پروفیسر حافظ محمد سعید کی نظر بندی کے چھ ماہ

مظبوط پاکستان ہی کشمیر کی آزادی اور عالم اسلام کے استحکام کا صامن ہے۔ ملک حالے جنگ میں ہے اور ہمارے حکمرانوں نے وطن کے دفاع کی جنگ لڑنے والوں کو نظر بند کررکھا ہے۔ ملک کا دفاع اور کشمیریوں کی مدد اگر جرم ہے تو جرم کرتے رہیں گے

پیر 7 اگست 2017

Prof Hafiz Muhammad Saeed Ki Nazar Bandi K 6 Maah
محمد ارسلان حجازی:
پاکستان کا ہر پیروجوان اس بات سے بخوبی آگاہ اور آشنا ہے کہ جماعتہ الدعوة ایک پرامن جماعت ہے جو اسلام اور پاکستان کی سلامتی ، اخوت ومحبت ، دکھی انسانیت کی خدمت، علم کے فروغ ، مسلمانوں کے حقوق و تحفظ کی بات کرتی ہے جو صرف یہ کہتی ہے کہ مسلمانوں کو جینے کا حق دیا جائے۔ وہ مسلمان مقبوضہ جموں کشمیر کے ہوں یا بھارت کے،افغانستان کے ہوں یا عراق کے، فلسطین کے ہوں یا برما کے۔

اس طرح مسلمانوں کے علاوہ بھی دیگر مذاہب کے لوگ دنیا میں جس جگہ بھی ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں انہیں جینے کا حق دیا جائے۔ جماعتہ الدعوة بھارت سے کہتی ہے کہ وہ 1947ء کے تقسیم ہند کے فارمولہ کی روسے دلی طور پر پاکستان کو آزاد اور خود مختار ملک کے طور پر تسلیم کرے، اس کے زندہ وقائم رہنے کے حق کومانے، پاکستان دریاؤں پر ڈیم نہ بنائے، پانی نہ روکے ہماری زمینوں کو بنجر وبے آباد نہ کرے، پاکستان کے خلاف سازشوں ، ریشہ دوانیوں،دہشت گردی اور تحزیب کاری کے جال بچھانا بند کرے، بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو جینے کا حق دے اور شہ رگ پاکستان مقبوضہ جموں کشمیر کو آزاد کرے۔

(جاری ہے)

جماعتہ الدعوة کا قصور یہ ہے کہ وہ اہل پاکستان کو جگا رہی ، خطرات سے آگاہ کررہی ،دشمن کی سازشوں سے ہوشیار کررہی اور اہل وطن سے کہہ رہی ہے
تازہ ہوا کے شوق میں اے ساکنانِ شہر اتنے نہ در بناؤ کہ دیوار گرپڑے
ایک وقت تھا جب کشمیری قوم کی مائیں اپنے بچوں کو پاکستان کا نمک بطور گڑھتی دیا کرتی تھیں تاکہ وہ بڑے ہو کر پاکستان کے وفادار رہیں۔

اس کے بعد ہمارے حکمرانوں کی غلطیوں کی وجہ سے ایک وقت آیا کہ جب پاکستان کے ساتھ محبت کے جذبے ماند پڑگئے، خاص کر آزاد کشمیر میں پاکستان کے خلاف نفرت کے جذبے پرورش پانے اور خود مختار کشمیر کے نعرے لگنے لگے۔
آزاد کشمیر کی صورت حال مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمانوں پر بھی تیزی سے اثر انداز ہونے لگی اور بھارتی حکمران خوشی سے بفلیں بجانے لگے تھے۔

اس لئے کہ مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کے دلوں سے پاکستان کی محبت کو ختم کرنا یا کم کرنا ان کی اولین خواہش تھی۔ ہمارے حکمران اس صورت حال سے بالکل غافل اور لاپروا تھے۔ یہ جماعتہ الدعوة ہی تھی کہ جس نے اس خطرناک صورت حال کا ایسا تدراک کیا کہ آزاد کشمیر میں قومیت پرستی کے نعرے دم توڑ گئے اور مقبوضہ جموں کشمیر میں پاکستان کے ساتھ محبت کی ایسی لہر پیدا ہوئی کہ جس پر قابو پانا بھارتی حکمرانوں کیلئے ممکن نہ رہا۔

اس وقت مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کے ساتھ محبت کے ایسے ایسے مناظر دیھکنے میں آرہے ہیں کہ جن کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ لوگ پاکستان کے نام پر سینوں پر گولیاں کھا رہے ، سبز ہلالی پرچموں میں اپنے پیاروں کو دفن کررہے ، پاکستان کے نام پر جی رہے اور پاکستان کے نام پر جانیں قربان کررہے ہیں۔ بچے، بوڑھے،اور خواتین بھی بھارتی فوج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ”پاکستان سے رشتہ کیا‘ لاالہ الا اللہ“ ۔

۔۔ تیری منڈی میری منڈی، راولپنڈی“ کے فلک شگاف نعرے لگارہے ہیں۔
بھارتی حکمرانوں نے تحریک آزادی کشمیر کے اس جوش وجذبہ کو ختم کرنے اور کشمیری قوم کے دلوں سے پاکستان کی محبت نکالنے کے ہر طرح کے حربے وہتھکنڈے استعمال کرڈالے۔ ایک طرف ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے تو دوسری طرف تحریص وترغیب کے جال بچھائے اور اربوں روپے کے پیکج دیئے گئے لیکن اہل کشمیر کی حالت ”بڑھتا ہے ذوق جنوں ہرسزا کے بعد “ والی ہے۔

جس قدر بھارتی فوج کا ظلم بڑھتا جا رہا ہے کشمیری قوم کے دلوں میں پاکستان کے ساتھ محبت کا جوش و جذبہ بھی اس قدر بڑھ رہا ہے۔ دوطرفہ محبت کے جذبات پروان چڑھانے میں یقینا جماعتہ الدعوة کے انتھک ،محنتی،جفاکش،محب وطن قائدین اور کارکنوں کا بنیادی کردار ہے۔ بھارتی حکمران بہت سوچ بچار کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ جب تک اہل کشمیر کی سپلائی لائن نہیں کاٹی جائے گی اس وقت تک کشمیری قوم کے جذبے ماند نہیں پڑیں گے اور تحریک آزادی کا ٹیمپو نہیں ٹوٹے گا۔

سو اس مقصد کی خاطر بزدل بھارتی حکمرانوں نے نئے امریکی صدر ٹرمپ کی منت کی اور ٹرمپ نے بھارتی ایما پر تحریک آزادی کشمیر کی سپلائی لائن جماعتہ الدعوة ہے۔ سپلائی لائن کا یہ مطلب نہیں کہ جماعتہ الدعوة مقبوضہ جموں کشمیر میں مجاہدین لانچ کرتی اور مجاہدین کیلئے اسلحہ یا مالی امداد بھیجتی ہے بلکہ اصل بات یہ کہ جماعتہ الدعوة نے اہل کشمیر کی مدد و حمایت کی فضا ہموار کرنے کے لئے اس قدر محنت کی ہے اور کشمیر کا مسئلہ ہر فورم پر اتنی خوبصورتی اور محنت کے ساتھ پیش کیا ہے کہ پوری پاکستانی قوم اہل کشمیر کے شانہ بشانہ کھڑی ہو چکی ہے۔

مدد وحمایت کے اس جذبے نے کشمیری قوم کو نیا حوصلہ وولولہ دیا اور پاکستان کے ساتھ محبت کا ایسا جذبہ ان کے دلوں میں پروان چڑھایا ہے کہ جس پر قابو پانا بھارتی حکمرانوں کیلئے ممکن نہیں رہا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے بھارتی خوشنودی ، تحریک آزادی کشمیر کوناکام بنانے اور اس پر شب خون مارنے کے لئے پروفیسر حافظ محمد سعید اور ان کے ساتھیوں کو نظر بند کیا ہے۔

نظر بندی کی اس واردات میں ٹائمنگ کی خاصی اہمیت ہے یعنی پانچ فروری سے محض پانچ دن پہلے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اور بھارتی حکمرانوں کو پروفیسر حافظ محمد سعید سے ایک ہی تکلیف اور ایک ہی شکایت ہے۔۔۔ اور وہ ہے مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے لئے آواز اٹھانا ۔
پاکستان کے دشمنوں کا جماعتہ الدعوة کے خلاف صف آرا ہونا پروپیگنڈا کرنا اور الزامات کے تیر برسانا سمجھ میں آنے والی بات ہے اس لئے دشمن سے خیر اور بھلائی کی توقع عبث ہے۔

دکھ اور افسوس اپنوں پر ہے جو محض اغیار کی خوشنودی کی خاطر جماعتہ الدعوة پر طعن و تشنیع کے تیر برسا رہے ، سنگ زنی کررہے ، بدنام کررہے ایک محب وطن جماعت کر مجرم بنا کر دنیا کے سامنے پیش کر نے کی کوشش کررہے اور اس کے قائدین کو قید وبند کی صعوبتوں سے گزار رہے ہیں۔ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے رانا افضل کا یہ بیان کہ”ہم حافظ سعید کو ختم کیوں نہیں کرسکے ہمیں بتایا جائے کیا حافظ سعید انڈے دیتا ہے جو ہم نے انہیں پال رکھا ہے۔

۔۔؟ اس بیان پر مودی جیسے پاکستان کے دشمن تو خوش ہوسکتے ہیں لیکن یہ بیان پاکستانی قوم کے دل ودماغ اور روح کو زخمی کرگیا ۔ اس بیان کی صدائے بازگشت ابھی تازہ تھی کہ پروفیسر حافظ سعید کو ان کے چار ساتھیوں سمیت پانچ فروری اظہار یکجہتی کشمیرکے دن سے صرف پانچ دن پہلے نظر بند کرکے تحریک آزادی کشمیر پر شب خون ماراگیا۔
نظربند ی کے باوجود بھی جب ہمارے حکمران جو 28 جولائی سے سابقہ ہوچکے ہیں ان کا دل نہ بھرا تو شہراقبال سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے خواجہ محمد آصف کو خیر سے چند دن پہلے تک پاکستان کے وزیر دفاع بھی تھے، انہوں نے جرمنی کے شہر میونح میں ایک سکیورٹی کانفرنس میں پاکستان کی بجائے بھارت کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک اور شرمناک بیان داغتے ہوئے کہا” جماعتہ الدعوة کے امیر حافظ محمد سعید اور ان کے دیگر ساتھی معاشرے کیلئے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں اس لئے انہیں فورتھ شیڈول کے تحت حراست میں لیا گیا ہے۔

“ اگر آج مصور پاکستان علامہ اقبال زندہ ہوتے تو وہ اپنے شہر کے باسی خواجہ آصف کے اس بیان پر یقینا شرمسار ہوتے اور اپنے اس شعر میں
جعفر از بنگال و صادق از و کن
ننگِ ملت، دین،ننگِ وطن
خواجہ آصف اور رانا افضل کو بھی ملت فروشی پر ضرور ”خراج تحسین “پیش کرتے۔
فورتھ شیڈول کے تحت پروفیسر حافظ محمد سعید اور ان کے ساتھیوں کی نظر بندی کو چھ ماہ مکمل ہوچکے ہیں۔

لیکن دوسری طرف پاکستان میں بم دھماکے کرنے والے آزاد پھر رہے ہیں ہر دھماکے کے بعد ہمارے ارباب اقتدار واختیار قوم کو خوشخبری سناتے ہیں کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی۔ پاکستانی قوم اپنے ارباب اختیار سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ دھماکے”را“ کے ایجنٹ کر رہے ہیں لیکن یہ کون سا طریقہ اور اصول ہے کہ اپنے ہی ملک کے محسنوں ،ملک کے دفاع کی بات کرنے اور ملک کے دشمنوں کی نشاندہی کرنے والے عین حالت جنگ میں نظر بند کردیا جائے۔

بات یہ ہے کہ جن ملکوں کے ارباب اقتدار واختیار اور دفاع کے ذمہ داران اپنے ملک کے دفاع کی ذمہ داریوں سے غافل ہو کر اپنے ہی ملک کے محسنوں پر تنگبازی کرنے اور قیدوبند کرنے لگ جائیں تو ایسے ملک دشمن کیلئے ترنوالہ ثابت ہوتے ہیں اور ان کی حالت
دیوار کیا گری میرے خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے گھر میں رستے بنالئے
والی ہوجاتی ہے۔
پروفیسر حافظ محمد سعید کیا کہتے ہیں اور ان کا قصور کیا ہے۔

۔؟ آئیے جماعتہ الدعوة کے امیر کا قصور ان کی اپنی زبان سے سنتے ہیں ۔ لاہور میں پروفیسر حافظ محمد سعید نے سینئر صحافیوں اور کالم نگاروں کے ساتھ ایک نشست کی تھی ۔ یہ نشست اس اعتبار سے یادگاربن گئی کہ اس کے بعد وہ نظر بند کردیئے گئے۔ اس موقع پر امیر جماعتہ الدعوة کا کہنا تھا کہ مظلوم کشمیریوں کیلئے آواز اٹھانے پر پابندیاں لگتی ہیں تو ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں ۔

ملک کا دفاع اور کشمیریوں کی ممد اگر جرم ہے یو ہم یہ جرم کرتے رہیں گے ۔ بھارت وامریکہ سی پیک کیخلاف سازشوں اور پاکستان کے خلاف مذموم منصوبوں کی راہ میں جماعتہ الدعوة کو بہت بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں ۔ مسئلہ صرف ہماری جماعت کا نہیں ملک کا ہے۔ بھارت امریکہ کے ذریعہ پاکستان پر دباؤ بڑھا رہا ہے۔ وطن عزیز کے دفاع اور بیرونی سازشوں کے توڑ کیلئے ہمیں متحد ہو کر کردار ادا کرنا اور قومی سطح پر کشمیر پاکستان کی شہ رگ والا قائداعظم کا موقف اختیار کرنا ہے۔

لہذا حکومت کشمیریوں کو مایوس کرنے والی پالیسیاں نہ بنائے۔ ہمارا جرم کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہے ۔ ہم نے 2017ء کا سال کشمیر کے نام کرنے کا اعلان کیا ۔ جب میں نے کشمیری لیڈروں کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران یہ اعلان کیا تو بھارت نے بہت شور مچایا، ہمیں اس وقت ہی توقع تھی کہ اب ہماری جماعت کے خلاف کچھ نہ کچھ کیا جائے گا۔ لیکن ہمارا قافلہ رکنے تھمنے والا نہیں۔

نریندر مودی نے برسراقتدار آتے ہی سندھ کے ہندوؤں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت میں آجاؤ ہم یہاں آپ کے لئے مہاجر کالونیاں بناتے ہیں ہم نے اس سازش کا توڑ کرتے ہوئے
 سندھ کے دور دراز علاقوں میں تقریبا ایک ہزار کنویں کھدوائے ہیں مزید دو سو کنویں تعمیر کروارہے ہیں ۔ سولر انرجی کے پروجیکٹ لگانے سے امسال وہاں گندم اور چاول کی فصل ہوئی ہے۔

اسی طرح گلگت بلتستان ، چترال اور بلوچستان میں ہم نے حکمت عملی سے بھارت کے منصوبے ناکام بنانے ہیں انشاء اللہ جا کانتیجہ یہ نکلا کہ ہندوؤں نے مودی سرکار کی آواز پر کان نہیں دھرا اور انہوں نے پاکستان سے محبت کا برملا اظہار کیا۔ اسی طرح ہم نے خضدار ، مشکے اور آوران جیسے بلوچستان کے دور دراز علاقے جہاں علیحدگی کی تحریکیں تھیں وہاں واٹر پروجیکٹ لگائے۔

راشن تقسیم کیا ، میڈیکل سنٹر او رڈسپنسریاں بنائیں،ایمبولینسیں چلائیں، اسی طرح بچوں کی مفت تعلیم کا بندوبست کیا۔ ان رفاہی و فلاحی خدمات کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ لوگ پاکستانی پرچم اٹھا کر پاکستان زندہ باد ریلیاں نکال رہے ہیں۔ ہمارا یہ کردار اللہ کے دشمنوں کو برداشت نہیں اور وہ جماعتہ الدعوة کے اپنے ان مذموم منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔

وہ ایسے ہی جماعتہ الدعوة پر پابندی نہ لگانے کی صورت میں پاکستان کو دھمکیاں نہیں دے رہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا یہ آواز اٹھائے حق اور انصاف کا ساتھ دے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ آخر ہماراجرم کیا ہے اعر امریکہ و بھارت کو ہم سے تکلیف کیا ہے؟ اگر ہم پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں تو ہم پھر بھی اپنا کام جاری رکھیں گے۔ حالات خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں ہم نے اس ملک کی حفاظت کرنی ہے اور اس کے دفاع کیلئے کردار ادا کرنا ہے۔

ہمارا مسئلہ جماعت نہیں بلکہ یہ ملک ہے۔ آزادی بہت بڑی نعمت ہے ۔ پاکستان محفوظ ہے تو ہم بھی محفوظ ہیں اسی سے کشمیر کو آزادی ملے گی اور اگر تحریک آزادی کشمیر کمزور ہو گی تو پاکستان بھی کمزور ہوگا۔ مضبوط پاکستان ہی عالم اسلام کے دفاع کیلئے کردار ادا کرسکے گا۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کشمیریوں کو حوصلہ دینا ہے اور حکومت پر دباؤ بڑھانے کیلئے بڑے پروگرام کریں گے۔

لاہور سے اسلام آباد اور کراچی و پشاور سے اسلام آباد تک کارواں چلائیں گے۔ ہم پر پابندیاں لگتی ہیں تو عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔ بھارت ہمیشہ ہمارے خلاف پروپیگنڈہ کرتا ہے جس کے نتیجہ میں امریکہ پاکستان پر دباؤ بڑھاتا ہے اور پھر ہمارے خلاف اقدامات اٹھائے جاتے ہیں ۔ پہلے بھی لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے جماعتہ الدعوة کے حق میں فیصلے دیے اب بھی انشاء اللہ عدالتوں میں جائیں گے ۔

ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے ماضی میں جھوٹا پروپیگنڈا کرکے یو این او سے ہمارے خلاف فیصلے کروائے۔ ہم نے بانکی مون کو خط لکھ کر اپنا موقف واضح کیا اور کہا کہ ہمارے خلاف کوئی ثبوت ہے تو لیکر آؤ ہم کسی بھی بین الاقوامی عدالت میں اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کے مسئلہ کشمیر پر پوری قوم میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے یہ کوئی پانامہ لیکس کا مسئلہ نہیں ہے جس میں کسی کا اختلاف ہو۔

ہر شخص اس بات کا عزم کرے کہ ہم نے اس تحریک میں حصہ ڈالنا ہے۔ اگرہم عوامی سطح ہر متحرک ہوں گے تو حکومت کو بھی جدوجہد آزادی کشمیر کیلئے تیار کرسکیں گے۔ یہ ہر اعتبارسے ہماری ذمہ داری ہے ۔ اگر کشمیری مایوس ہوتے ہیں تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی اور اس کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی۔ حکومت واپوزیشن سمیت سب جماعتوں کا چاہئے کہ وہ باہمی اختلافات ختم کریں اور کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہوں۔

کشمیری ہرقسم کی رکاوٹوں کے باوجود میدان میں پاکستانی پرچم اٹھائے ہوئے ہیں، ہمیں بھی کھل کر ان کی مدد کرنا ہے“۔ یہ تھی امیر جماعتہ الدعوة پروفیسرحافظ محمد سعید کی گرفتاری سے چند دن قبل سینئر کالم نگاروں سے آخری گفتگو ۔ اس گفتگو کا ایک ایک لفظ پاکستان اور اہل کشمیر کی محبت میں ڈوبا ہوا ہے اور ان کی تحریک کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ یہ جذبہ بھارتی حکمرانوں کے لئے قطعی ناقابل برداشت ہے، اسی وجہ سے امیر جماعتہ الدعوة کا نظربند کیا گیا ہے لیکن نظر بند یوں سے یہ تحریک رکنے اور تھمنے والی نہیں ہے۔

امر واقعہ یہ ہے کہ پروفیسر حافظ محمد سعید جرمِ بے گناہی کے اسیر ہیں ، وہ اسلام پاکستان اور اہل کشمیر کے ساتھ محبت کی سزا کاٹ رہے ہیں ، ایک طرف مقبوضہ جموں کشمیر میں سید علی گیلانی، سید شبیر شاہ،یاسین ملک،میرواعظ عمر فاروق، مسرت عالم بٹ، آسیہ اندرابی اور دیگر ہزاروں کشمیری پاکستان کے ساتھ محبت کے جرم میں پابند سلاسل ہیں تو دوسری طرف پاکستان میں کشمیریوں کی مدد وحمایت کی آواز بلند کرنے والے پابند سلاسل ہیں۔

بھارتی حکمران کشمیری رہنماؤں کو گرفتار کرکے پاکستان کے ساتھ نفرت کا اظہار کررہے ہیں۔ ہم اپنے حکمرانوں سے پوچھتے ہیں کہ وہ محسنان کشمیر حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں کو نظر بند کرکے کس کو خوش کررہے ہیں۔۔۔ ؟ اگر ہمارے حکمران خود کو پاکستانی سمجھتے ہیں، پاکستان کے ساتھ محبت کے دعویٰ میں مخلص وخیرخواہ ہیں تو انہیں چاہیے کہ فی الفور حافظ محمد سعید اور ان کے ساتھیوں کو رہا کرے تاکہ اہل کشمیر کا پاکستان کے ساتھ اعتماد کا رشتہ مضبوط و مستحکم ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Prof Hafiz Muhammad Saeed Ki Nazar Bandi K 6 Maah is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 August 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.