پاکستان میں پانی و توانائی کا بڑھتا بحران اور حکومتی ترجیحات!

دریاؤں کی دھرتی صحراؤں میں بدلنے لگی․․․․ 2050 تک براہما پترا میں 20 فیصد اور دریائے سندھ میں 8 فیصد پانی کی کمی ہونے کا خدشہ

جمعہ 8 ستمبر 2017

Pakistan Main pani wa Tawanaii Ka Barhta Buhraan
محبوب احمد:
پاکستان اس وقت مختلف النوع سنگین ترین بحرانوں سے دوچار ہے جن میں بدامنی ، توانائی بحران اور دیگر درپیش چیلنجز کے بعد سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے جو شروع دن ہی سے پاکستان کا لاحق ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ پانی کے بحران میں شدت آنے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے ۔ بھارت نے تمام معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جہاں پاکستان کے حصے میں آنے والے پانی کا زبردستی استعمال شروع کررکھا ہے ، وہیں پاکستان کی ملکیت کے دریاؤں پر ڈیموں کی تعمیر کا سلسلہ شروع کرکے ایک ایسے تنازع کو ہوا دے رہا ہے جو دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان چوتھی جنگ کا پیش خیمہ بنتا جارہا ہے۔

دنیا بھر کے ماہرین بھی پانی ہی کے مسئلے پر آئندہ عالمی جنگ ہونے کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

پاکستان کے خلاف بھارت کی طرف سے آبی جارحیت کی حکمت عملی کی تیاری اور عملدرآمد نوں نہیں برسہا برس کی بات ہے۔ بھارت سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے کے پانی کو روکنے کا مجاز نہیں لیکن پچھلے کئی برس سے اس نے پاکستانی دریاؤں پر بھی ڈیم بنانے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے اور اب حقیقت یہ ہے کہ بھارت کئی ڈیموں کی بنیاد سے لیکر تکمیل تک کے مراحل طے کرگیا ہے۔

پانی کی بڑھتی ہوئی ضرورت کے پیش نظر عالمی سطح پر پانی کا اوسطاََ ذخیرہ 40 فیصد ، بھارت میں 54 فیصد ہے اور پاکستان میں صرف 9 فیصد ہے۔ جنوبی ایشیا میں بھارت اور پاکستان کے درمیان پانی کی ملکیت اور تقسیم کے تنازع کو بھی انتہائی خطرناک قراردیا جارہا ہے کیونکہ پانی کی کمی کے سبب جہاں خطے کا امن داؤ پر لگا ہوا ہے وہیں پاکستانی معیشت کی بنیاد”زراعت“ تباہی کی طرف گامزن ہے اور زرعی لحاظ سے دنیا کا زرخیز ترین تصور کیا جانے والاخطہ انی کی کمی کے سبب بنجر ہوتا جارہا ہے ، دریاؤں کی دھرتی صحراؤں میں تبدیل ہورہی ہے۔

وطن عزیز میں بڑھتا ہوا پانی اور توانائی کابحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے جو کہ ایک لمحہ فکر یہ سے کم نہیں ہے۔ پانی کی عدم دستیابی کے باعث جہاں صوبہ بلوچستان ، سندھ اور جنوبی پنجاب میں ہزاروں انسانی جانیں ضائع ہورہی ہیں وہیں لاکھوں افراد پانی کی کمی کے باعث نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ پاکستان میں پانی اور بجلی کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے لیکن تاحال اس بحران پر کنٹرول کرنے کیلئے حکومتی سطح پر محض زبانی جمع خرچ کے کوئی عملی اقدامات نہیں کئے گئے۔

ڈیموں کی تعمیر سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اور موجودہ حالات میں تو ان کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے لیکن یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ان ڈیموں کی تعمیر میں رکاوٹیں کیوں کھڑی کی جارہی ہیں، یہ ڈیموں کی تعمیر اور پانی ذخیرہ کرنے کے انتظامات درست نہ ہونے کی وجہ ہی ہے کہ اوسطاََ سالانہ 20ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع ہوجاتا ہے اور پانی کی کمی سے ہرسال سینکڑوں ایکڑ پر مشتمل زمین کاشت نہیں کی جاسکتی، قابل غور امریہ بھی ہے کہ پانی کی کمی کی وجہ سے زیر کاشت رقبہ 22.3 ملین ہیکٹر سے کم ہوکر 21.2 ملین ہیکٹر رہ گیا ہے بھارت اس وقت ہمالیہ میں ہر 20 میل کے فاصلے پر ایک ڈیم بنانے کا منصوبہ رکھتا ہے جس سے 2050ء تک نہ صرف براہما پترا میں 20 فیصد اور دریائے سندھ میں 8 فیصد پانی کی کمی ہو جائے گی، گزشتہ دہائی میں ڈیم کی وجہ سے ایک کروڑ 40 لاکھ سے 4 کروڑ تک لوگ بے گھر کئے جاچکے ہیں۔

بھارت کے پاس 1947ء میں صرف300 ڈیمز تھے جن کی اس وقت تعداد 4 ہزار تک پہنچ چکی ہے ۔ بھارت نے پاکستان کو ایتھوپیا بنانے کے لئے جس آبی جنگ کا آغاز کیا ہوا ہے اس کا انجام سوائے تباہی کے اور کچھ نہیں ۔ بھارت کی طرف سے پاکستان آنے والے دریاؤں پر ڈیم بنانے اور ان دریاؤں میں پانی کا بہاؤ کنٹرول کرنے کے اقدامات پر ایکشن کیوں نہیں لیا جارہا ؟ ہماری قیادت نے خاموشی کیوں اختیار کررکھی ہے؟ پاکستانی حکمرانوں کو بار بار خبردار کرنے کے باوجود اس اہم ایشو پر عالمی عدالت سے اس طرح رجوع کیوں نہیں کیا گیا جس طرح ہماری قیادت کو کرنا چاہیے تھا اور ایسا نہ کرنے میں کون کون سے مصلحتیں آڑے آرہی ہیں؟ یہ چند ایسے سوالات ہیں کہ جن کا جواب دینے کے بجائے حکومت نے مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اور یہ ”سرکاری خاموشی“ بھارت کو مزید شہ دینے کے مترادف ہے جو ہمارے ملک کو دھیرے دھیرے صحرا بنانے کے منصوبے پر کام کررہا ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں آئندہ 10 سال کے دوران پانی کے ذخائر کے نئے وسائل پیدا نہ کئے گئے تو 2025 ء تک پاکستان عالمی فہرست میں ان ممالک کی صف میں کھڑا ہوجائے گا جہاں پانی کا شدید بحران درپیش ہے۔ دریائے چناب میں سے بھارت سات سے تقریباََ8 ہزارکیوسک پانی چوری کررہا ہے اور اب صورتحال یہ ہے کہ اس وقت پنجاب کی تمام نہریں تقریباََ بند ہوچکی ہیں اور ان میں ریت اڑ رہی ہے۔

1996 ء میں نہروں میں پانی کی قلت 2 فیصد ریکارڈ کی گئی،1997 میں یہ کمی 9 فیصد ہوگئی 2000 ء تک یہ کمی 43 فیصد تک پہنچ گئی۔ بارشیں کم ہونے سے یہ قلت61 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں1974ء کے بعد کوئی ڈیم نہیں بنایا گیا جو دنیا بھر کے 10 لاکھ ڈیمز کے سامنے اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے، ملکی زراعت ، توانائی کے شعبے میں بحران اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے مسائل کے شکار پاکستان میں صرف 18 ڈیم ہیں۔

پانی اور توانائی بحران کے حل کیلئے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا باقاعدہ کام 1953ء میں شروع ہوا ، اس ڈیم کی خصوصیات یہ ہے کہ اس ڈیم میں دریائے سندھ کے علاوہ دریائے کابل ، دریائے کنٹر،دریائے سوات،دریائے دیر اور دریائے سوان کا پانی بھی جمع ہوسکتا ہے۔ 1991ء میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ پانی کی تقسیم کے معاہدے پر متفق ہوئے تھے اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لئے گرین سگنل دیا گیا لیکن بعد ازاں یہ بھی مفادات کی بھینٹ چڑھ گیا۔

دنیا بھر میں چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعداد 10 لاکھ ہے، جن میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت8300 ہزار کیوبک کلو میٹر ہے، جبکہ عالمی سطح پر دنیا کے کل ڈیموں کا 59.7 فیصد ایشیا میں ،21.1 فیصد شمالی امریکہ ،12.6 فیصد یورپ ،3.3 فیصد افریقہ،2 فیصد جنوبی افریقہ اور 1.3 فیصد آسٹریلیا میں ہیں۔ دنیا بھر میں 50 ہزار ایسے بڑے ڈیم ہیں جن کی اونچائی 200 فٹ سے زائد ہے۔

بڑے ڈیم رکھنے کے حوالے سے 19 ہزار ڈیمز کے ساتھ چین پہلے نمبر پر 8100ڈیمز کے ساتھ امریکہ دوسرے نمبر اور بھارت4 ہزار ڈیمز کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ بھارت نے اپنے توانائی بحران کی کمی کو پورا کرنے کے لئے2030 ء تک 292 ء ڈیم تعمیر کرنے کی تیاریاں شروع کر رکھی ہیں جس سے پاکستان کے بنجر ہونے کا خدشہ ہے۔ پاکستان میں پانی کی کمی کا آغاز 1948ء سے ہوا اور تاحال جاری ہے۔

قومی سطح پر اس وقت جتنے بھی بنیادی مسائل ہیں سب سے بڑا ایشو بھارت کی آبی جارحیت ہے۔ 1950 ء میں پانی کی فی کس مقدار 5830 کیوبک میٹر تھی صرف ایک ہزار کیوبک میٹر ہے اور اندازہ یہی لگایا جارہا ہے کہ 2025ء تک یہ صرف550 کیوبک میٹر رہ جائے گی۔پانی کمی کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہورہی ہیں، یہی صورت حال برقرار رہی تو خدانخواستہ خدشہ ہے کہ کہیں یہاں ایتھوپیا اور صومالیہ جیسے ہی حالات پیدا نہ ہوجائیں اور شمالی کوریا اور روانڈا کی طرح ہماری انتہائی زرخیز زرعی زمینیں اجاڑ ،ویران اوربے آباد نہ ہو جائیں، لہٰذا یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان پانی اور توانائی بحران پر مکمل کنٹرول کرنے کیلئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈیموں کی تعمیر یقینی بنائے تاکہ درپیش مسائل سے چھٹکارا پایا جاسکے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Pakistan Main pani wa Tawanaii Ka Barhta Buhraan is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 September 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.