پھانسی گھاٹ سے واپسی

یہ کوئی ایک ہزار سال پرانا واقعہ ہے ۔ ملک عرب کی ایک ریاست کا بادشاہ نعمان بن منذر شکار کے لئے نکلا۔ شکار کا پیچھا کرتے کرتے وہ صحرا میں اپنے ساتھیوں سے بچھڑکردور نکل گیا۔ پناہ کے لئے مارا مارا پھر رہاتھا کہ اُس کی ملاقات ہاشم نامی ایک شخص سے ہوئی ۔

جمعرات 8 دسمبر 2016

Phansi Ghat Se Wapsi
شیخ معظم الٰہی:
یہ کوئی ایک ہزار سال پرانا واقعہ ہے ۔ ملک عرب کی ایک ریاست کا بادشاہ نعمان بن منذر شکار کے لئے نکلا۔ شکار کا پیچھا کرتے کرتے وہ صحرا میں اپنے ساتھیوں سے بچھڑکردور نکل گیا۔ پناہ کے لئے مارا مارا پھر رہاتھا کہ اُس کی ملاقات ہاشم نامی ایک شخص سے ہوئی ۔ ہاشم کے ساتھ اس کی بیوی اور بچے بھی تھے اور وہ ایک کچے مکان میں تنگ درستی کے ساتھ زندگی بسر کررہے تھے ۔

بادشاہ نعمان کی بھوک کی شدت سے بری حالت تھی۔ اس نے ہاشم سے کھانے کے لئے کوئی چیز مانگی ۔ ہاشم کے پاس ایک ہی بکری تھی۔ اس نے بکری کادودھ نکال کر بادشاہ نعمان کو پلایا اور پھر بکری کو ذبح کرکے اس کا گوشت پکا کر بادشاہ کو پیش کیا۔ بادشاہ نے رات ہاشم کے گھر میں بسر کی ۔

(جاری ہے)

صبح ہوئی توبادشاہ نے اپنا لبازیب تن کیااور چلتے ہوئے ہاشم سے کہنے لگا کہ میں بادشاہ نعمان ہوں۔

تم نے جومیری مہمان نوازی کی ہے اس کے بدلے میں تم جوچاہو مانگو میں دوں گا۔ ہاشم نے کہا کہ پھر کبھی سہی ۔
بادشاہ نعمان اپنے میزبان سے اجازت لے کر اپنی ریاست کی طرف روانہ ہوگیا۔ کچھ عرصہ بعد حالات نے پلٹا کھایا۔ ہاشم اور اسکے گھروالے سخت تنگ دستی اور پریشانی کاشکار ہوگئے اور نوبت فقرہ فاقہ تک پہنچ گئی۔ تب ایک دن اس کی بیوی نے اسے یاد دلاتے ہوئے کہا کہ کیا ہی اچھا ہواگرتم بادشاہ نعمان کے پاس چلے جاؤ۔

اُمید ہے کہ اس مشکل وقت میں وہ تمہارے کام ضرور آئے گا۔ یہ سن کا ہاشم بادشاہ کی ریاست کی طرف روانہ ہوگیا۔ بادشاہ نعمان کی ایک عادت تھی کہ اسے جس دن سخت غصہ آتا تو وہ اپنے لشکر کے ہمراہ دورکسی مقام کی طرف نکل جاتا اور اس دن جو پہلا آدمی نظر آتااسے قتل کروادیتا۔ بدقسمتی سے ہاشم جس دس بادشاہ کی ریاست پر پہنچاتوبادشاہ کے غصے کادن تھا۔

ہاشم بادشاہ کے قریب آیاتو بادشاہ نے اسے پہنچان لیا۔ اس نے ہاشم سے پوچھا کہ تم وہی ہوجس کے گھر میں میں ایک دن ٹھہرا تھا؟ ہاشم نے جواب دیاکہ جی حضور۔ بادشاہ نے کہا کہ تمہیں آج ہی ضرور آنا تھا کسی اور دن آجاتے ۔ہاشم نے کہا کہ حضور ! مجھے اس دن کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ کہ آج آپ غصے میں ہوں گے ۔ بادشاہ نے کہا کہ ہاشم ! آج کے دن اگر میرا بیٹابھی آجاتا تواسے بھی ضرور قتل کروادیتا۔

اس لئے قتل تو تمہیں لازمی کروانا ہے۔ البتہ تم جس ضرورت کے لئے آئے ہووہ بتاؤ۔ ہم تمہاری حاجت ضرورپوری کریں گے۔ ہاشم نے کہا کہ جب میں ہی نہیں رہوں گا تو دنیا میرے کس کام کی۔
بادشاہ نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں تمہارے قتل کا فیصلہ ہوچکا ہے ۔ ہاشم نے کہا کہ حضور ! اگرایسی بات ہے تو مجھے اتنی مہلت دیجئے کہ میں اپنے اہل عیال سے مل لوں۔ ان کے مالی حالات کچھ بہتر ہوجائیں تو میں خود آپکے پاس لوٹ آؤں گا۔

بادشاہ نے کہا کہ اس کے لئے ایک ضامن ضروری ہے جواس بات کی ضمانت دے کہ تم واپس آؤ گے تاکہ تمہیں قتل کردیاجائے ۔ ہاشم ایک اجنبی کی حیثیت سے تھا۔ نہ جان نہ پہنچان ۔ نہ کوئی رشتہ دار اور نہ کوئی واقف کار۔ اس نے اردگرد دیکھا حالات کاجائزہ لیا۔ اس کی نظر بادشاہ کے ساتھ کھڑے ایک شخص پرپڑی ۔ جس کانام شریک بن عمرو تھا۔ ہاشم نے اس سے کہا کہ اے بھائی ! میرے ضامن بن جائیں۔

شریک بن عمرو نے ضامن بننے سے انکار کردیا۔ وہاں ایک اور شخص بھی موجود تھا اس کی شکل وصورت بھی کوئی بہت بھلی نہ تھی ۔ اس کانام قرادتھاوہ آگے بڑھا اور کہنے لگا کہ اے بادشاہ ! میں اس کا ضامن بنتا ہوں۔ یہ سن کربادشاہ نعمان نے ہاشم کو مہمان داری کے صلے میں پانچ سو اونٹ دئیے اور کچھ اناج ساتھ دیا۔ ایک سال کی مدت مقرر کی کہ ٹھیک ایک سال کے بعد اسی جگہ ملیں گے ۔


جب ایک سال گزرگا اور مقررہ مدت میں صرف ایک دن باقی رہ گیا توبادشاہ نعمان نے قراد کوبلایا اور اس سے کہا کہ تمہاری موت کا آج دن ہے۔ یہ سن کر قراد نے کہا کہ بادشاہ حضور! بھی مدت مقررہ میں پورا ایک دن باقی ہے ۔ مجھے قوی امید ہے کہ ہاشم ضرور واپس آئے گا۔
آخری دن کی صبح طلوع ہوئی توبادشاہ اپنے مسلح لشکر کے ہمراہ مقررہ جگہ کی طرف روانہ ہوا۔

وہاں پہنچ کر اس نے قراد کے قتل کافرمان جاری کردیا۔ قراد کوقتل کرنے کے لئے جونہی جلادنے تلوارسونتی تووزراء نے کہا کہ بادشاہ سلامت دن پوراہونے سے پہلے اسے قبل نہ کریں۔ بادشاہ چاہتاتھا کہ قراد کوقتل کردیا جائے تاکہ اس کامیزبان ہاشم بچ جائے لیکن وزراء کے مشورے کی بنا پر شام تک اپنا ارادہ ملتوی کردیا۔
دھیرے دھیرے سورج غروب ہورہاتھا۔

اب بادشاہ نے حکم دیا کہ قرادکوقتل کردیاجائے ۔ اسی دوران دوس سے گھوڑے پر سوار ایک شخص تیزی سے آتادکھائی دیا۔ وزراء نے کہا کہ اس شخص کے آنے تک ٹھہر جانا چاہئے کہ یہ کون شخص ہے ؟ جب وہ شخص قریب آیاتودکھ کرحیران رہ گئے کہ وہ ہاشم ہی تھا۔
بادشاہ نعمان نے جب اسے دیکھا تو اُسے اس کا آناسخت ناگوارگزرا اور ہاشم سے پوچھا کہ تم قتل سے بچ گئے تھے توپھر دوربارہ واپس کیوں آگئے ؟ ہاشم نے جواب دیاکہ حضور ! وعدے کی پابندی اور قراد کی ہمدردی مجھے قتل گاہ تک لے آئی ۔


بادشاہ نعمان ہاشم کے اس جواب سے بہت متاثر ہوا۔ ا س نے نہ صرف ہاشم کی جان بخش دی بلکہ اس دن کے بعد اس نے طے کرلیا کہ وہ آئندہ کس معصوم جان کواپنے غصے کی نظر نہیں کرے گا اور ناحق کسی کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین نہیں کرے گا ۔ اس نے ہاشم اور قراد کو بہت سے تحفے تحائف دیکر رخصت کر دیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Phansi Ghat Se Wapsi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 December 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.