پشاور میں بسوں کے اندر خواتین کو ہراساں کرنا معمول

پبلک ٹرانسپورٹ عذاب بن گئی قانون کے باوجود ذمہ داروں کیخلاف کاروائی نہیں ہوتی

بدھ 4 جنوری 2017

Peshawar Main Bason K Andar Khawateen Ko Harasan Karna Mamool
سلمان احمد :
موسم سرما کی کڑا کے دارسردی ہویاموسم گرما کی چلچلاتی دھوپ صبح ہویا شام پشاور شہر کے بس سٹاپس پر ہر وقت خواتین پبلک ٹرانسپورٹ کے انتظار میں کھڑی دیکھی جاسکتی ہیں۔ ان خواتین میں چہرے پر نقاب اوڑھے خود کو حرس اور حوس کے بچاریوں سے بچانے کی کوشش میں مصروف رہنے والی خواتین بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اور دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے سر پرکواونچا کئے ہوئے بہادر خواتین بھی کھڑی نظر آتی ہے۔

ان خواتین میں صبح اور دوپہر کے وقت زیادہ تعداد یونیورسٹی اور کالجز کی طالبات کی ہوتی ہے جو حصول علم کے ذریعہ معاشرہ کو نورسے منور کرنے اور پڑھ لکھ کر معاشرہ کو نور سے منور کرنے اور پڑھ لکھ کر معاشرے میں مقام حاصل کرنے کیلئے گھروں سے نکلتی ہیں۔

(جاری ہے)

انہی طالبات میں ضلع مردان سے تعلق رکھنے والی صائمہ بھی ہے جس کے اصل نام کو صیغہ راز رکھا جارہا ہے ۔

ضلع مردان کی رہائشی صائمہ نے پشاور یونیورسٹی میں پڑھنے کی غرض سے اپناگاؤں اور گھریاچھوڑ کررشتہ داروں کے ہاں پشاور میں سکونت اختیار کررکھی ہے۔ آج کل اس کا معمول ہے کہ صبح سویرے شعبہ بازار پشاور کے بس سٹاپ سے بس میں سوار ہوکر پشاور یونیورسٹی آتی ہے ۔ دوپہر کے وقت یونیورسٹی سے نکل کرانہی بسوں یاویگنوں کے ذریعہ رشتہ داروں کے گھر کیلئے روانہ ہوجاتی ہے تاہم روز کایہ معمول صائمہ کیلئے کسی عذاب سے کم نہیں ہے ۔

جس کاسبب پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین کے ساتھ روارکھا جانے والا رویہ ہے جس کا شکار تقریباََ گھر سے نکلنے والی ہرخاتون ہوتی ہے چاہے وہ طالبعلم علم ہو،ورکنگ وومن یاسوداسلف لینے کیلئے گھر سے نکلنے والی کوئی خاتون ہو۔
صائمہ کاکہنا ہے کہ انہیں مرد مسافروں ، کنڈیکٹروں اور یہاں تک کے طالبعلموں کی جانب سے مختلف طریقوں سے ہراساں کئے جانے کاسامنا ہے اوریہی حالت ان کی دیگر ساتھی طالبات کی بھی ہے ۔

خصوصاََ بس میں کنڈیکٹررش کافائدہ اٹھاتے ہیں اور خواتین کے ساتھ معنی خیزالفاظ میں گفتگو کی کوشش کرتے ہیں جوان کامعمول ہے۔ یہاں تک کے اکثر اوقات حیلے بہانے سے ان کے جسم کوچھو بھی لیتے ہیں اور صرف وہ نہیں بلکہ روزانہ سینکڑوں اور خواتین بھی ان حرکات کی وجہ سے ذہنی کرب میں مبتلا رہتی ہیں۔ عورت فاؤنڈیشن کے نام سے خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والی ایک غیرسرکاری تنظیم کی کارکن شبینہ آیازکاکہنا ہے کہ یہ مسئلہ صرف صائنہ کانہیں بلکہ سینکڑوں خواتین اس مسئلہ سے دوچار ہیں۔

ان کاکہنا ہے کہ اکثر اوقات مرد حضرات خواتین کی سیٹوں پربراجمان ہوجاتے ہیں جس کامقصد کسی نہ کسی طریقہ سے خواتین کے قریب ہوکر اپنے جذبات کی تسکین کرنا ہے ۔ شبینہ آیازکاکہنا ہے کہ خواتین کو ہراساں کرنے کیلئے تعزیرات پاکستان کے دفعہ 509 کی صورت میں قانون بھی موجود ہے تاہم اس پر عملدرآمد نہیں کیاجاتا ۔
شبینہ آیاز کاکہنا ہے کہ قانون کے حوالہ سے خواتین میں آگاہی کی ضرورت ہے اور صرف اسی صورت میں وہ ہراساں کئے جانے سے محفوظ رہ سکتی ہے ۔

پبلک ٹرانسپورٹ میں حراساں ہونے والی خواتین کے کیسز رپورٹ بھی نہیں کئے جاتے ، اس اذیت سے دوچار خواتین پختون معاشرے کی سخت گیرروایات اور کلچر کی وجہ سے بھی زبان پہ حرف شکایت نہیں لاتیں۔ کیونکہ اکثر اوقات اس بارے حقیقت کھلنے سے خواتین کو ملازمت یاتعلیم کے حصول سے محروم ہونا پڑتا ہے ۔
پشاور یونیورسٹی کی ایک دوسری طالبعلم ایمن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اکثر اوقات اس طرح کے حالات سے دو چار ہوتی ہیں۔

دوران سفربس کے اندر کوئی ان سے بدتمیزی کرتا ہے ، کورئی گھورتا ہے توکئی ان پرآوازیں کستا ہے ۔ تاہم جب ٹریفک پولیس سے شکایت کرتی ہیں تو وہ خاموش تماشائی بن کرسب کچھ دیکھتے رہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ کئی مرتبہ شکایت کے باوجود پولیس نے ایسے افراد کے خلاف ایکشن نہیں لیا۔
خواتین پرآوازیں کسنا، اشارے کرنااور ان کی بے توقیری کرنے پر قانون کے مطابق ملزم کوتین سال قید اور 50ہزار روپے تک جرمانہ کیاجاسکتا ہے ۔

پشاور شہر کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ٹریفک پولیس رحیم حسین کا کہناہے کہ ان کے پاس اب تک ایسی پندرہ سے بیس شکایات موصول ہوئی ہیں۔ ان کاکہنا ہے کہ اس حوالہ سے قانون میں مخصوص دفعہ موجود نہیں ہے تاہم وہ دفعہ 45 کے تحت مرتکب افراد کے تحت کاروائی کرتے ہیں۔ انہوں نے اس بات کی تائیدکی کہ اس طرح کے کیسز اگرچہ زیادہ تعداد میں ہیں تاہم یہ رجسٹرڈ نہیں کئے جاتے ۔

پبلک ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن خیبرہ پختونخوا کے ایک عہدیدارخان زمان آفریدی کاکہنا ہے کہ پشاور میں چار بس ٹرمینل ہیں۔ جن اور کارخانو اڈہ شامل ہیں جس میں حاجی کیمپ سب سے بڑا اور معروف ٹرمینل ہے ۔ تاہم یہاں سے خواتین کیلئے ایک بھی علیحدہ بس نہیں چلائی جاتی ، دوسری جانب پشاور کے ضلع ناظم محمد عاصم خان کاخواتین کو پبلک ٹرانسپورٹ میں ہراساں کئے جانے کے حوالے سے کہنا ہے کہ انہوں نے صوبائی حکومت کوپبلک ٹرانسپورٹ کے حوالہ سے ایک خصوصی منصوبہ تیار کرکے دے رکھا ہے ۔

جس پرکام کرنے کے بعد پشاور میں 100 تک بسوں پر مشتمل رپیڈبس سروس عمل میں لائی جائیگی ۔ جس میں خواتین کیلئے علیحدہ بس کاانتظام بھی کیاجائے گااور یہ منصوبہ 2017 تک مکمل ہوگا جس کی وجہ سے خواتین کو اس جیسے واقعات سے بچایاجاسکے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Peshawar Main Bason K Andar Khawateen Ko Harasan Karna Mamool is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 January 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.