پھپھے کٹنی کون ہیں؟ چودھری نثارکو بتانا چاہیے تھا

نواز شریف کے ہٹنے سے ملک کی ترقی رک جانے کا دعویٰ درست نہیں․․․․․․․․․․امریکہ کو دوٹوک جواب نے دینے پر عوام سیاسی قیادت سے مایوس ہیں

منگل 26 دسمبر 2017

Phaphy Kuttni Kon hy Chudry nisar Ko Btana Chahiye
امیر محمد خان:
صاحبو! سابق صدر آصف علی زرداری کی سیاسی بصیرت کی تعریف اکثر لوگ کرتے ہیں، اسی سیاسی بصیرت کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ 2013ء میں پی پی پی کی شکست اور بعد میں گزشتہ چار برس میں ضمنی انتخابات میں نہ صرف شکست بلکہ عبرتناک شکست کے بعد جہاں پی پی پی کو چوتھے نمبر پر ووٹ ملے، وہ کینڈین نژاد علامہ طاہر القادری کے ساتھ ہاتھ ملا بیٹھے ۔

میں نے اپنے گزشتہ کالم میں تحریر کیا تھا کہ خادم رضوی اپنی گالیوں کی لغت کے خاتمے میں اپنا دھرناختم کرچکے ہیں جو پہلی قسط تھی دوسری قسط حضرت مولانا طاہر القادری کی شکل میں دوسرے روز آرہی ہے۔ مولانا اپنے پہلے دھرنے کے بعد کئی مرتبہ پاکستان کو جمہوریت کی راہ پر لانے ، انتخابی اصلاحات نافذ کرنے پاکستان آتے ہیں اور اپنے مریدوں کو حیران کر کے اچانک کینیڈا روآنہ ہوجاتے ہیں وہاں ان کا کوئی تبلیغی کام ہوتا ہوگا جس کے لئے انہیں اچانک جانا پڑتا ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان کے عوام کے ذہنوں کو سیاسی شعبدہ بازوں نے اتنا کمزور کردیا ہے کہ بچارے عوام نے صرف طاہر القادری بلکہ کسی سے بھی نہیں پوچھتے کے کل کیا کہہ رہے تھے اور آج کیا؟ ، یہاں تک کہ بھٹو خاندان کی قربانیوں (ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر اور مرتضی بھٹو)سے لبریز پی پی پی کے جیالے خاص طور پر پی پی پی کے uncles جو مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کام کرنے والے آج انکے نواسے کے ہمراہ ”اسی تنخواہ“ پر کام کرہے ہیں وہ بھی نہیں پوچھتے کہ سابق صدر میر مرتضی بھٹو کے یتیم بچوں اس کی بیوہ سے بھی ملاقات کرلو۔

یہ مذہبی مسئلہ ہے اس کا مشورہ مولانا طاہر القادری کی طرف سے زرداریی کو دینا چاہیے تھا نہ ہی کائرہ جیسے جیالے یہ کہتے ہیں ” مجھے کم از کم ملاقات کیلئے نہ لے جائیں ، میں توبہ حیثیت سابق وزیر اطلاعات طاہر القادری کی نقل اتار کر میڈیا کے سامنے ایک کامیڈی شو کرچکا ہوں۔ میں کس منہ سے وہاں جاؤں مگر طاہر القادری صاحب کو بھی اعتراض نہ ہوا کہ سیاست دان یہ کہتے ہیں۔

کہ ”بدنام بھی ہوں گے تو کیا ہوا نام تو ہوگا“ تمام تر کوششیں فی الحال یہ ہیں کہ مارچ نہ آئے، اس سے قبل ہی حکومتی بساط لپٹ جائے کہ مسلم لیگ اسمبلی کی قوت کے نتیجے میں سینٹ میں بھی آئندہ سالوں کیلئے نہ آجائے مگر یہ کس نے کہا ہے کہ آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ کے زعماء یہ چاہیں کہ ایسا نہ ہوتو اپنی صفیں درست کرلیں، موجودہ صورتحال ایسی نہیں کہ جماعت منظّم نظر آئے، چوہدری نثار پریس کانفرنس کیوں کرتے ہیں اور ایک نیا شوشہ ”پھاپا کٹنی“ کو چھوڑ جاتے ہیں جس سے اندرونی اختلا ف کی بو آتی ہے، اگر کوئی پھاپا کوٹنی ہے تو اس روکنا بھی صاحب کی ذمہ داری ہے۔

میاں نواز شریف کا یہ کہنا ہے کہ جب سے انہیں حکومت سے ہٹایا گیا ملک میں ترقی رک گئی ہے جبکہ انہیں کی حکومت کے وزیراعظم، وزیر اطلاعات اور باقی وزراء نام تو لیتے ہیں میاں صاحب کا مگر یہ بھی کہتے ہیں پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے ، جبکہ دونوں بیانات میں میاں نواز شریف کا بیان زیادہ صحیح نظر آتا ہے ، اب اس میں میاں نواز شریف کی علیحدگی سو صورتحال پیدا ہوئی ہے یا مسلسل سلسلہ تھا، آئی ایم ایف نے پاکستان روپے کی قدر کم کرنے کا مشور دیا ہے، جو ہم نے ما ن لیا ہے ، جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا، بین الاقوامی طور پر خارجہ پالیسی کا کوئی حال نہیں، یہ صحیح کہ دوست ممالک کے درمیان اختلاف سے پاکستان ایک بھنور میں پھنسا ہے کہ کدھر جائے ، ایسی صورتحال میں ملک کی مضبوطی و ترقی کیلئے کام کرنا ہی تو کامیاب سفارت کاری ہے،جبکہ وزیر اعظم سمیت کئی وزراء خاص طور ہر وزیر خارجہ امریکہ کے حضور پیش ہوچکے ہیں، پہلے بیان آتا ہے کہ کامیاب بات چیت ہوئی ، اور چند ہی دنوں میں امریکہ مطالبے بڑھا لیتا اسے یقین ہی نہیں آرہا کہ پاکستان نے دہشت گردوں سے مقابلے اور ان کا قلع قمع کرنے میں بے شمار قربانیاں دی ہیں جس میں صرف بہادر افواج ہی نہیں ننھے بچوں سے لیکر بڑے بزرگ بھی شامل ہیں، واضح ثبوت ہوتے ہیں کہ بیرونی ہاتھ ہے بھارت کا ، افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں سے بنائے گئے پروگرام کا، مگر امریکہ الزام دیتا ہے پاکستان کو، DO MORE کی باتیں کرتا ہے ، خود ہی آپریشن کرکے دہشت گردوں کے ٹھکانے پر حملہ کرنے کی بات کرتا ہے جو کوئی خود دار ملک پسند نہیں کرسکتا، امریکہ کو دوٹوک جواب سیاسی قیادت نہیں دیتی فضایہ کے چیف کو ہی کہنا پڑتا ہے جو ”آیا وہ واپس نہ جائے گا“ عوام سیاسی قیادت سے جتنی مایوس ہوتی ہے۔

افواج کے بیانات پرحوصلہ ملتا ہے، مگر کیا ہی اچھا ہو سب کی پالیسی میں ہم آہنگی ہو، سب اپنی اپنی ذمہ داری وطن کی ترقی اور خوشحالی ، سرحدوں کی مضبوطی کیلئے کام کریں، مگر کرپٹ سیاست دانوں ، دھرنا بازوں نے اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا رکھی ہے، یہ آصف علی زرداری کے ”اینٹ سے اینٹ “ بجانے کے نعرے سے مختلف بات ہے۔ دراصل کرپشن بھی دہشت گردی ہے بم سے حملہ ہیں نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Phaphy Kuttni Kon hy Chudry nisar Ko Btana Chahiye is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 December 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.