سانحہ احمد پور:”اوگرا“ کی کارکردگی سوالیہ نشان؟

خطرناک مواد سے لدی گاڑیاں”چلتے پھرتے بم“

بدھ 19 جولائی 2017

Saneha Ahmadpur Ogra Ki Karkardagi Swalia Nishan
محبوب احمد:
احمد پو ر شرقیہ میں ہونے والا المناک سانحہ یقینا ملکی تاریخ کا بڑا حادثہ ہے،تاہم اس سے قبل بھی ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں جن میں درجنوں قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں،یہاں یہ بھی قابل غور امر ہے کہ بدقسمتی سے ان حادثات میں زیادہ تر غریب شہری ہی لقمہ اجل بنے ہیں جو غربت ،بیروزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں ستائے چند روپوں کے فائدہ کی غرض سے لالچ میں آکر جان گنوا بیٹھتے ہیں۔

مناسب انتظامات نہ ہونے پر سانحہ احمد پور کے بعد بھی آئل ٹینکرز حادثات کے متعدد واقعات منظر عام پر آرہے ہیں،گزشتہ دنوں حیدر آباد میں سپر ہائی وے پر تھانہ بولا خان کے نزدیک جبکہ وہاڑی میں سینچانوالا کے قریب آئل ٹینکرز الٹنے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔

(جاری ہے)

پاکستان میں پٹرول ،مٹی کے تیل اور جیٹ فیول کی ترسیل صرف سڑک کے راستے ہی ہوتی ہے،اس خطرناک ایندھن کی ترسیل کے لئے بعض اندازوں کے مطابق 15 ہزار گاڑیاں سڑکوں پر ہر قت اپنی اپنی منزل کی جانب رواں دواں دکھائی دیتی ہیں لیکن ان میں سے صرف 10 سے 15 فیصد ہی ایسی ہیں جو اقوام متحدہ اور اوگرا کی جاری کردہ حفاظتی معیار پر پورا اترتی ہوں۔

خطرناک مواد سے لدی ہوئی ان گاڑیوں کو اگر”چلتے پھرتے بم“ کہا جائے تو یہ بے جا نہیں ہوگا۔پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع بہاولپور کے قریب آئل ٹینکر کے حالیہ ہونے والے حادثے میں 250 کے لگ بھگ ہلاکتوں نے خطرناک مواد کی سڑک کے ذریعے ترسیل کے نظام میں بہت سی خامیوں کو اجاگر کیا ہے کیونکہ اس مواد کی ترسیل کیلئے استعمال ہونے والی گاڑیوں،عملہ اور حفاظتی انتظامات کس معیار کے ہوں اس بارے میں تیل اور گیس کے شعبے کے ریگولیٹری ادارے”اوگرا“ نے جامع رہنما اصول جاری کررکھے ہیں لیکن ان پر عمل کروانے کے لئے کسی سطح پر کوئی باضابطہ نظام موجود نہیں ہے۔

”اوگرا“تیل بیچنے والے نجی اداروں (آئل مارکیٹنگ کمپنیز)کو لائسنس جاری کرتے وقت اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ تیل کی ترسیل کے لئے جو گاڑیاں استعمال کریں وہ دنیا بھر میں نافذ اقوام متحدہ کے حفاظتی معیار پر پورا اترتی ہوں لیکن اس کے پاس ایسا کوئی نظام موجود نہیں ہے جس کے ذریعے وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ جو گاڑیاں پٹرول اور دیگر خطرناک مواد منتقل کر رہی ہیں وہ مطلوبہ معیار کے مطابق ہیں بھی یا نہیں۔

ماہرین کے نزدیک اصل میں تو اس حادثے پر سزا کا حقدار اوگرا ہے،ایسے ادارے کو بند کردینا چاہیے کہ جس کے پاس نہ ہی مناسب قانون ہیں اور نہ ہی ان پر عمل کروانے کا مئوثر نظام ہے۔کئی برس قبل جب شیل کی گاڑیوں کی اس طرح کے حادثات میں اضافہ ہواتھا تو شیل پاکستان کو تنبیہ کی گئی تھی کہ اگر سڑک پر ہونے والے حادثات میں کمی نہ آئی تو اس کمپنی کو پاکستان میں کام کرنے سے روک دیا جائے گا۔

سری لنکا میں شیل کا کاروبار صرف اس وجہ سے بند کردیا گیا تھا کہ وہاں شیل کی گاڑیوں کو پیش آنے والے حادثات میں مرنے والوں کی تعداد ایک حد سے بڑھ گئی تھی۔امریکہ کے قریب سمندر میں چند برس قبل ایک بحری جہاز کے حادثے میں سارا تیل سمندر میں بہہ گیا تھا،اس حادثے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا اس کے باوجود اس تیل کی کمپنی کو 3 سے 4 ارب ڈالر جرمانہ کیا گیا تھا۔

سالانہ 3 سے 4 ارب روپے منافع کمانے والی کمپنی پر 2 سو سے زائد افراد کی ہلاکت کا باعث بننے والے حادثے میں غفلت ثابت ہونے پر صرف ایک کروڑ روپے جرمانہ عائد کرنے پر حکومت اور اس کے اداروں کو ماہرین کی شدید تنقید کا سامنا ہے۔سانحہ احمد پورمیں اتنی بڑی تعداد میں ہونے والی ہلاکتوں کی ذمہ داری جہاں اوگرا اور شیل کمپنی پر عائد ہوتی ہیں وہیں حکومت بھی براہ راست اس میں ملوث ہے کیونکہ آئل ٹینکر سانحہ میں جھلسنے افراد کو پہلے احمد پور شرقیہ کے تحصیل ہیڈ کواٹر ہسپتال میں پہنچایا جاتا رہا لیکن وہاں علاج کی ناکافی سہولیات کے باعث انہیں الخدمت ،ایدھی،فلاح انسانیت فاونڈیشن اور ریسکیو 1122 کی ایمبو لینسوں کے ذریعے بہاول وکٹوریہ ہسپتال پہنچایا گیا جہاں برن یونٹ نہ ہونے کی وجہ انہیں آرمی کے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے نشتر ہسپتال ملتان کے پاک اٹالین برن یونٹ میں منتقل کیا گیا لیکن نشتر ہسپتال میں بھی جگہ کم ہونے کے باعث باقی مریضوں کو سی ون تھرٹی طیاروں کے ذریعے لاہور اور فیصل آباد کے ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا،اگرڈویژنل ہیڈ کواٹر کے بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال میں برن یونٹ کی مناسب سہولت موجود ہوتی تو جھلسنے والے بہت سے افراد کی زندگی بچائی جا سکتی تھی،یہاں افسوس ناک امر یہ ہے کہ آج کے جدید دور میں بھی بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال برن یونٹ سے محروم ہے جو کہ اس خطے کی تعلیم وصحت کے حوالے سے پسماندگی کی عکاسی کرتا ہے۔

جنوبی پنجاب کے اس اہم اور تاریخی ہسپتال میں تیزاب گردی اور آتشزدگی کا شکار ہوکر آنے والے مریض علاج کی سہولت نہ ہونے کے باعث ایڑیاں رگڑ رگڑ کر ہلاک ہوجاتے ہیں۔2009 ء میں بہاول وکٹوریہ ہسپتال میں برن یونٹ کی تعمیر کیلئے ایک خطیر رقم مختص کی گئی تھی لیکن بعد ازاں ایک ملین کے فنڈز جاری ہونے کے باوجود یہ منصوبہ سرخ فیتے کی نذر ہوگیا،کسی حکومت کو بھی یہ توفیق نہ ہوئی کہ جنوبی پنجاب کے عوام کو صحت کی سہولیات ان کی دہلیز پر پہنچانے کیلئے عملی اقدامات کرسکے۔

ہسپتالوں میں مطلوبہ سہولیات نہ ہونے کا اعتراف تو اب پنجاب حکومت نے بھی کیا ہے ،یہاں یہ سوال اب زبان زد عام ہے کہ کیا حکومت کے اس اعتراف کے بعد برالذمہ ہوگئی؟۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی منتخب حکومت کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے لیکن دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ صحت کی سہولیات پنجاب اور وفاقی حکومت کی ترجیحات میں کبھی بھی شامل نہیں رہی ہے۔

ہمارے ادارے کچھ کرنے کی بجائے ایک دوسرے پر حادثے کی ذمہ داری ڈالنے میں ماہر ہیں،اس حادثے کے بعد بھی پنجاب نے وفاق اور وفاق نے این ایچ اے کو حادثے کا ذمہ دار قرار دیا ہے کوئی بھی اپنی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔کیا موٹروے پولیس کاکام صرف حوالدار کا ہے کہ وہ اس حادثے کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں،کیا یہ المیہ نہیں کہ اتنا بڑا حادثہ ہوگیا اور موٹر وے پولیس منہ دیکھتی رہی۔

دنیا بھر میں جہاں بھی اس نوعیت کے حادثات رونما ہوتے ہیں تو موٹر وے پولیس ہی ان پر فوری قابو پاتی ہے،مگریہاں لوگ صرف ڈاکخانے کاکام کررہے ہیں،المیہ یہ ہے کے اڑھائی سو کے لگ بھگ افراد جان کی بازی ہار گئے لیکن تمام ادارے ابھی تک شوکاز نوٹس کا کھیل کھیل رہے ہیں،اتنے بڑے سانحے پر اتنا کم جرمانہ اور اتنی کم سزا سمجھ سے بالاتر ہے۔حادثے میں شیل کمپنی ملوث ہو یا کوئی اور انہیں ایسی سزا ملنی چاہیے کہ آئندہ سے کوئی غفلت کا مظاہرہ کرنے کی جرات نہ کرے۔

آئے روز آئل ٹینکرز حادثات کے بعد حکومت نے موٹر وے پولیس،وارڈنز،ٹریفک پولیس، پٹرولنگ پولیس کے اہلکاروں کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ اپنی اپنی حدود میں سے گزرنے والے آئل ٹینکرز پر کڑی نظر رکھیں تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کے پیش نظر آئل ٹینکرز کے حادثات سے لوگوں کو محفوظ بنایا جاسکے جبکہ پٹرول پمپ مالکان کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ پٹرول پمپس کے گردونواح میں خصوصی حفاظتی انتظامات کو یقینی بنائیں اور اس بات کو ہر ممکن یقینی بنایا جائے کہ جب گاڑی میں پٹرول ڈالا جارہا ہو تو کوئی شخص قریب ٹیلی فون وغیرہ نہ سنے اور نہ ہی کوئی سگریٹ وغیرہ پیئے تاکہ حادثات سے محفوظ رہا جاسکے۔

پولیس ،گاڑیوں کی رجسٹریشن کے اداروں ،نیشنل ہائی وے اتھارٹی اور دیگر متعلقہ اداروں کی یہ مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ صرف مقرر کردہ حفاظتی معیار پر پورا اترنے والی گاڑیوں ہی کو سڑک پر آنے کی اجازت دیں،تیل کی ترسیل کرنے والی کمپنیوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ جو گاڑیاں وہ استعمال کر رہے ہیں وہ محفوظ ہوں۔ نجی ٹھیکداروں اور ان کی گاڑیوں کو بھی اگر اوگرا کے ساتھ رجسٹریشن کا پابند بنا دیا جائے توان کی بھی براہ راست نگرانی سے حادثات پر کسی حد تک کنٹرول پایا جاسکتا ہے،اگر مطلوبہ معیار کی بریک اور اس کے ٹینک کی موٹائی معیار کے مطابق ہوتو اول تو گاڑی الٹے گی نہیں اور اگر الٹ بھی جائے تو 80 فیصد حادثات میں اس ٹینک کے اندر موجود پٹرول بہے گا نہیں جو اس طرح کے حادثے میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان کا باعث بنتا ہے۔

غربت،بے روزگاری اور مہنگائی یہ تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان کے ہاتھوں مجبور ہونے والا انسان کچھ بھی کر گزرنے کیلئے ہر وقت تیار رہتا ہے،بلا شبہ بہاولپور کی تحصیل احمد پور شرقیہ کے موضع رمضان کی بستی جوئیہ کے غریب اور مفلوک الحال علاقہ مکینوں کے لئے یہ آئل ٹینکرعذاب بن کر آیا اور لالچ نے انہیں زندہ جلا دیا لیکن آئل ٹینکر الٹنے کے المناک سانحہ کے بعد پولیس اور انتطامیہ نے اپنا مئوثر کردار کیوں ادا نہیں کیا۔

یہ لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے۔پلوں اور سڑکوں کی تعمیر اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے لیکن سب سے پہلے حکومت کو تعلیم اور صحت پر توجہ دینی چاہیے ۔حکومت کو چاہئے کے وہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے عوام کو ان کی دہلیز پر بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائے،حادثے کے بعد کروڑوں روپے امداد میں دینے سے بہتر ہے کہ یہ کروڑوں روپے انفراسٹرکچر کی بہتری کے لئے صر ف کئے جائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Saneha Ahmadpur Ogra Ki Karkardagi Swalia Nishan is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 July 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.