سانحہ پشاور آرمی پبلک سکول

16دسمبر کی تاریخ سامنے وہ درجنوں چہرے گھوم جاتے ہیں جنہیں دیکھنے کو چھونے کو گلے سے لگانے کو آج نجانے کتنی مائیں بہنیں، باپ اور بھائی ترستے ہیں۔ کل تک یہ پھول چہرے ہماری دسترس میں تھے آج منوں مٹی کی چادر اوڑھ کر ہم سے کوسوں دور جاچکے ہیں۔ اتنی دور کہ جہاں ہم چاہتے ہوئے بھی ان کے پاس نہیں پہنچ پاتے۔ زندگی کی دیوار اور موت کی فصیل پھانداممکن نہیں ۔ یہ چوٹی سرنہیں کی جاسکتی ہے اور موت کی فصیل کاپھانک کھلتا ہے ۔

جمعہ 16 دسمبر 2016

Peshawar Saniha Army Public School
جی این بھٹ :
16دسمبر کی تاریخ سامنے وہ درجنوں چہرے گھوم جاتے ہیں جنہیں دیکھنے کو چھونے کو گلے سے لگانے کو آج نجانے کتنی مائیں بہنیں، باپ اور بھائی ترستے ہیں۔ کل تک یہ پھول چہرے ہماری دسترس میں تھے آج منوں مٹی کی چادر اوڑھ کر ہم سے کوسوں دور جاچکے ہیں۔ اتنی دور کہ جہاں ہم چاہتے ہوئے بھی ان کے پاس نہیں پہنچ پاتے۔

زندگی کی دیوار اور موت کی فصیل پھانداممکن نہیں ۔ یہ چوٹی سرنہیں کی جاسکتی ہے اور موت کی فصیل کاپھانک کھلتا ہے ۔
پشاور جیسے پھولوں کا شہر کہاجاتا ہے ۔ یہاں کا قصہ خوانی بازار صدیوں سے طرح طرح کے قصہ گویوں کیلئے دل پسند جگہ تھی ۔ جہاں کے سرائے اور قیام گاہوں میں مختلف ملکوں اور شہروں کے قصہ گوآکر یہاں قیام کرنے والے تاجروں اور مسافروں کے ساتھ رات کو قصہ گوئی کی محفلیں سجاتے تھے ۔

(جاری ہے)

اس شہر میں 16دسمبر2016ء کو دور پار سے آنے والے سدھائے گئے ظالم درندوں نے ایک ایسا ہولناک قصہ رقم کیا جس کییاد کبھی فراموش نہیں ہوسکتی ۔ یہ قصہ رقم کیا جس کی یاد کبھی فراموش نہیں ہوسکتی ۔ یہ قصہ بھی صدیوں تک داستان گوؤں کی داستانوں میں اوبیوں کے افسانوں میں کہانیوں میں شاعروں کی نظموں میں غزلوں میں واقعہ کربلااور سقوط غرناطہ کی طرح زندہ رہ گااسے سنانے والے اور سننے والے سب خون کے آنسو روئیں گے ۔

یہاں جوان کڑیل مجاہد محافظوں سے کہیں زیادہ معصوم بچے اور باہمت خواتین نے اپنے لہو سے محبت ، انسانیت، وفا اور ہمت کی ایسی داستانیں رقم کی ہیں کہ ان کو لکھتے ہوئے سناتے ہوئے شدت غم سے کلیجہ شق ہوتا ہے ۔ کم سن نوخیزبچے ، بچیاں اور نوعمر طالب علم پشاور کے آرمی سکول میں پڑھنے لکھنے ، اپنااور اپنی قوم کامستقبل سنوارننے آئے تھے ۔ حسب معمول صبح سویرے ان کی ماؤں نے ان کے ماتھوں پر بوسہ دیتے ہوئے انہیں اٹھایا ہوگا۔

بڑی محبت سے ان کے دھلے دھلائے یونیفارم استری کرکے انہیں نہلادھلاکرپہنایا ہوگا۔ چمکتے پالش شدہ بوٹ پہناکر اپنے ہاتھوں سے بنا ناشتہ کھلایاہوگا۔صری یہی نہیں لنچ بکس بناکر تاکید بھی کی ہوگی ۔ کیونکہ ہماری قوم کو کمزور نہیں صحت مند جوانوں کی ضرورت ہے ۔ پھر یہی پھول مسکراتے ہویے اپنی ماؤں کے گلے میں باہیں ڈا ل کر ان کے گالوں کابوسہ لیتے ہوئے اپنے ابوکر مسکراتے ہوئے خدا حافظ کہہ کرسکول جانے کیلئے جب نکلیں ہوں گے تو دروازے تک ان کی ماؤں کی نظروں نے ان کاپیچھا کیا ہوگا۔

باپ نے مسکراتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ انہیں کیاخبر تھی کہ آج ہنستے مسکراتے سکول جانے والے یہ پھولوں کی آخری مسکان ہے جو وہ دیکھ رہے ہیں۔ جن بچوں کو وہ پھولوں میں تولنے تھے پھولوں کی طرح رکھتے تھے ۔
تھوڑی ہی دیر بعد بدذات ظالم دہشت گردانہیں خاک وخون میں نہلادیں گے ۔ ان کا سکول مادرعلمی ان کی قتل گاہ اور ان کے کلاس روم ان کے مقتل بن جائے گے۔

یہ بچے اس عمر سے تجربے سے جذبہ شہادت سے قبل ہی شہادت کا وہ رتبہ پالیس گے جس کی لوگ خواہش کیاکرتے ہیں ․․․․ ہرمدعی کے واسطے دار ورسن کیا یہ رتبہ بلند ملاجس کو مل گیا اس وقت ان بچوں پر کیا بیتی ہوگی جب ظالم خونخوار بھیڑیئے بھوکے کتوں کی طرح چیختے چنگاڑتے ان پر حملہ آور ہوئے ہونگے ۔ بموں سے انہوں نے سکول کی کلاسوں اور امتحانی ہال کو جلا کر بھسم کردیا کلاسوں میں اپنی ٹیچروں کی اوٹ میں دبکے سہمے بچوں کو ان جلادوں نے کھینچ کھینچ کر ان کے دوستوں بھائیوں اور بہنوں کے سامنے گولیوں سے بھونا ہوگا۔

سلام ہے ان باوقار خواتین استاتذہ پر جنہیں زندہ جلایاگیا مگر انہوں نے سکول کے بچوں کو بچ کر نکلنے میں مدد دی یہ بدذات ظالم درندے بہت جلد ہماری بہادر سپاہ کے ہاتھوں جہنم کے کتے بن گے ۔ مگر ان کے ہاتھوں اپنے ہی لہو میں نہا کر صحن جنت کی کیاریوں میں پھول کی طرح سجنے والے بچے اپنی ماؤں اور باپوں کو ایک طویل ہجر کاانتظار کا موسم دے گے ․․․․․جاتے ہوئے کہتے ہوقیامت کو ملیں گے گویا کہ قیامت کاہے کوئی دن اور جیسے ہی حملے کی اطلاع ملی سکول کے بچوں کے والدین دیوانہ وار سکول کے باہر جمع ہوگئے وہ نہتے ہاتھوں سے سکول میں گھس ان درندوں کے ٹکڑے کرناچاہتے تھے جنہوں نے ان کے کلیجوں پرہاتھ ڈالا تھا۔

مگر پاک آرمی نے نہایت تحمل سے انہیں روکا۔ جب آپریشن ختم ہوا توآرمی پبلک سکول اپنے ہی طلبہ کے لہو میں ڈوبا اپنے ہم وطن پاکستانیوں سے سوال کررہا تھا کہ یہ اس کون کابدلہ تم سب پر فرض ہے ۔ لہولہان شیدوں کے پھول جیسے نازک بدن گولیوں سے چھلنی وجود دیکھ کرماں باپ پرکیا گزری ہوگی جن کی آہیں عرش عظیم کوہلارہی تھیں۔ زخمیوں کی حالت دیکھ کر ان کے گھروالوں کے دل پھٹ رہے تھے ۔

مگر یہ قیامت بھی گزرگئی ۔ گھروالے اپنے اپنے جنت کے پھولوں کو جنت کی کیاریوں میں سجانے کیلئے گھروں سے قبرستان کس طرح لے گئے اس پر کچھ لکھا نہیں جاسکتا سوائے اس کے کہ ان پھول جیسے چہروں کے جنازے دیکھ کرصری یہی خیال آتاتھا جیسے وہ بچے کہہ رہے ہیں ․․․․․ ہمیں ماتھے پربوسہ دوکہ ہم نے تتلیوں کے جگنوؤں کے دیس جانا ہے آج 16دسمبر کادن آتے ہی دل ودماغ میں ایک بار پھر اذیت ناک یادوں میں لئے وہی لمحات یادآتے ہین جب بحیثیت قوم ہم سب داد واخوت کی ایک ہی لڑی میں پرو گئے اور ان معصوم شہداء کے لہو نے ہمین دوبارہ ایک قوم بنایدا کرے کے ان شہدا کالہو ہمیں اس طرح ایک قوم بنا کروحشی درندوں کیخلاف صف آراررکھے اور ہمارے بچوں کو بندوق نہیں قلم وکتاب کی محبت میں مبتلارکھے اور ہم کتاب اور قلم سے بندوق وبارود کامقابلہ جیت کردکھائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Peshawar Saniha Army Public School is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 December 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.