”را“ کی مذموم کاروائیاں اور حکومت کی بے بسی!

فری بلوچستان مہم چلانے والوں کو دہشت گرد قرار دیا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شر پسند وں کا خاتمہ کرکے عوام کو حقیقی خوشیاں لوٹانے کا عزم خوش آئند ہے۔

منگل 28 نومبر 2017

Raw ki Mazmmom Karwaiya or Hkomat Ki Be Basi
عدن جی:
بلوچستان معصوم بے گناہوں کے خون میں نہا رہا ہے، دہشتگردی کا طوفان آیا ہوا ہے۔ پولیس کے اعلیٰ افسران ان دہشت گردوں کا خصوصی ٹارگٹ ہیں جبکہ ان افسران کا تعلق پنجاب سے ہونا لازمی ہے۔ کوئٹہ میں اس ہفتہ بھی ایک پولیس آفیسر کو نشانہ بنایا گیا۔ ایس پی انویسٹی گیشن محمد الیاس کو ان کے پورے خاندان سمیت اس وقت گولیوں سے چھلنی کردیا گیا جب وہ اپنی اہلیہ ، بیٹے اور ا سکے دو بچوں سمیت سادہ کپڑوں میں محافظ آباد میں اپنا نو تعمیر شدہ گھر دیکھنے جا رہے تھے۔

نامعلوم افراد نے ان کو گولیوں کا نشانہ بناڈالا اور نواں کلی کیاآبادی میں ایک بار پھر دہشت گردی سے لوگ سہم گئے کیونکہ ایس پی کے ہمراہ ان کی اہلیہ، بیٹا ، پوتا، موقع پر جاں بحق ہوگئے۔

(جاری ہے)

2 سالہ بچی شدید زخمی ہوگئی۔ مسلح افراد فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے بعد میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کاروائیاں، مذمتی بیان اور وزیر داخلہ کا ذمہ دار افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم سامنے آیا۔

ایس پی انویسٹی گیشن کے قتل کے بعد کوئٹہ میں خصوصاََ پنجابی بولنے والوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ گیا ۔ ان کے وکیل بیٹے نے سوگ میں بلوچستان کی وکلا برادری نے ہڑتال اور سوگ کا اعلان کیا۔ بلوچستان کے تمام اندرونی علاقوں میں تو پنجابی بولنے والوں کا نام ونشان تک نہیں کیونکہ اکثریت کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا یا ایک سروے رپورٹ کے تحت تین لاکھ پنجابی جنہیں آباد کار کیا جاتا ہے۔

کراچی ، پنجاب ہجرت کر گئے حالانکہ ہجرت کی آزمائش نے انہیں بہت سے مشکلات سے دوچار کیا اور بلوچستان میں بھی اساتذہ کرام، ڈاکٹرز اور ہنر مند افراد کی قلت ہوگئی حتیٰ کہ ایک عید پر ملازم دستیاب نہ ہونے کے باعث ورزیوں اور کڑھائی کاکام کرنے والوں نے دکان پر ”آرڈر بند ہے “ کے بورڈ لگادیئے۔سکولوں کالجوں میں صرف اساتذہ ہیں جو نوکری ملنے پر نازاں ہیں لیکن کام کرنے کو تیار نہیں اکثرسکول کالج اور ہسپتال ماہرین کے بغیر ہیں، اسی لئے لوگ علاج کے لئے مریضوں کو کراچی لاہور لانے پر مجبور ہیں۔

صوبائی حکومت”را“ کانام لے کر سب کو بہلا دیتی ہے مگر وہ ”را“ کو کیوں نشانہ نہیں بناتی؟، یہ ایک اہم سوال ہے اور ”را“ یابھارت بلوچستان کے سہولے کاروں کے بغیر کیسے کوئٹہ یا بلوچستان میں کوئی کاروائی کرسکتے ہیں۔ بیرون ملک آزاد بلوچستان کے سٹکر گاڑیوں پر لگانے والے کون ہیں؟، انہیں ناراض بلوچ کی بجائے دہشت گرد قرار دینا چاہیے۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کوئٹہ نے جسٹس نواز مری کو قتل کیس میں نامزد نوابزادہ گزین مری کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے پر منظور کرلیا۔

نواب مری کے یہ صاحبزادے کئی برسوں کی خود ساختہ جلا وطنی کے بعد وطن لوٹے ہیں۔ براہمداغ بگٹی تو بھارتی شہریت حاصل کرچکا ہے لیکن گزین مری کا بھائی ابھی تک ملک سے باہر ایک کالعدم تنظیم کو ہدایات دیتا ہے۔ کالعدم تنظیموں کے بہت سے فراری کمانڈر بھی ہتھیار پھینک کر قومی دھارے میں آنے کا اعلان کرچکے ہیں ، ایک اور واقعہ میں تربت کے علاقے گروگ کے پہاڑوں میں پندرہ افراد کی چھلنی زدہ لاشیں ملی ہیں، یہ افراد پنجاب کے نواحی علاقوں سے تعلق رکھتے تھے اور غیر قانونی طور پر ایران کے راستے یورپ جانا چاہتے تھے اور غیر قانونی طور پر ایران کے راستے یورپ جانا چاہتے تھے کہ تربت میں ان کو گاڑیوں سے اتار کر اغوا کر لیا گیا، ان کے شناختی کارڈ چیک کئے گئے جو پنجاب کے تھے ان تمام افراد کو گولیوں سے چھلنی کرکے لاشیں ویرانے میں میں پھینک دی گئی، اس سے پہلے بھی پنجاب کے مزدوروں کو قتل کرکے چھلنی کیا گیا تھا۔

کوئٹہ میں بھی حجام ، درزی، مزدور ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن چکے ہیں کہ ان کا تعلق پنجاب سے ہے جس پر کئی بار یہ آواز بھی اٹھی کہ پنجاب میں تو تعلق بلوچ برابری کی بنیاد پر تعصب کے بغیر خوشحال اور محفوظ زندگی گزاررہے ہیں مگر بلوچستان میں یہ تعصب کی فضا کیوں ہے۔ 1972ء میں تو سردار عطاء اللہ مینگل نے تمام پنجابیوں کو صوبہ بدر کیا تو گورنر کھرنے خوشدلی سے تمام پنجابی ملازمین کو قبول کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اب بعض مبصرین یہ کہتے ہیں کہ ”را “ یا بھارت کا ملوث ہونا صرف ایک بہانہ ہے آخر ان کاروائیوں کا نشانہ قوم پرست کیوں نہیں بنتے؟ بہرطور ان سب حالات سے دشمن فائدہ اٹھاتا ہے اور ترقی کا پہیہ الٹا چلنے لگتا ہے۔ مٹھی بھر لوگوں کی وجہ سے بلوچوں کی حب الوطنی پر شک کرنا غلط ہے لیکن یہ سلسلہ تھمنا چاہیے۔ حکومت کی جانب سے اسلحہ پکڑے جانے اور ایف سی آپریشن کی خبریں آئی ہیں مگر پتہ نہیں کیوں بلوچستان میں ملزم پکڑے نہیں جاتے اور آخر یہ صوبہ کیسے ترقی کرے گا؟وزیراعظم شاہد خاقان عباسی مختصر دورے پر کوئٹہ پہنچنے، چند ماہ میں ان کا یہ تیسرا دورہ ہے۔

انہوں نے بلوچستان کے لئے دس سالہ منصوبے کا اعلان کی اور کہا کہ 20 ارب کے اس منصوبے میں سکولز، مراکز صحت، پینے کا پانی اور دیگر سہولیات شامل ہیں،ہرضلع میں ایل پی جی گیس، بجلی دیگر سہولیات دی جائیں گی، شرپسندوں کا خاتمہ کرکے عوام کو ان کی خوشیاں لوٹائیں گے۔ یہاں سی پیک کے علاوہ عوام کی خوشحالی کے کئی منصوبے شامل ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Raw ki Mazmmom Karwaiya or Hkomat Ki Be Basi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 November 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.