسلمان بشار فرعون کے ظلم کے سیلاب میں غوطے کھارہے ہیں۔

بشار نے اپنے اقتدار سے جونک کی طرح ہر قیمت پرچمٹے رہنے کے لئے 7 برس میں 5لاکھ مسلمانوں کا خون چوس لیا ہے اور اس عرصے میں پورے شام کو کھنڈر بنا دیا، دوسری طرف ایک کروڑ30لا کھ شامی دنیا بھر میں در بدر ہو کر امداد کے منتظر ہیں، ایسا ظلم اورایسی سفا کی شاید کسی کافر نے بھی نہ دکھائی ہو جو بظاہر مسلمان ہونیکے دعویدار بشارالاسد اور اس کے خونیں ٹولے نے دکھائی ، اس کا باپ حافظ الاسد بھی ایساہی نظام فرعون تھا اسے بھی جہاں اپنی مخالفت کی تھوڑی سی بھی بو آتی وہاں کی وہ بستیوں کی بستیاں اور شہر کے شہر بمباری کر کے ملیا میٹ کر دیتا تھا، یہی فرعونیت بشار نے اپنے باپ سے ورثے میں پائی اور وہ بھی پورے شیطانی عزم سے کہہ رہا ہے کہ شام میں ایک بھی مخالف کے زندہ رہنے تک وہ اپنی شیطانی جنگ جاری رکھے گا ظلم و ستم کی انتہا دیکھئے کہ جن علاقوں سے لوگوں کو انخلا پر مجبور کیا جارہا ہے، انہیں بچے بھی ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں ، یہ ہماری کوئی سینہ بہ سینہ گزٹ سٹوری نہیں بلکہ مشہور عالم ادارہ بی بی سی رپورٹ کر رہا ہے۔

(جاری ہے)

شام سے واپس آنے والے ایک پاکستانی جوڑے نے بی بی سی کو اپنی داستان غم سنائی تو وہ اپنے جذبات پر قابونہ رکھ سکا اور زار و قطار رونے لگا۔ محمد اکرم نے بتایا کہ وہ1974ء میں پہلی مرتبہ شام کے دارالحکومت دمشق گئے۔1980ء میں پاکستان واپسی کے بعد وہ آٹھ سال وہاں رہے لیکن اس کے بعد وہ شام ہی کے ہور ہے، اس وقت تک جب تک کہ جہازوں اور بموں نے ان کے گھر کا راستہ نہیں دیکھا تھا، انہوں نے بھرائی ہوئی آواز میں بتایا کہ اس کا ایک بیٹا شہید ہو گیا، میں اس کی نعش دیکھ کر برداشت نہ کر سکا، ہماری خوراک اور پانی بند کر دیا گیا، ہم نے درختوں کے پتے اور گھاس کھا کر گزارا کیا وہاں تو جلانے کو لکڑی بھی نہ تھی جہاں مشہور زمانہ باغات تھے وہاں اب سب ویرانہ تھا۔

محمد اکرم نے بتایا کہ اس نے ایک شادی پاکستان میں کی اور ایک شام میں، اس کی شامی اہلیہ کا نام ربع تھاان سے 3 بیٹے اور 3 بیٹیاں تھیں ایک بیٹا شہید ہو گیا دوسرے بیٹے احمد کی اہلیہ بھی شامی خاتون ہیں ان کے چاربچے ہیں تیسرے بیٹے محمود کی بیوی بھی شامی ہے اور ان کی دو بیٹیاں ہیں ، محمد اکرم کی تینوں بیٹیاں مقامی لوگوں کے ساتھ بیاہی گئی ہیں وہ بھی اپنے خاندانوں کے ہمراہ غوط میں محصور ہیں محمد اکرم نے بتایا کہ بم ہماری چھتوں کے اوپر سے گزرتے تھے، ہمارے گھروں میں بموں کے ٹکڑے آ کر گرے.ہر روزلگتا تھا یہی آج ہماری زندگی کا آخری دن ہے، ایک مرتبہ ہمارے محلے میں 8بم گرے لیکن خوش قسمتی سے پھٹا کوئی نہیں، ان کے بقول ہمارے ذہنوں سے جہازوں اور بموں کی آواز یں نہیں جار ہیں۔

موٹر سائیکل گزرے تو لگتا ہے جہاز آگیا۔ دروازہ زور سے بند ہو تو لگتا ہے کوئی بم پھٹ گیا۔ معلوم نہیں یہ سب ہماری یادوں سے جائے گا بھی یا نہیں، ہمارا پورامحلہ ویران ہوگیا۔ کئی مارے گئے کئی لوگ علاقہ چھوڑ گئے جب ہم وہاں سے نکلے تو ہمارے بچے رورہے تھے وہ بھی ہمارے ساتھ آنا چاہتے تھے لیکن انہیں آنے کی اجازت نہیں تھی۔ آبدید ہ محمد اکرم نے بتا 2013ء سے خوراک اور پانی بند تھا، ہم نے زندہ رہنے کے لئے گھاس کھائی، چھوٹے چھوٹے بچے بھوک لگنے پر کھانا اور پانی مانگتے تھے۔

محمد اکرم کی پاکستانی اہلیہ شری بی بی کا کہنا تھا کہ وہ بچے تھے، انہیں تو کھانا ملنا چاہئے تھا، وہ مانگتے تھے کہ خالہ بھی داد وجی ! کھانا دو، میں اب جب یہاں کچھ کھانے لگتی ہوں تو ان کی یاد آتی ہے۔ بیشتر لوگ جو صحت مند تھے وہ اب انتہائی دبلے ہوگئے ہیں۔ صغری بی بی نے ہچکیوں سے روتے ہوئے اپنی روانگی کی گھٹری کو یاد کیا جب ہم آرہے تھے توبچے میرے پلو سے لپٹے تھے کہ رہے تھے دادا دادی! کیا آپ جارہے ہیں؟ ہمیں یہاں ہے بس چھوڑ کر جارہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ حملے میں مارے جانے وا لے تمم کے بیٹے نے کہا، دادو آپ جارہی ہیں، آپ واپس نہیں آئیں گے تو میں نے کہا ایسا مت کہو، وہ بچے یہاں آئیں گے تو سکون ملے گاور نہ ہماری زندگی کا کوئی فائدہ نہیں۔ محمد اکرم نے بتایا جس رات تیز بمباری ہوئی تو ہم وقتی پناہ کے لئے بیٹے کے گھر چلے گئے اس میں ہمارا گھرمکمل تباہ ہو گیا جب واپس آکر دیکھا تو کچھ نہیں بچا تھا۔

 قارئین کرام! ایک طرف شام کے یہ المناک حالات ہیں۔ دوسری طرف عالم اسلام کی بالعموم اور مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت حکومت پاکستان کی بے حسی بالخصوص دیکھنے کے قابل ہے ایسے عالم میں جب کہ شامی مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا ہے تو اس اثناء میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں شام میں انسانی حقوق کی پامالی پر ایک قرار داد پیش ہوئی لیکن حکومت پاکستان نے شامی مسلمانوں کی کوئی عملی مدد تو کیا کرنی تھی ، اس ظلم و ستم کے خلاف صرف ایک قرارداد کو ووٹ دینے سے بھی اجتناب کرلیا اور یوں غیر جانبداری“ کا چولا پہن کر بڑی سنگدلی اور شقاوت قلبی کا مظاہرہ کیا گیا حالانکہ قرارداد بھی ایسی تھی کہ جس میں مظالم روکنے کے لئے بھی کچھ نہیں کیا جانا تھا صرف شام پر بنائے گئے آزاد بین الاقوامی کمیشن سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ مشرقی غوطہ میں ہونے والے حالیہ انسانیت سوز واقعات کی فوری، جامع اور آ ز اد تحقیقات کی اپ ڈیٹ رپورٹ انسانی حقوق کونسل کے 18 ویں اجلاس میں فراہم کرے ، صرف اتنی سی بات کے لئے بھی ووٹ نہ دیا گیا، کیا مظالم کی تحقیقات کرانا بھی غیر جانبداری کے خلاف ہے اور یہ کیسی غیر جانبداری ہے کہ ہمارے نبی کریم ﷺ تو فرماتے ہیں کہ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، اگر جسم کے کسی ایک حصہ کو تکلیف ہوتو سارا جسم اسے محسوس کرتا ہے (بخاری ومسلم ) لیکن یہاں احساس اورمحسوس نامی شے کے دور دور تک کوئی آثار بھی نظر نہیں آتے ، آخر یہ” غیر جانبداری“ کر کے کسی کو خوش کیا جارہا ہے؟ ظاہر ہے یہ تو امریکہ، روس اور ان کے اتحادیوں کی دلی خواہش ہے کہ باری باری مسلمانوں کا قتل عام ہوتا رہے اور کوئی بولے بھی نہیں، آج ایک ملک کے مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے اور دوسرے مسلمان ملک کوئی نہ کوئی مجبوری اور بہانہ بنا کر خاموش ہیں کل جب اسی طرح ان خاموش ممالک کے مسلمانوں کی باری آئے گی اور وہ مدد کے لئے چلائیں گے تو پھر دوسرے مسلمان بھی یہی جواب دیں گے کہ جب ہم پر ظلم ہورہا تھا تو کیا تم نے ہماری مدد کی تھی جو اب تم ہم سے مدد کی توقع کر رہے ہو؟ عراق، افغانستان اور لیبیا وغیرہ اسی طرح تباہ کئے گئے اور باقی مسلمان تماشہ دیکھتے رہے، آج ہمارے وزیرخارجہ خواجہ آصف عذرتراش رہے ہیں کہ شام میں مسلمانوں کی باہمی خانہ جنگی ہے اور اس میں وہ کسی کی حمایت نہیں کر سکتے تھے۔

سوال یہ ہے کہ برمامیں تو مسلمانوں کی خانہ جنگی نہ تھی وہاں آپ نے کس قدر مسلمانوں کی مدد کی ؟ آپ نے تو ایک روپیہ بھی ان کی مدد کے لئے نہ بھیجا، اسی طرح عراق اور افغانستان میں بھی مسلمانوں کی کوئی خانہ جنگی نہ تھی صرف امریکی مداخلت اور قبضہ و دہشت گردی تھی ، آخر وہاں کے مسلمانوں کی امریکہ کے خلاف جنگ میں حکومت پاکستان نے کیامددکی؟، بحیثیت مسلمان ان کی مدد بھی ہمارا دینی فرض تھا جبکہ وہاں کوئی باہمی جدال و قتال بھی نہیں تھا غرض اصل مسئلہ ہماری نیت کی خرابی اور امریکی مغربی غلامی کا ھے۔

۔۔۔۔۔۔ اور جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ پاکستان عالم اسلام میں اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کی مدد تو کجا خود اپنا اور اپنے ایٹمی وعسکری اثاثوں کابچاؤ بھی مشکل سے کر پائے گا۔ آج جماعة الدعوة فلاح انسانیت فاوٴنڈیشن اور ملک کی دوسری محب وطن جماعتوں پر پابندیاں بھی اسی مغربی غلامی کا شاخسانہ ہیں تا کہ کشمیر کی آواز کو دبا دیا جائے ، کاش! ہمارے حکمران کفار کی اس سازش کوسمجھیں کہ وہ باری باری مسلمان ممالک کو اس طرح تباہ کر رہے ہیں کہ کوئی کسی نہ کسی بہانے دوسرے کی مدد کو نہ پہنچے حالانکہ انہیں یہ قرآنی حکم یاد رکھنا چاہئے کہ اگر مسلمان گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں پہلے تو صلح کی کوشش کی جائے اور اگر نہ ہو سکے تو جوگر وہ زیادتی پر اڑا ہو اس کے خلاف جنگ کی جائے۔

(الحجرات :9)، جبکہ یہاں تو ایک طرف شام کی پوری عوام ہے اور دوسری طرف ایک آمرظالم حکمران ٹولہ ہے جو صرف اپنی کرسی کی بقاء کے لئے شامی مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلا ہوا ہے، کیا ایسے ظا لم کا ہاتھ پکڑ نا قرآن کا حکم نہیں اور کیاظالم کو نہتے مسلمانوں، بچوں اور عورتوں پر ظلم کئے جانے کی اجازت دینا ، ان پر نیپام بم کلسٹر بم اور کیمیائی حملے کرنے کی کھلی چھوٹ د ینا کیا یہ غیر جانبداری اور اس کا تقاضا ہے؟ ، یہ کون سی غیر جانبداری ہے کہ لاکھوں مسلمانوں کی نعشیں گرتی رہیں اور ان کا بس تماشہ کیا جائے؟، آخر کون سا ”اسلام “اور کون سی ”غیر جانبداری“ اس کی اجازت دیتی ہے؟،اس لئے ہماری پورے عالم اسلام بالخصوص عالم اسلام کی محافظ واحد ایٹمی طاقت پاکستان ہونے کے ناطے حکومت پاکستان سے گزارش ہے کہ وہ شام میں مسلمانوں کے قتل عام پر محض تماشہ نہ دیکھے کیونکہ تماشہ دیکھنے والے خودبھی تماشہ بن جاتے ہیں۔

اللہ تعالی ہم سب کو سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

shaam khoon aasham is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 April 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.