قرضوں کے بوجھ تلے خوشحالی کا سفر؟

سرمایہ کاری میں کمی سے پاکستانی معیشت تباہی کے دہانے پر۔۔۔ پاکستان نے گزشتہ 3 برس میں قرضے اور سود کی مد میں 16 ارب ڈالر کی ادائیگی

جمعہ 4 اگست 2017

Qarzon K Bojh Talay Khush Haali ka Safar
محبوب احمد:
کرپشن ،ٹیکس چوری اور شاہانہ اخراجات سے قومی اثاثوں کی لوٹ مار کی داستان بڑی طویل ہے، کس سیاسی جماعت میں کتنا بڑا خائن اور قرض خور ہے رفتہ رفتہ یہ حقیقت عوام پر آشکار ہورہی ہے، یہ بھی خوش آئند امر ہے کہ قومی خزانوں پر شب خون مارنے والے عوامی نمائندے آج ایک دوسرے کی بدعنونیوں کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔


پاکستان میں جو بھی حکومت برسراقتدار آئی اس نے نئے منصوبوں کے نام پر قرضے لینے کا سلسلہ جاری رکھا جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وطن عزیر غیر ملکی قرضوں میں جکڑتا چلا گیا اور اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ قرضوں کے حصول کیلئے انتہائی قیمتی قومی اثاثوں کو بھی گروی رکھنے سے گریز نہیں کیا جا رہا۔

(جاری ہے)

حکومت کامئوقف ہے کہ یہ قرضے برآمدات کے خلاء کو پورا کرنے،بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ، بجٹ کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے حاصل کئے جارہے ہیں جن کے بدلے قومی اثاثوں کو داؤ پر لگایا جارہا ہے لیکن یہاں یہ سوال زبان زدعام ہے کہ کیا قومی اثاثے رہن رکھ حاصل کئے جانیوالے قرضے برآمدات کے خلاء کو پورا کرنے اور بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کا باعث بن پائیں گے؟۔

قرضوں کے حصول کیلئے قومی اثاثوں کو رہن رکھنے کا جو سلسلہ برسہا برس سے جاری ہے اگر اس کا مختصر جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ معاشی ترقی کے بلند وبانگ نعرے لگانے والے حکمرانوں نے کون کون سے قومی اثاثوں کو رہن رکھ کر قرضے حاصل کئے ۔ 2013ء میں کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئر پورٹ کو اسلامی بانڈز کی سکیورٹی کے طور پر استعمال کرکے 182 ارب کے قرضے حاصل کئے گئے، قابل غور اور دلچسپ امریہ بھی ہے کہ کراچی ایئرپورٹ کو صرف ایک بار ہی رہن نہیں رکھا گیا بلکہ 2015ء میں بھی اس ایئر پورٹ کے بدلے میں 117 ارب روپے کا قرض حاصل کیا گیا ۔

فروری 2016ء میں اس عمارت کر رہن رکھ کر مقامی اور بین الاقوامی اداروں اور سرمایہ کاروں سے دوبار قرضے حاصل کئے گئے ، اسلام آباد لاہور ایم ٹو موٹر وے کے اسلام آباد تا چکوال سیکشن کو غیر ملکی سرمایہ کاروں سے 1 ارب دالر حاصل کرنے کیلئے رہن رکھا گیا جبکہ 2014ء کے دوران موٹر وے کا حافظ آباد تا لاہور سیکشن اسلامی بانڈز کے بدلے مزید 1 ارب ڈالر لینے کیلئے استعمال کیا گیا، جون 2014ء میں موجودہ حکومت نے فیصل آباد تا پنڈی بھٹیاں موٹر وے ایم تھری کو رہن رکھ کر 49 ارب روپے حاصل کئے۔

2006ء میں صرف 6 ارب روپے قرضے لینے کیلئے بیشتر نیشنل ہائی ویز اور بعض موٹر ویز کو رہن رکھنے کا فیصلہ کیا گیا جن میں اسلام آباد پشاور موٹر وے ایم ون ، فیصل آباد ملتان موٹر ویز کو رہن رکھنے کا فیصلہ کیا گیا جن میں اسلام آباد پشاور موٹر وے ایم ون ، فیصل آباد، ملتان موٹر وے ایم فور، اسلام آباد مری اور مظفر آباد، جیکب آباد بائی پاس،ڈیرہ غازی خان تا راجن پور ہائی وے ، اوکاڑہ ہائی پاس اور دیگر منصوبے سکیورٹی پر رکھ دیئے گئے ،یہ بھی اطلاعات گردش کررہی ہیں کہ اب مزید قرضوں کے حصول کیلئے پی ٹی وی کے تمام اثاثے رہن رکھنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے جن کی مالیت اربوں میں ہے۔

پی ٹی وی کی طرح ریڈیو پاکستان کے تمام اثاثے بھی بطور گارنٹی استعمال کئے جائیں گے، یاد رہے کہ ملک بھر میں ریڈیو پاکستان کی 61 عمارتوں کی مالیت کا تخمینہ صرف 72 کروڑ روپے لگایا گیا ہے، اگر یہاں دیکھا جائے تو یہ رقم اسلام آباد میں ریڈیو پاکستان کی ایک عمارت کی مالیت کے برابر ہے۔ قبل ازیں بھی قرضوں کے حصول کیلئے قومی اثاثوں کے رہن رکھنے کے حوالے سے یہ اعدادوشمار قارئین کی نذر کئے گئے ہیں لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ” امداد نہیں تجارت“کا نعرہ لگانے والے دنیا بھر میں کشکول لئے کیوں گھوم رہے ہیں؟ ،پاکستان پر مجموعی قرضوں اور واجبات کا حجم دن بدن کیوں بڑھتا چلاجارہا ہے؟۔


پاکستان کے واجب الاد قرضوں اور واجبات کا مجموعی حجم ایک اندازے کے مطابق 233 کھرب 89 ارب 60 کروڑ روپے کے لگ بھگ ہے۔ بیرونی قرضے اور واجبات 78 کھرب 14 ارب 20 کروڑ روپے ہیں، گزشتہ برس وفاقی حکومت کے اندرونی قرضے 14کھرب 31 ارب40 کروڑ روپے کے اضافے سے 140 کھرب 89 ارب روپے کی سطح تک پہنچ گئے تھے جبکہ آئی ایم ایف کا قرض شامل کرکے بیرونی قرضوں کا حجم 6 کھرب روپے کے اضافے سے 62 کھرب 20 کروڑ روپے ہوگیا ہے، ہر پاکستانی اوسطا 1 لاکھ 15 ہزار 911 روپے جبکہ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کا ہر شخص ایک لاکھ 4 ہزار روپے کا مقروض ہے۔

ایک طرف پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے مسلسل پسا جارہا ہے لیکن دوسری طرف قرض معاف کرانے والوں کی ایک لمبی قطار ہے جس سے پاکستانی معیشت تباہی سے دوچار ہے۔ پاکستان میں گزشتہ 30 برس کے دوران قرض معاف کرانے والوں کی تفصیلات کو اگر دیکھا جائے تو اس عرصے میں 400 ارب کے قرضے معاف کرائے گئے ہیں۔ 1990ء سے 2000ء تک 200ارب روپے کے قرضے معاف ہوئے، دلچسپ امریہ بھی ہے کہ واپڈا اور دیگر بڑے اداروں نے بھی کروڑوں روپے کے قرضے معاف کرائے ہیں۔

صوبائی اسمبلی میں پیش کی گئی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ 167 کیسز میں کاروباری نوعیت کے قرضے معاف ہوئے ، 5 افراد دیوالیہ جبکہ صرف 3کیس زرعی قرضے کے ہیں، گزشتہ دوبرس کے دوران یعنی کہ 2014 ء میں پنجاب حکومت نے 43 ارب 11 کروڑ روپے جبکہ 2015ء میں 55 ارب 56 کروڑ روپے قرض لیا۔ پنجاب بینک نے گزشتہ 8 برس میں ایک ارب 58 کروڑ روپے سے زائد کے قرض معاف کئے۔


بیرونی امداد اور قرضوں کے حصول کے 2 ذرائع ہیں ایک کنسوریشم ذرائع مثلا پیرس کلب کے ممالک جن میں امریکہ ، کینیڈا، برطانیہ، فرانس،جرمنی، جاپان، اٹلی، بیلجیم، ہالینڈ ، عالمی بنک،ایشیائی ترقیاتی بنک، بین الاقوامی ترقیاتی ایجنسی وغیرہ شامل ہیں، یہ امدادی کلب عالمی بنک نے قائم کیا جو کہ پاکستان کوترقیاتی مقاصد کیلئے قرضہ اور امداد فراہم کرتے ہیں۔

1999 ء تک پاکستان نے جو کل قرضہ بیرونی ذرائع سے حاصل کیا تھا اس کا 45 فیصد پیرس کلب نے دیا تھا چونکہ 11/9 کے بعد پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں اتحادی ممالک کا ساتھ دیا تو پاکستان کو امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے براہ راست امداد زیادہ فراہم کرنا شروع کردی تو پیرس کلب کے قرضے مارچ 2006ء می کل قرضے کے 45 فیصد سے کم ہو 39.6 فیصد ہوگئے اور مزید اس پر پیرس کلب نے 33 برس کیلئے پاکستان کے ذمے قرضوں کو ری شیڈول کردیا، دوسرا نان کنسوریشم ذرائع ، ان میں آسٹریا،آسٹریلیا، بلغاریہ، چین ، چیکوسلواکیہ، ڈنمارک ، ہنگری ، سپین، رومانیہ،سوئیزرلینڈ ، روس اور سنگاپور شامل ہیں۔


اس کے علاوہ اوپیک ذرائع یعنی تیل پیدا کرنے والے اسلامی ممالک سعودی عرب ، ابو ظہبی، ایران، کویت، قطر بھی پاکستان کو امداد اور قرضے فراہم کرتے ہیں لیکن پاکستانی معیشت کا شروع دن سے ہی سب سے سنگین مسئلہ ورلڈ بینک ، آئی ایم ایف ، ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی وہ شرائط ہیں جنہوں نے وطن عزیز کی معیشت کو بری برح جکڑ رکھا ہے، موجودہ حالات میں ملکی و بیرونی قرضوں میں تاریخی تیز رفتاری سے اضافے ہونے سے جہاں سرمایہ کاری میں کمی دیکھنے کوملی ہے وہیں مہنگائی اور بیروزگاری میں بھی انتہائی تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان نے گزشتہ 3 برس کے دوران غیر ملکی قرضوں اور سودکی مد میں لگ بھگ 16 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کی ہیں، گزشتہ مالی سال کے پہلے 9 ماہ کے دوران غیر ملکی قرضوں اور سود کی مد میں 5 ارب 22کروڑ ڈالر سے زائد کی ادائیگیاں کی گئیں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق گزشتہ مالی کی پہلی سہ ماہی کے دوران 1 ارب 45 کروڑ 70 لاکھ ڈالر،دوسری سہ ماہی کے دوران 1 ارب 24کروڑ 60 لاکھ ڈالر جبکہ تیسری سہ ماہی کے دوران 2 ارب 43 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی ادائیگیاں کی گئیں، گزشتہ مالی سال کے پہلے 9 ماہ کے دوران قرضوں کی واپسی کی مد میں 4 ارب 13 کروڑ 50 لاکھ ڈالر جبکہ سود کی مد میں 1ارب9 کروڑ ڈالر اداکئے گئے، 3 ارب 82 کروڑ 20لاکھ ڈالر کی ادائیگیاں حکومتی قرضوں کی مد میں کی گئیں، 9 ماہ کے دوران آئی ایم ایف کو6 کروڑ ڈالر ادا کئے گئے، سرکاری اداروں کے ذمے قرضے کی مد میں 29 کروڑ ڈالر کی ادائیگیاں کی گئیں جبکہ بینکوں سے لئے گئے 98 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کے قرضے ادا کئے گئے۔

اعدادوشمار کے مطابق مالی سال 2015-16ء کے دوران مجموعی طور 5 ارب 31 کروڑ 80 لاکھ ڈالر جبکہ مالی سال 2014-15ء کے دوران5 ارب 40 کروڑ ڈالر کے قرضے اور سود ادا کیا گیا، یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت نئے قرضوں کے حصول سے گریز کرتے ہوئے قرضوں کی وصولی یقینی بنا کر قومی اداروں میں کرپشن کی روک تھام کیلئے ایسی جامع پالیسیاں تشکیل دے جس پاکستان صحیح معنوں میں ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Qarzon K Bojh Talay Khush Haali ka Safar is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 August 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.