صحافی کالعدم تنظیموں کے دباؤ میں

صوبے میں اخبارات کی ترسیل کی بندش․․․․․․ کوئٹہ میں اخباری کارکنوں کو قتل کی دھمکیاں دی گئیں

بدھ 8 نومبر 2017

SaHafi Kaladam Tanzeemo K Dbou me
عدن جی:
ایک ہفتہ پہلے بلوچستان کی کالعدم تنظیم بی ایل اے نے تحریری طور پر تمام صحافی برادری ، ہاکرز کو یہ دھمکی دی کہ چونکہ اخبارات ہماری کوریج نہیں کرتے لہذا میڈیا ہماری ہٹ لسٹ پر ہے۔ غیر ملکی میڈیا کو اجازت دی جائے کہ وہ ہمارے بارے میں صحیح رپورٹنگ کرے۔ جبکہ مقامی میڈیا حکومت کے کنٹرول میں ہے 24 اکتوبر سے ان دھمکی آمیز بیان کی ڈیڈ لائن شروع ہوگئی جب صحافیوں نے ڈپٹی کمشنر کوئٹہ سے اس بارے میں بات کی تو ان کی جانب سے کالعدم تنظیموں کے بیانات قطعی طور پر شائع نہ کرنے کی پابندی سے آگاہ کیا۔

اب صحافت پر کڑا وقت آن پڑا جب میڈیا ورکرز کو احساس ہوا کہ کالعدم تنظیمیں اپنے بیانات کی نہ صرف کوریج چاہتی ہیں بلکہ نمایاں جگہ پر اپنے بیانات کی اشاعت کا مطالبہ کر رہی ہیں حکومت کی جانب سے انہیں شائع کرنے کی ممانعت ہے۔

(جاری ہے)

لہٰذا دفاتر پر تالے پڑگئے کہ صحافی کی حفاظت کون کرے گا؟ اور وہ کام کیسے کریں۔ بعض اداروں کے کارکن خاموشی سے کام کرنے کی کوشش کرتے رہے تاکہ اخبارات چھپ جائیں مگر اخبارات چھپ گئے تو 300 ہاکرز میں سے صرف 15 ہاکرز اخبارات مارکیٹ میں آئے مگر وہ بھی اخبارات کو گھروں تک پہنچانے سے قاصر نظر آئے۔

انہی دنوں میں سی پی این ای کا کوئٹہ میں اجلاس ہورہا تھا اورملک بھر سے صحافی یہاں جمع تھے مگر ان کی ذمہ داری صرف اخبارات کے بل وصول کرنا اور ایک قرارداد نمابیان اخبارات تک پہنچانا تھا جوانہوں نے کردیا۔ جب کہ ارباب اختیار تک میڈیا والوں کی رسائی ہوئی تو صوبائی وزیر داخلہ نے کمیٹی میٹنگ ملاقاتوں کے سلسلے پر عمل کرتے ہوئے صحافیوں کے مسائل حل کرنے کی یقین دہائی کروائی اور پریس کلب اور اخبارات کے دفاتر اخبار مارکیٹ کے سامنے ایف سے تعینات کردی۔

ہاکر برداری حیران تھی کہ ہمیں تو گھر گھر اخبارات کی ترسیل کے لئے جانا ہوتا ہے ایسے کیسے مسئلہ حل ہوگا ۔ جب جب HUB پریس کلب پر حملہ ہوا اور کوئٹہ کے اخبار کے کارکنوں کو مسلح افراد نے آئندہ دفتر نہ آنے کی دھمکی دیتے ہوئے گولی مارنے کو کہا تو خوف وہراس کی فضا بن گئی۔ دلچسپ امریہ کہ جب وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال سے اسلام آباد میں کسی صحافی نے کہا کہ بلوچستان میں 3 دن سے اخبارات تقسیم نہیں ہوئے اور صحافی برادری کالعدم تنظیموں کے دباؤ میں ہے۔

عدم تحفظ اور خوف کا عالم ہے تو انہوں نے بہت معصومیت اور سادگی سے کہا”مجھے تو علم نہیں“ اب اس کے بعد کوئی بھی کسی سے کیا کہے کہ صوبائی وزیر اعلیٰ دہشت گردی ختم ہونے کی نوید دے رہے ہیں ملزموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے اعلانات کر رہے ہیں۔ بلوچستان اسمبلی میں صوبے میں دہشت گردی کے پے درپے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور امن وامان کی بگڑتی صورتحال پر ایک مشترکہ قرار داد بھی منظور کی ہے۔

سیاسی جماعتیں کوئٹہ میں پے درپے پولیس فورسز اور ایف سی پر ہونے والے حملوں کو صوبائی حکومت کی ناکامیوں سے جوڑ رہی ہیں۔ تاہم یہ طے ہے کہ جو سیاسی لیڈر کوئٹہ سمیت بلوچستان میں ”حالات بہتر ہیں کی رٹ لگارہے تھے“ اب خاموش ہیں ۔ سیاسی حلقوں میں اب بھی یہ بات کہی جارہی ہے کہ دہشت گردوں کا نیٹ ورک موجود ہے۔ سہولت کار موجود ہیں۔ کالعدم تنظیموں کی خبریں نہ چھاپنے اور چند فراریوں ، کمانڈروں کے بظاہر ہتھیار ڈال دینے سے امن نہیں ہوتا۔

کوئی تحزیب کاری ہونے کے بعد متحرک ہونا ہماری روایت بن چکی ہے اور دہشت گردی پر قابو پانا صرف فوج کا کام نہیں ہے نہ ایف سی اوررینجرز کا یہ صوبائی حکومت کے وزراء کی فوج کابینہ آخر کس مرض کی دوا ہیں اگر وہ شہریوں کے امن وامان جان ومال کے لئے کچھ نہیں کرسکتے۔ ان دنوں سیاسی جماعتوں نے اجتماعات کا سیاسی شو شروع کررکھا ہے قوم پرست جماعتیں خاصی متحرک ہیں۔

بی این پی عوامی نے پنجگور اور نیشنل پارٹی کے کوئٹہ میں سیاسی قوت کے مظاہرے خاصے اہم تھے جس میں ایک دوسرے پر الزامات لگانے کے ساتھ ساتھ جلسوں میں کارکنوں کی کثیر تعداد میں شرکت نے انہیں خاصا متحرک کردیا ہے نیشنل پارٹی کے جلسے میں تو وزیر اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کا خطاب خاصا پرجوش تھا ان کا کہنا تھا کہ نام نہاد قوم پرست اپنی قوم پرستی کی آر میں بندوق کے زور پر اپنا نظریہ مسلط کررہے ہیں ۔

بلوچستان کے عوام کے سروں کی قیمت پر یورپ میں عیش وعشرت کی زندگی بسرکرنے والے اپنے انجام کو پہنچ رہے ہیں۔ بلوچستان میں رہنے والے ہی اس کے وارث ہیں جلسے سے وفاقی وزیر حاصل بزنجو او ر سابق وزیر اعلیٰ عبدالمالک بلوچ نے بھی خطاب کرکے پارٹی کی پالیسی اور کارکردگی بتائی۔ بی این پی عوامی کے جلسے میں نیشنل پارٹی پر کڑی نکتہ چینی کی اور کہا 2013ء کے انتخابات میں نیشنل پارٹی کو سلیکٹ کرکے سازش کی گئی جس کی مڈل کلاس قیادت نے لوٹ مار کے ریکارڈ قایم کئے ۔ تعلیم اور صحت پر بجٹ کا 50% مختص کیا اور دونوں شعبوں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ جے یو آئی بھی جلسوں کی تیاریاں کررہی ہے۔ گویا بلوچستان کی سیاسی جماعتوں نے 2018ء کے انتخابات کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

SaHafi Kaladam Tanzeemo K Dbou me is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 November 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.