پانامہ لیکس سے پانامہ کینال تک

بحراوقیانوس اور بحرالکاہل کی سطح سے 85 فٹ کی بلندی پر کھدی ہوئی 51 میل لمبی نہر پاناما دنیا کا ایک عجوبہ ہے

جمعہ 7 جولائی 2017

Panama Leaks Se Panama Canal Tak
محسن فارانی:
گزشتہ ایک سال سے پوری قوم پانامہ لیکس ،ڈان لیکس اور منی ٹریل کے بخار میں مبتلا ہے۔اللہ کرے اسے جلد شفاء ہو جائے ورنہ ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔بعض حضرات پانامہ لیکس کو”پاناما لے کس“پڑھتے ہیں حالانکہ اس کانام پاناما لیکس یعنی”پاناما لیک ہونے والے راز“ ہے جبکہ لیکس کے معنی جھیلیں ہیں۔

پاناما لیکس کا ذکر ہر محفل اور ہر دو اشخاص کے مابین ہوتا ہے۔ایک خاتون کالم نگار نے اپنے کالم میں ”جزیرہ پاناما“ کا ذکر کیا تو سوچا کیوں نہ پاناما کے جغرافیائی پہلوؤں پر ایک کالم لکھ ڈالا جائے۔گویا عالمی پلس پاکستانی میڈیا کی دریافت سے ہٹ کر بات کی جائے۔
قارئین کرام!ہمیں گاؤں (31 ای بی لالیاں والی نزد عارف والا)میں اتفاق سے دوسری جماعت ہی میں والد صاحب کے اندوختہ سے میٹرک یا ایف اے لیول کی اردو میں جغرافیے کی کتاب مل گئی تھی جس میں افریقہ،جنوبی امریکہ اور آسٹریلیا یعنی تین براعظموں کا جغرافیہ بلیک اینڈ وائٹ اور رنگین نقشوں کے ساتھ تفصیلا بیان کیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

ہم نے وہ کتاب گھول کر پی لی اور نقشے ذہن میں اتار لئے۔ہمیں کبھی نہیں بھولا کہ وہ ڈریکنز برگ جنوبی افریقہ میں ہے اور پٹیے گونیا،چلی (جنوبی امریکہ)کا صحرا ہے،جبکہ تسمانیہ آسٹریلیا کا سب سے بڑا جزیرہ ہے۔اس کتاب میں جنوبی امریکہ کے ملک کولمبیا کے ساتھ ایک دبلے پتلے ملک پاناما کی بھی نشاندہی کی گئی تھی۔مڈل میں پڑھائے جانے والے جغرافیے میں ہمارا وسطی امریکہ کے ملک پاناما سے مزید تعارف ہوا۔

پھر ایوبی دور میں سکولوں میں ”مطالعہ پاکستان“ رائج ہوا تو عالمی جغرافیہ نونہالوں اور بڑوں کی نظروں سے غائب ہوگیا۔یوں جغرافیے جیسا ضروری علم جس میں مسلم جغرافیہ دانوں ابن حوقل،یاقوت حموی اور شریف ادریسی جیسے فضلاء نے گرانقدر اضافے کئے تھے۔قوم اس سے نا آشنا ہوتی چلی گئی۔اس قدرے چویل مگر ضرروی تمہید کے بعد عرض یہ ہے کہ پانامہ ایک خاکنائے یعنی تنگ زمینی پٹی ہے جو دو براعظموں شمالی امریکہ اور جنوبی امریکہ کو باہمی ملاتی ہے،دیکھنے میں پانامہ کی چکل چینی ڈریگون کی سی ہے۔

یہ مشرق میں کولمبیا سے متصل ہے جو شاہ سپین کی طرف سے بھیجے گئے مشہور اطالوی بحری مہم جو کولمبس کے نام سے منسوب ہے اگرچہ جناب کو لمبس اپنے تیسرے سفر 1497 ء میں کولمبیا کے مشرقی ہمسائے وینزویلا کے دریائے اورینوکو کا دہانہ دیکھ کر ہی سپین لوٹ گئے تھے۔پاناما کے مغرب میں اس سے بھی چھوٹا ملک کوسٹاریکا ہے،شمال میں بحیرہ کیریبین اور جنوب میں خلیج پاناما کا تنگ گلا امریکہ یعنی ریاستہائے متحدہ (USA )نامی بلانے دبوچ رکھا ہے جس نے یہاں نہرپاناما کھود رکھی ہے۔


امریکی سامراج کی شان بیان کرنے سے پہلے یہ بتائے دیتے ہیں کہ پانامہ کارقبہ محض 29,761 مربع میل ہے اس کا دالحکومت پاناما سٹی جنوبی ساحل پر نہر پاناما کے دہانے پر ہے۔اس کے وسط میں شرقاََ غربا پہاڑی سلسلے ہیں جن سے نکلنے والے چھوٹے چھوٹے دریا بحیرہ کریبین یا بحرالکاہل میں گرتے ہیں۔خط استوا کے قریب 7تا10 درجے عرض بلد شمالی پر دو سمندروں کے درمیان واقع ہونے کے باعث یہاں بارش بکثرت ہوتی ہے اس لئے پورا ملک سرسبز ہے۔

اس کی کھوپڑی میں ایک جھیل ”بیانو“گھسی ہوئی ہے۔جنوبی ساحل کے ساتھ بیسیوں چھوٹے بڑے جزیرے ہیں۔آبادی چالیس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
سپینش (ہسپانوی)سرکاری زبان ہے۔دیگر زبانیں انگلش کریول اور امرینڈین (امریکی انڈین)ہیں۔انگلش کریول وہ زبان ہے جو برطانیہ کے مقبوضہ جزائر ویسٹ انڈیز(جمیکا،بارباڈوس،ٹرینڈا،گریناڈا)اور بیلائز(سابق برطانوی ہنڈوراس)میں بولی جاتی ہیں۔

پانامہ کی 93 فیصد آبادی عیسائی رومن کیتھولک ہے۔آبادی میں 14 فیصدگورے ہیں ، 12 فیصد افریقی نژاد سیاہ فام، 60 فیصد مخلوط اور 8 فیصد امیرنڈین ہیں۔شرح خواندگی 91 فیصد اور سکہ بالیوا ہے۔کیلا،چاول ،مکئی،کافی،گنا، بڑی فصلیں ہیں۔قدرتی وسائل میں تانبا مہا گنی کے جنگلات،مچھلی(شرمپ)اور برقاب (آبی بجلی)شامل ہیں۔صنعتوں میں شکر سازی ،اورسمینٹ قابل ذکر ہیں۔

بالیوا،کولون (کولمبس کے ہسپانوی نام سے منسوب)اور کرسٹوبل بڑی بندرگاہیں ہیں۔اطالوی کرسٹوفر کولمبس کا ہسپانوی نام کرسٹابل گولون ہے۔نہر پاناما اس ملک کا ایک بڑا ذریعہ آمدنی ہے۔
پاناما کا شمالی ساحل کولمبس کے ایک ساتھی جہاز ران راڈر بگونے1501ء میں دیکھا تھا اور اگلے سال جناب کولمبس اپنے آخری سفر کے دوران میں یہاں تشریف لائے۔13 ستمبر 1513ء کو ہسپانوی جہاز ران نونیز ڈی بالیو اخاکنائے پاناما پارکرکے جنوبی ساحل پر پہنچا تو سامنے ایک حیرت انگیز بحر ناپیدا کنار دکھائی دیا۔

اس نے اسے SUREI MARDEL یعنی”جنوبی سمندر“کانام دیا ۔یہ دراصل دنیا کے سب سے بڑے سمندر بحرالکاہل کا مشرقی ساحل تھا جس پر ایک یورپی جہاز ران نے پہلی بار قدم رکھے تھے۔یاد رہے اسے کاہل (ست)اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں بحراوقانوس اور بحر ہند کی نسبت کم شدت کے طوفان آتے ہیں ۔
پاناما ”دریافت“ ہوا اور سپین نے اسے اپنی نو آبادی (کالونی)بنا لیا۔

برطانوی بحری ڈاکو فرانسس ڈریک ( 1572-95)اور ہنری مارگن (1668-71ء میں)بھی یہاں آئے کیونکہ پیرو اور بولیو یا وغیرہ سے سونا چاندی بذریعہ سمندر (بحرالکاہل )پاناما کی بندر گاہ پر پہنچتا تھا،پھر خچروں پر لد کر بحیرہ کیریبین کی بندرگاہ کولون سے بحری جہازوں میں سپین روانہ کیا جاتا تھا اور برطانوی ڈاکو بحراوقیانوس میں ہسپانوی جہازوں کو لوٹ لیتے تھے۔

مارگن نے تو پرانے پاناما شہر کو تباہ کر دیا۔1821 میں پاناما کو سپین سے آزادی اس صورت میں ملی کہ یہ وسیع ترکولمبیا کا حصہ بنا رہا ۔آخر کا ر امریکہ نے اپنا سامراجی مقاصد کے لئے پاناما میں بغاوت کروائی اور 3 نومبر 1903 ء کو پاناما کولمبیا سے ”آزادی“ حاصل کرلی۔آزادی دلوانے کے عوض امریکہ نے پانامہ کے گلے میں 10 میل چوڑی پٹی ننانوے سال کے پٹے پر لے لی اور پھر یہاں نہر پانامہ کھود ڈالی۔

یوں 1974ء میں 51 میل لمبی نہر پاناما نے بحرہ کیریبین و بحراوقیانوس کو بحرالکاہل سے ملادیا اور اس طرح امریکہ (USA)کے مشرقی اور مغربی ساحلوں کا درمیانی بحری فاصلہ ہزاروں میل کم ہوگیا جبکہ پہلے امریکی بحری جہاز نیویارک وغیرہ سے براعظم جنوبی امریکہ کے انتہائی جنوب کاچکر کاٹ کر بحرالکاہل میں داخل ہوتے اور لاس اینجلس پہنچتے تھے۔1980ء کی دہائی میں امریکہ نے پاناما کے ”ملٹری لیڈر“ نوریگا پر ڈرگ سمگلنگ کا الزام لگایا اور پھر دسمبر 1989ء میں پاناما پر حملہ کر کے 3 جنوری کونوریگا کو گرفتار کر لیا۔

یہ پچھلی صدی کی ایک بڑی امریکی بدمعاشی تھی۔امریکیوں نے نوریگا کو 2 عشرے جیل میں رکھ کر 2010ء میں فرانس کے حوالے کردیا جہاں اسے منی لانڈرنگ کے الزام میں سات سال قید کی سزا سنادی گئی۔عالمی سامراجی چودھری ایسے ہی کیا کرتے ہیں!نوریگافرانس میں قید کاٹ کر گزشتہ سال واپس آیا اور پھر پچھلے ماہ مئی میں پاناما میں انتقال کر گیا۔
نہر پاناما بھی دنیا کا ایک عجوبہ ہے۔

پہاڑی علاقے کی مشکل کھدائی کے باعث یہ نہر سطح سمندر سے 85 فٹ بلندی پر تعمیر کی گئی ہے۔بحیرہ کریبین سے آنے والے بحری جہاز کولون کی بندرگاہ سے جھیل گیٹون میں داخل ہوتے ہیں۔جھیل سے آگے ایک بڑا کنواں نما حوض ہے جس میں جہاز داخل ہونے پر حوض کا ادھر والا گیٹ بند ہوجاتا ہے۔پھر ہائیڈرالک پاور سے حوض میں پانی بھرنے لگتاہے حتی کہ جہاز 85 فٹ اوپر اٹھ جاتا ہے اس کے بعد حوض کا ادھر والا گیٹ کھلتا ہے اور جہاز بلند نہر میں داخل ہوجاتا ہے ۔دوسری طرف یکے بعد دیگرے دو حوض ہیں جن کے اندر داخل ہونے پر پانی کے اخراج سے جہاز نیچے بحرالکاہل کی سطح کے برابر پہنچ جاتا ہے تو آخری گیٹ کا بیرو نی دروازہ کھلنے پر جہاز بحرالکاہل میں اتر کر اپنی منزل کو چل دیتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Panama Leaks Se Panama Canal Tak is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 July 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.