ریڈیو نے چار گھنٹے قائد کے جنازے کا احوال نشر کیا

زیڈ اے بخاری کا غمزدلہجہ سماعتوں کو سوگوار بنا رہا تھا گورنر جنرل ہاؤس، ریڈیو بلڈنگ اور جائے تدفین پر مائیکروفون نصب تھے

پیر 11 ستمبر 2017

Radio ny Char Ghnty Qauid ky Jnazy ka Ahwll Nashr kia
الطاف مجاہد:
11 ستمبر 1948ء کی شب کراچی میں سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ دن بھر کی گرمی کے بعد رات کو ساحلی شہر میں خنکی بڑھ جاتی ہے اسلئے کراچی کے شہری سونے کی تیاریوں میں تھے۔ نو آزاد مملکت مسائل سے دوچار تھی۔ شہر پر مہاجرین کا دباؤکار مملکت چلانے میں مشکلات اور دیگر پریشانیاں موجود تھیں۔لیکن عزم تازہ امیدیں جواں اور حوصلے بلند تھے کہ جس قیادت ے برٹش ایمپائر، کانگریس اور نشنلسٹس مسلمانوں سے چومکھی لڑکر ملک حاصل کیا ہے وہ اس گرداب سے بھی نجات دلادے گی اور آنے والے دنوں میں مسلمانوں کی سب سے بڑی ریاست کو ایک طاقتور مملکت کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوجائیگا۔

لیکن چند ایک کے سوا کسی کو اندازہ نہ تھا کہ تخیل کو حقیقت کا رنگ دینے والے قائداعظم زیارت سے کراچی واپس آچکے ہیں۔

(جاری ہے)

ماڑی پور کے ہوائی اڈے سے گورنر جنرل ہاؤس تک کا سفر انہوں نے بیکسی کی کیفیت میں طے کیا ہے اور اب وہ جاں بلب ہیں۔قائد کے معالج خاص،کرنل الہی بخش اور ڈاکٹر ریاض علی شاہ،کی یادداشتیں پڑھیں تو بہت کچھ سامنے آتا ہے۔ اول الذکر کہتے ہیں:”قائداعظم بہت نحیف ہوچکے تھے اور ان کی نبض آہستہ چل رہی تھی۔

وہ مقوی قلب دوانہ پی سے اور نس کا ٹیکہ نہ لگ سکا کہ نسیں کام نہیں کررہی تھیں اور کم وبیش10 بجکر 20سے 25 منٹ کے دوران وہ وفات پاچکے تھے۔“ ہمارے خیال میں قائداعظم کے چوبیس پچیس گھنٹے زندہ رہنے کا ایک فیصد بھی امکان نہیں تھا اور یہ بات ہم نے 36 گھنٹے پہلے محترمہ فاطمہ جناح کو بتادی تھی لیکن ان کی وفات پر ہم بھی اس صدمے سے چکراگئے۔ میں اس عرصہ میں کسی معجزہ کیلئے دعا مانگتا رہا اور آخری دم تک نا امید نہیں ہوا تھا لیکن افسوس یہ معجزہ رونما نہ ہوا۔

“طبی ٹیم میں شامل دوسرے معالج ڈاکٹر ریاض علی شاہ کے الفاظ میں :”قائداعظم پر بے ہوشی طاری تھی ، نبض کی رفتار بھی غیر مسلسل تھی۔قدرے حالت سنبھلی چند منٹ بہتر رہی پھر دل ڈوبنے لگا،آنکھیں پتھرانے لگیں،سانس رک رک کر آنے لگی تھی اور بے ہوشی کے عالم میں آپ نے کہا”اللہ․․․․پاکستان!“ آپ کے مصنوعی دانت پہلے ہی نکال دیے گئے تھے اسلئے ان دولفظوں کے سوا کچھ سمجھ میں نہ آسکا۔

یہ بڑا رقت انگیز منظر تھا۔ پھر یہ اطلاع مسلم لیگی قائدین ، عمائدین، سرکاری اعمال اور اخبار نویسوں سے ہوتی ہوئی مختصر سے کراچی میں جو ٹاور سے گرومندر کے اطراف تک محیط تھا، پھیل گئی۔ ہر شخص افسردہ غمزدہ تھا۔ مہاجروں کی بستیوں میں تو آہ وبقا کی کیفیت تھی کہ پاکستان ہی نہیں پوری قوم یتیم ہوگئی ۔قائداعظم ، بابائے قوم، بانی پاکستان جس نام سے پکار لیں کہ گلاب کو جس نام سے بھی پکاریں اس کی خوشبو کی دلکشی کم نہیں ہوتی، قائد بھی اپنے انداز میں منفرد تھے۔

شائستگی ،وقار،تمکنت اور شیفتگی ان پر سجتی تھی۔ ملاقاتی مدتوں مصافحہ کالمس یادرکھتے کہ وہ دل کے سچے،زبان کے کھرے اور نگاہ کے پاکیزہ تھے۔ ان کے آخری ایام کیسے گزرے؟خالد بہزادہاشمی صاحب نے اسائنمنٹ دیا کہ بری پر خاص تحریر چاہیے ۔ سوچتا رہا کیا لکھوں۔ یک بارگی خیال آیا برسی کی مناسبت سے آخری مصروفیات تلاش کی جائیں۔ آئیڈیا ڈسکس کیا تو مدیر فیملی میگزین نے بھی سراہا۔

کئی کتب ،متعدد اخباری تراشے اور کچھ شخصیات کی یادداشت نے تعاون کیا تو یہ تحریر سامنے آگئی جو آپ کے زیر مطالعہ ہے۔بابائے قوم کی سرکاری مصروفیات کے ریکارڈ سے انکشاف ہوتا ہے کہ انہوں نے آخری خط جنرل ڈگلس گریسی کر تحریر کیا جو اس وقت افواج پاکستان کے کمانڈر انچیف تھے۔ خط کے متن میں مذکور ہے کہ قائداعظم نے تھل پروجیکٹ کہ مہاجر فوجیوں کی بہبود کیلئے تین لاکھ روپے کی منظوری قائداعظم ریلیف فنڈ سے دی۔

یہ اس خط کاجواب تھا جو جنرل گریسی نے انہیں تحریر کیا تھا۔ سید قاسم محمود مرحوم کے سلسلہ کتب میں تحریر ہے کہ بابائے قوم کی آخری تصویر ایک جریدے ،ماہ نو کے فوٹو گرافر نے کھینچی تھی جس میں میاں ارشد حسین سے قائداعظم مصافحہ کررہے ہیں۔ تصویر می مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح اور خواجہ شہاب الدین بھی نمایاں ہیں۔ قائداعظم کا آخری سرکاری پیغام 14 اگست کو ریڈیو پاکستان ہم آج آزادی کی پہلی سالگرہ منارہے ہیں ہم نے سال بھر میں حوادث کا مقابلہ ہمت عزم اور تدبر سے کیا“۔

بلاشبہ قائداعظم نابغہ روزگار شخصیت تھے ۔ انہوں نے نہرو انگریز اور نیشنلسٹ مسلمانوں سے چومکھی لڑی اور ناممکن کو ممکن کردکھایا۔ یہ آپ ہی کا افتخار تھا:
نگاہ برق نہیں چہرہ آفتاب نہیں
وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں
قائداعظم کا سفرِ آخرت بھی مثالی تھا۔ گورنر جنرل ہاؤس سے نمائش میدان تک، جہاں تدفین ہوئی تھی، خصوصی انتظامات کئے گئے تھے مزار کی جگہ کا انتخاب کراچی انتظامیہ نے کیا تھا اور کہا جاتا ہے کہ ایڈ منسٹریٹر کراچی ہاشم رضانے جھگیوں کوہٹایا اور ٹیلہ پر تدفین ہوئی۔

آج بھی قائداعظم کا مزار تہہ خانے میں واقع ہے جہاں جانے کیلئے چہار سمت سیڑھیاں موجود ہیں۔ ریڈیو پاکستان نے گورنر جنرل ہاؤس،بندروڈ کی ریڈیو بلڈنگ اور جائے تدفین پر تین مائیکر وفون نصب کئے جن کو ٹیلی فون کے تاروں سے منسلک کرکے قومی رابطے پر لاہور ،پشاور کیلئے نشریات کا سلسلہ شروع ہوا۔ ریڈیو پاکستان سے طویل عرصے تک بحیثیت سینئر پورڈیوسر منسلک رہنے والے نسیم الدین خان نے بتایا کہ اس وقت زیڈ اے بخاری ریڈیو کے انتظامی سربراہ تھے۔

انہوں نے تین مبصر منتخب کئے۔ گورنر جنرل ہاؤس میں وہ خود ریڈیو بلڈنگ میں وقار عظیم اور صدیق احمد صدیقی جبکہ نمائش میدان میں بھی نشریات کوکور کیا جارہا تھا۔ سہ پہر تین بجنے میں ایک منٹ باقی تھا تو ریڈیو پاکستان سے سوگوار لہجے میں بتایا گیا حضرت قائداعظم کا جنازہ اٹھایا جارہا ہے ہمارا نمائندہ گورنر جنرل ہاؤس میں موجود ہے وہ آپ کو اس کا آنکھوں دیکھا حال سنائے گا۔

ملت کے محبوب کے سفر آخرت کی لمحہ بہ لمحہ لحظہ روداداس وقت کے سامعین سنتے رہے۔ زیڈ اے بخاری کا لہجہ الفاظ کا وزیر بم سماعتوں کو غمزدہ کر رہا تھا ۔ جب تک جلوس نظر آتا رہا زیڈ اے بخاری کی آواز گونجتی رہی جب انکی آواز نموش ہوئی تو وقار عظیم نے مائیک سنبھالا اور لاکھوں کے جلوس ک احوال بیان کرنے لگے۔ پانچ بجے نماز جنازہ ہوئی۔ علامہ شبیر احمد عثمانی نے قائداعظم سے متعلق خطبہ پڑھا اور پھر آخری دیدار کا سلسلہ شروع ہوا۔

قائدملت لیاقت علی خان ،وزراء عمائدین موجود تھے۔ پھر رائل پاکستان ائیرفورس کے جہازوں نے گلپاشی کی اور قائد سپرد خاک کردیے گئے۔ مٹی میں چراغ رکھ دیا گیا کہ وہاں بھی روشنی رہے ۔ ریڈیو کے تینوں مبصرین نے سواسات بجے آنکھوں دیکھا حال ختم کیا لیکن سچ یہ ہے ک قائدانکی باتیں اور یادیں ختم ہوہی نہیں سکتی کیونکہ انہوں نے خوابوں کو حقیقت کارنگ بخشا تھا،ناممکن کو ممکن بنادیا تھا۔

پاکستان کے جرائد ہی نہیں ہندوستان کے ”ملاپ“برطانیہ کے ”نیوز کرانیکل“ ،نیوپارک کے ”ہیرالڈ ٹریبون“ دہلی کے ”ہندو“ امریکہ کے ”نیویارک ٹائمز“ بھارت کے ”تیج“ مانچسٹر کے گارجین“ لندن کے ”پارک شائر پوسٹ“بھارت کے ”الجمعیت “،پر بھات“ ”ہندوستان ٹائمز“ ”امرت بازار پتریکا“ ایران کے”صدائے مردم“ اور لندن کے ”ڈیلی ایکسپریس“ نے بھی قائداعظم کو خراج عقیدت پیش کیا اور ان کی دانش مندی،عزم استقلال کر سراہا۔ ملاد نے لکھا کہ مسٹر جناح سے زیادہ مضبوط ،زیادہ ارادہ ور اور زیادہ اٹل آدمی متحد ہندوستان نے پیدا ہی نہیں کیا۔ سچ کہتے ہیں:مدعی لاکھ پہ بھاری ہے،گواہی تیری

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Radio ny Char Ghnty Qauid ky Jnazy ka Ahwll Nashr kia is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 September 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.