پولیس اور ایف سی تحزیب کاروں کی زد میں

بلوچستان میں دہشت گردی کی نئی لہر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خودکش حملے میں ڈی آئی جی شہید شہر کی فضاء سوگوار

پیر 20 نومبر 2017

Police Or FC Tahzeeeb Karoo Ki Zad me
عدن جی:
بلوچستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اعلیٰ پولیس آفیسر سمیت تین قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کردیا اور یہ سچ ہے کہ دہشت گردی کی اس خوفناک اور ختم نہ ہونے والی جنگ میں بلوچستان نے سب سے بھاری قیمت ادا کی ہے۔ پولیس اور ایف سی تو تحزیب کاروں کے نشانے پر ہیں۔ ڈی آئی جی حامد شکیل اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے لئے اپنے گن مین اور گارڈ کے ہمراہ چمن ہاؤسنگ سکیم سے روانہ ہوئے تو تھوڑی دور موڑ پر کھڑے خودکش حملہ آور نے گاڑی کے قریب خود کو اُڑا دیا جس سے ان کی گاڑی سمیت تین گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور رکشے کو شدید نقصان پہنچا۔

قریبی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ لوگ پریشان ہوگئے۔ خودکش حملہ آور نے دس سے پندرہ کلو مواد استعمال کیا تھا اور اس کے جسم کے ٹکڑے دور ودر عمارتوں میں بکھر گئے بعض اطلاعات کے مطابق حملہ آور پیدل تھا اور ایک رپورٹ کے مطابق وہ موٹر سائیکل پر تھا۔

(جاری ہے)

تاہم اس سانحہ میں ڈی جی آئی جی حامد شکیل کے ہمراہ کے سکیورٹی گارڈ اور گن مین سمیت موقع پر شہید ہوگئے اور راہگیروں سمیت 8 افراد زخمی ہوگئے جنہیں فوری طور پر ملٹری ہسپتال پہنچادیا گیا۔

ایف سی اور پولیس حکام نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا بعد میں پولیس آفیسر کی نماز جنازہ پولیس لائن میں ادا کی گئی جس میں گورنر بلوچستان سمیت اعلیٰ سول اور فوجی حکام نے شرکت کی۔ وزیر اعلیٰ زہری کابیان آیا کہ انہوں نے اس واقعہ کی مذمت کی اور واقعہ کی رپورٹ طلب کرلی بعد میں صدر پاکستان ، وزیراعظم سمیت تمام سیاسی لیڈروں نے ڈی آئی جی حامد شکیل پر ہونے والے حملے پر دکھ کا اظہار کیا اوران کے لئے مغفرت کی دعا کی۔

چھ ماہ قبل پرموشن کے بعد ڈی جی تعینات ہونے والے حامد شکیل کے والد فوج میں تھے اور وہ چار ماہ میں دہشت گردوں کا نشانہ بننے والے تیسرے آفیسر ہیں اس سے پہلے ایس پی چمن ساجد مہمند، ایس پی قائد آباد کوئٹہ سعادت شاہ بھی فائرنگ اور خودکش حملوں میں شہید ہوئے تھے اس خودکش حملے کے بعدپولیس کے آپریشن کے دوران تین دہشت گرد مارے گئے جن سے بھاری اسلحہ بھی برآمد ہوا۔

ایک اور واقعہ میں ایک موٹر سائیکل اور بھاری تعدادمیں اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہوا اور ہمیشہ کی طرح واردات کے بعد ہمارے ادارے خاصے متحرک ہو جاتے ہیں۔ ڈیرہ بگٹی پولیس اسٹیشن کانام تبدیل کرکے”حامد شکیل“ رکھنے کا اعلامیہ جاری کردیا گیا۔ بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کا زیادہ تر نشانہ پولیس اور ایف سی کیوں ہے؟ دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ کوئٹہ میں ہر طرف ایف سی کے ناکے اور چیکنگ اتنے زیادہ انتظامات کے باوجود دہشت گرد شہر میں کیسے داخل ہوجاتے ہیں؟ اور یہ بات ہمیشہ کی جاتی ہے کہ یہ بات صحیح ہے کہ اس تحزیب کاری کے تانے بانے بھارت سے جڑتے ہیں مگر اس حقیقت کو بھی یادرکھنا اہم ہے کہ بھارت خود یہاں آکر یہ دہشت گردی نہیں کرتا یقینا بلوچستان میں اس کا نیٹ ورک موجود ہے جس میں سہولت کاری کے لئے مقامی افراد معاون ہیں، وہ کون ہیں؟ پاکستان کی 21 کروڑ کی آبادی میں بلوچستان کی آبادی 1کروڑ 23لاکھ 44 ہزار 408 ہے اور اس کا رقبہ پاکستان کے دیگرصوبوں کا 43 فیصد ہے مگر ہر دور میں ملنے والے وفاقی فنڈز کس طرح کرپشن کی نذر ہوتے ہیں اس کا اندازہ صرف صوبائی دارالحکومت کی حالت دیکھ کر کیا جاسکتا ہے۔

ٹوٹی سڑکیں، اُبلتے گٹر،گندگی کے ڈھیر اور بجلی کی ترسیل کا یہ حال ہے کہ روزانہ آٹھ گھنٹہ شہر میں بجلی نہیںآ تی لوگ پریشانی اور اذیت میں پتھر کے زمانے کی زندگی گزاررہے ہیں اور پانی کا بحران کوئٹہ میں اتنا شدید ہے کہ ہر گھر میں روزانہ ٹینکر پندرہ سو روپے میں بھرتے ہیں مگر ملکوں میں پانی کا نام نشان نہیں ملتا اور جب شہر میں بنیادی سہولیات تک نہ ہوں تو حکومتوں کا کیا جواز ہے البتہ کرپشن کا بازار خوب گرم ہے۔

مشتاق رئیسانی کے گھر سے قومی خزانے کے74 کروڑ برآمد ہوئے ، ڈاکٹر مالک سابق وزیراعلیٰ کے دور کے یہ سیکرٹری خزانہ اربوں کی جائیداد کے بھی مالک ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ رئیسانی کے پرسنل سیکرٹری کے گھر سے سونے کے صندوق برآمد ہوئے تھے ، مگر سارے کیسز خاموش طریقے سے دبادیئے گئے ۔ اب چیئرمین نیب نے عزم ظاہر کیا ہے کہ دبی ہوئی فائلیں زندہ ہوں گی تو امید ہے کہ بلوچستان کی تمام کرپشن فائلیں منظر عام پر آئیں گی اور ملزموں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Police Or FC Tahzeeeb Karoo Ki Zad me is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 November 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.