پاکستان ریلوے پھر ”ٹریک “ پر!

بحرانوں کے شکار محکمے میں زندگی کے آثار نظر آنے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان ریلویز کی نہ نیلامی ہوگی اور نہ نجکاری، خواجہ سعد رفیق کا اعلان

بدھ 25 اکتوبر 2017

pakistan Railway Phr Track par
ابوزین:
کیا آپ نے پہاڑ سے لڑھکتے ہوئے کسی پتھر کو دیکھا ہے ، وہ ڈھلوان پر اپنا سفر تیزی کے ساتھ طے کرتا ہے، نہ صرف خود گرتا ہے بلکہ اپنی لپیٹ میں آنے والوں کو بھی اپنے ساتھ لے لیتا ہے اور کسی پاتال میں جاکے ہمیشہ کے لئے گم ہوجا تا ہے، گرتے اور ناکام ہوتے ہوئے ادارے بھی پہاڑ سے لڑھکنے والے پتھر کی مثال ہوتے ہیں اور اگر یہ ادارے سرکاری ہوں تو نجی اداروں کے مقابلے میں لڑھکنے اور گرنے کی شدت دو ، چار ، دس ہی نہیں سو گنا تیز بھی ہوسکتی ہے، ان اداروں میں عوام کی خون کی کمائی سے وصولے گئے ٹیکسوں کے اربوں روپے جھونک دیئے جاتے ہیں اور اربوں کی یہ رقم پھر کھربوں کی طرف بڑھنے لگتی ہے، ہم ان اداروں کے نام نہیں لیں گے کیونکہ ان سب کو آپ سب جانتے ہیں مگر ایک لمحے کے لئے رکئے گا کہ کہیں آپ اس میں پاکستان ریلویز کا نام تو شامل نہیں کررہے؟ ۔

(جاری ہے)

ہاں ،درست ہے، پاکستان ریلویز کا شمار آج سے چار برس پہلے ایسے اداروں میں ہی ہوتا تھا، چار برس پہلے آمدن اٹھارہ ارب روپے تھی تو خسارہ 33 ارب روپوں تک پہنچ چکا تھا جس میں ہربرس 3 سے 4 ارب کا اضافہ ہورہا تھا اور اس برس 50 ارب سے زیادہ ہوسکتا تھا، ایسے برے حالات میں ایک محنتی، دیانتدار اور کمٹڈ سیاسی کارکن نے اپنے لیڈر سے کہا کہ وہ ریلوے کی بحالی کا چیلنج قبول کرنے کے لئے تیار ہے، یہ کارکن سعد رفیق تھے اور لیڈر نواز شریف۔

اس وقت فارمولے پیش کئے جارہے تھے کہ پاکستان ریلوے کو نیلام کردیا جائے، اس کی اربوں ہی نہیں بلکہ کھربوں روپوں کی شہر ، شہر بکھری زمینوں پر جہنم جتنے بڑے پیٹوں والے قبضہ گروپوں نے کوڑیوں کے مول ہتھیا نے کی تیاریاں کرلی تھیں کہ خواجہ سعد رفیق نے اعلان کیا کہ وہ قومی اثاثے پاکستان ریلویز کو نہ تو نیلام ہونے دیں گے اور نہ ہی ا س کی نجکاری ہونے دیں گے۔

یہ ایک عجیب وغریب ، جنونی اور ناقابل یقین قسم کا اعلان تھا ۔ ریلوے کے حالات یہ تھے کہ اس کی فیکٹریاں بند ہوچکی تھیں ، وہاں بجلی کے کنکشن کٹ چکے تھے، کارکنوں کو تنخواہوں کے حصول کے لئے سڑکیں بند اور پولیس مقابلے کرنا پڑتے تھے، مختلف سکیشن تیزی کے ساتھ کلوز ہورہے تھے، بزرگ کارکنوں اور لاچار پنشنروں کے اربوں روپے واجب الاد ہوچکے تھے۔

ریلوے کو عملی طور پر ٹھیکیدار چلاتے تھے یعنی وہ فیصلہ کرتے تھے کہ پاکستان ریلوے کو کس شے کی اور کس قیمت پر ضرورت ہے اور ساتھ ہی من مرضی کے نرخوں پر سپلائی کردیتے تھے۔ کسی بھی کمرشل ٹرانسپورٹ ادارے میں فریٹ یعنی مال برادری سے ہی کمایا جاتا اور مسافر بردار گاڑیوں پر خرچ کیا جاتا ہے مگر عملی صورتحال یہ تھی کہ ریلوے سال میں فریٹ کی صرف ایک سوبیاسی ٹرینیں اپ کنٹری روانہ کررہا تھا یعنی ہر دوسرے روز محض ایک ،صنعتی امن خواب ہوتا چلا جارہا تھا اور جو دھڑا مضبوط اور طاقت ور ہوتا تھا وہ انتظامیہ کی گردن پر ناخن رکھ کر سہولتیں اور مراعات لے لیتا تھا ، باقی سب دیکھتے رہ جاتے تھے۔

خواجہ سعد رفیق نے دیکھا کہ پاکستان ریلوے ایک بھوت بنگلہ بن چکا ہے، ریلوے بطور ریلوے ادار کم اور کباڑیئے کی دکان زیادہ لگتا تھا ، انہیں بتایا گیا کہ ریلوے کو لوکوموٹیوز یعنی انجن چلاتے ہیں مگر ان انجنوں میں جعلی موبل آئل ڈالا جاتا تھا، ڈیزل کے ٹینک کالی تھے اور یہ معمول بھی بنا کہ مسافروں سے پیسے جمع کرکے کسی پٹرول پمپ سے ڈیزل خرید کے ٹرین کومنزل تک پہنچایا گیا اور اس کی نشاندہی دو ہزار گیارہ کی آڈٹ رپورٹ میں بھی موجود ہے۔

4 ٹریکشن موٹروں پر چلنے والے بے چارے انجن ایک ،2 یا 3 موٹروں پر بھی چل رہے تھے۔ خواجہ سعد رفیق اپنے کارکنوں کے ساتھ بیٹھ گئے ، دن رات کام کیا اور چیئر پرسن ، سی ای او ، ممبر فنانس سمیت اہم عہدوں کے لئے محنتی اور دیانتدار افسران کی ایک ٹیم بنائی، ہفتے کی چھٹی بھی ختم کردی ، روزانہ بارہ، بارہ گھنٹے اجلاس ہونے لگے، دل لگا کے دماغ کھپائے جانے لگے اور دم توڑتی ہوئی ریلوے میں زندگی کے اثار نظر آنے لگے ۔

ٹرینوں میں وقت کی پابندی نصف سے بھی کم پر پہنچ چکی تھی اور ریلوے اہلکار بتاتے تھے کہ وہ کسی ٹرین کو اپنے مقررہ وقت پر ریلوے اسٹیشن میں داخل ہوتے دیکھتے تو حیرت سے انگلیاں دانتوں تلے داب لیتے اور پھر پتا چلتا کہ یہ گزشتہ روز آنے والی ٹرین ہے جو 24 گھنٹے کی تاخیر سے پہنچی ہے۔ ٹرینوں میں بجلی کا کوئی مناسب انتظام نہیں تھا۔ ایک ٹرین کے کچھ ڈبے دو سوبیس وولٹ پر ہوتے تو باقی آدھے ایک سو دس وولٹ پر اور نتیجے میں پوری ٹرین ہی بغیر بلبوں اور پنکھوں کے اندھیری ڈراؤنی غار بنی چل رہی ہوتی۔

خواجہ سعد رفیق نے قرار دیا کہ ریلوے ایک کمرشل ادارہ ہے اور کمرشل ادارے اپنے کمائی پر ہی چلتے ہیں، یہ میرٹ ، محنت اور دیانت کاہی نتیجہ تھا کہ ریلوے کا جو محکمہ اپنے ٹارگٹ کو حاصل کرنے میں بری طرح ناکام تھا وہ آگے بڑھنے لگا۔ جب وفاقی حکومت نے تیس ارب کمانے کا ٹارگٹ دیا تو تینتیس ارب کمائے گئے ،33 ارب کے ٹارگٹ پر 36 اور36 ارب کے ٹارگٹ کے جواب میں گزشتہ مالی سال میں 49 روپے کمائے اور موجودہ مالی سال میں اکھٹے 10 ارب کی چھلانگ لگاتے ہوئے50 ارب روپے کمانے کا ٹارگٹ رکھ دیا گیا ہے۔

کبھی ٹرینوں کی ٹکٹیں بلیک ہوتی تھیں اور اب آپ بغیر کسی جھنجٹ اور پریشانی کے آن لائن بکنگ کرواسکتے ہیں، اوور ہالنگ کی بجائے ٹرینوں کی اب گریڈیشن شروع کردی گئی، ایک درجن کے قریب ٹرینیں نئی بنائی جاچکی ہیں جبکہ اگلے ڈیڑھ ، دوبرس میں کوئی پرانی کھٹارہ ٹرین باقی نہیں رہے گی، دوسری جنگ عظیم کے بعد انگریز کے پاس پیسے ختم ہوگئے۔ اور ریلوے پر قیام پاکستان کے بعد بھی کوئی خرچ نہیں ہوا مگر اس وقت گیارہ ریلوے سٹیشن زیر تعمیر ہیں جن میں سے سب سے پہلے ابھی چند ہی دنوں میں اوکاڑہ ریلوے اسٹیشن کا افتتاح ہونے والا ہے۔

کوہاٹ پنڈی ہی نہیں بلکہ سنی ہرنائی کے سیکشن بھی بحال ہورہے ہیں اور ان پر تیزی سے کام ہورہا ہے۔ ریلوے کے پاس 4 برس پہلے فریٹ کے لئے صرف 8 انجن تھے اور اس وقت 95 ہیں، سالانہ 182 فریٹ ٹرینیں اب ساڑھے تین ہزرا سے بھی بڑھ چکی ہیں، حال ہی میں جنرل الیکٹرک امریکہ کے ساختہ 4 ہزار ہارس پاور کے پچپن انجن ریلوے فلیٹ کا حصہ بنادیئے گئے ہیں، اس سے پہلے اس جدت اور طاقت کا حامل کوئی بھی انجن پاکستان ریلوے کے پاس نہیں تھا۔

ریلوے کارکنوں کی تنخواہیں اب مہینہ ختم ہوتے ہی ان کے اکاونٹ میں منتقل ہوجاتی ہیں، وہ پنشنرز جن کے اربوں واجب الاد تھے اور وہ قطاروں میں لگے لگے فوت ہورہے تھے، اب ان کی پنشن ان کے اکاونٹ میں منتقل ہوجاتی ہے، پانچ ارب کے واجبات کلیئر کیے جا چکے ہیں بلکہ تاریخ میں پہلی مرتبہ کارکنوں کو باقاعدہ الاونس میں بھی دیا گیا ۔ سوا سو بر پہلے انگریز ریلوے کا جو ڈھانچہ بنا کے چلا گیا تھا وہ آج تک قائم ہے اور پہلی مرتبہ ریلوے کی ری سٹرکچرنگ ہورہی ہے ۔

تاریخ نے یہ بھی پہلی مرتبہ دیکھا کہ امسال جولائی میں ہونے والی ڈرائیوروں کی خوفناک ترین ہڑتال صرف اور صرف خواجہ سعد رفیق اور ان کی ٹیم کی کوششوں پر اعتماد کے نتیجے میں صرف چھ گھنٹوں میں ناکام ہوگئی مگر یہ کامیابی کی داستان کا ابھی پہلا باب ہے۔ دوسرا باب اس وقت لکھا جائے گا جب سی پیک یا کسی بھی دوسرے ذریعے سے پاکستان ریلویز کی اپ گریڈ یشن کی گاڑی کا ایکسی لیٹر دبے گا اور پہلے مرحلے میں ٹرین کی رفتار کراچی سے پشاور کے درمیان ایک سو بیس سے ایک سو ساٹھ کلو میٹر کے درمیان ہوجائے گی، لاہور پنڈی کا سفراڑھائی گھنٹوں اور لاہور کراچی کا سفر نو سے دس گھنٹوں میں طے ہوجائے گا ۔

سکنلنگ کا نیا نظام لگنا شروع ہوگیا ہے اور وزارت دفاع کے ذیلی ادارے نیسکام کے تعاون سے حادثات کی روک تھا کے لئے بھی جدید ترین نظار تیار ہورہا ہے۔ ریلوے کی بحالی کا سفر کم از کم پندرہ سے بیس برس کا ہے جس میں سے ابھی صرف چار برس میں یہ گاڑی کو ریورس گئیر سے نکال کر کامیابی کی پٹڑی پر دوڑا دیا گیا ہے، ہم بل گیٹس اور مارک زکر برگ سمیت نجانے کس کس غیر ملکی کی کامیابی کی کہانے کو پڑھتے اور سراہتے ہیں مگر وہ تمام داستانیں اپنے ذاتی کاروباروں کے فروغ کی ہیں۔ پاکستان کے ایک بیٹے سعد رفیق نے قومی ادارے پاکستان ریلوے کی بحالی کے بعد اسے ترقی اور جدت کی پٹڑی پر چڑھا کے کامیابی کی ایک نئی سنہری داستان رقم کی ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

pakistan Railway Phr Track par is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 October 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.