پاکستان کو ڈو مور کا نیا امریکی پیغام

ٹرمپ کے الزامات اعتماد کی بحالی میں رکاوٹ بھارت کو افغانستان پر مسلط کرنے سے خطے کے حالات مزید خراب ہوں گے

بدھ 28 مارچ 2018

pakistan ko do more ka naya america pegham
محبوب احمد
امریکی نائب صدر نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے ایک ملاقات میں ڈونلڈ ٹرمپ کا پیغام پہنچاتے ہوئے ایک مرتبہ پھر مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کو طالبان اور دیگر شدت پسندوں کے خلاف مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔وائٹ ہاﺅس کی جانب سے جاری بیان میں یہ کہا گیا ہے کہ پاکستان حکومت امریکہ کے ساتھ مل کر حقانی نیٹ ورک اور دیگر شدت پسندوں گروہوں کی موجودگی کے حوالے سے مزید کاروائیاں کرے یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ شاہد خاقان عباسی کی مائیکل پینس سے ملاقات کی مزید تفصیلات تاحال واضح نہیں ہوسکیں لیکن ذرائع سے یہ بات منظر عام پر آئی ہے کہ ملاقات پاکستان کی درخواست پر امریکی نائب صدرکے گھر پر ہوئی اور اس ملاقات میں کوئی بھی دوسرا امریکی محکمہ دفاع بھی یہ بات باور کرواچکا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کاروائی کرے اور یہ کہ امریکہ کو بعض معاملات پر شدید اختلافات ہیں اور ان پر کام کیا جارہا ہے۔

(جاری ہے)

امریکہ نے اپنے بدلتے تیور کے ساتھ ساتھ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف کاروائیوں کے عوض اتحادی یعنی کولیشن سپورٹ فنڈز کی مد میں سال 2017 کی90 کروڑ ڈالر کی امداد بھی معطل کی تھی۔ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا تھاکہ پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کے خلاف کاروائیاں نہ کرنے پر اس کی تقریباً تمام سکیورٹی امداد روکی گئی ہے تاکہ پاکستان حکومت کو یہ بتایا جاسکے کہ اگر وہ امریکہ کا اتحادی نہیں بنتا تو معاملات پہلے کی طرح نہیں رہیں گے۔

واشنگٹن کا خیال ہے کہ پاکستان نے طالبان کی حمایت ختم کرنے کے بہت کم کوشش کی ہے۔کیونکہ اس کی سکیورٹی ایجنسی انہیں اپنی ڈھال کے طور پر استعمال کرتی ہے ادھر افغان صدر اشرف غنی نے گزشتہ ماہ افغان طالبان کو سیاسی جماعت کے طور پر تسلیم کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے انہیں امن مذاکرات کی پیش کش کی تھی تاہم یہ پیشکش افغان آئین اور حکومت کی تابعداری سے مشروط تھی۔

یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دور صدارت میں جنوبی ایشیا کے بارے میں اپنے پہلے خطاب میں پاکستان کو تنبیہہ کی تھی اگر وہ مسلسل دہشت گردوں کا ساتھ دے گا تواس کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔امریکی صدر کے مطابق 20 غیر ملکی دہشت گرد تنظیمیں پاکستان اور افغانستان میں کام کررہی ہے جو کہ دنیا میں کسی بھی جگہ سے زیادہ ہیں ان کے اس بیان اور پاکستان کو کی گئی تنبیہہ پر سیاسی جماعتوں،عوام اور سماجی تنظیموں کی طرف سے شدید ردعمل بھی سامنے آیا تھا اب ایک مرتبہ پھر جو ڈومور کا مطالبہ کیاگیا ہے اس پر امریکہ کو یہی واضح پیغام دیا گیا ہے کہ اب ڈومور کا مطالبہ امریکہ نہیں کسی اور کی طرف سے ہوگا۔

دیکھا جائے تو امریکی صدر ٹرمپ سے اس کے علاوہ امید بھی کیا کی جاسکتی ہے جیسے بھارت کشمیر میں اپنی ناکام پالیسی کے باعث پیدا ہونے والی شورٹس کا ذمہ دار پاکستان کو گردانتا ہے ویسے ہی امریکہ بھی امریکہ بھی افغانستان میں کئی دہائیوں سے جاری اپنی ناقص اور ناکام پالیسی کا پاکستان کو ذمہ دار قرار دے رہا ہے یہاں افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ ایک طرف پاکستان سے ”ڈومور“کا مطالبہ کیا جارہا ہے جبکہ دوسری طرف ٹرمپ افغانستان میں بھارت کو مسلط کرکے اپنے فوجیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ کررہا ہے لہٰذا امریکہ کا یہی دوہرا معیار ہے کہ جس کی وجہ سے خطے میں دہشت گردی کو فروغ مل رہا ہے۔

ایشیاءپر اپنی معاشی فوجی اور سیاسی قوت سے بالادستی قائم کرنے کی امریکی پالیسی اور عالمی افق پر اقتدار کے قبضے کی جنگ نے دنیا بھر کے ممالک کو ایک تاریک دورا ہے پر لاکھڑا کیا ہے۔اس بات میں کوئی دوراہے نہیں ہیں کہ امریکی جنگ سے پاکستان کی معیثیت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچتا ہے۔امریکی صدر کی غیر متوازن پالیسیوں سے دنیا ہی نہیں خود امریکی بھی نالاں ہیں یہی وجہ ہے کہ کانگریس میں ٹرمپ کے مواخذے کی درخواست بھی پیش کی جاچکی ہے امریکہ کی طرف سے نئی افغانستان پالیسی خصوصاً پاکستان کو دی جانے والی دھمکیوں کے خلاف بھارت اور افغانستان کے سوا دنیا بھر میں شدید ردعمل کا اظہار بھی کیا جاچکا ہے۔

امریکہ خطے کے اندرونی معاملات میں جو مداخلت کررہا ہے اس کے منقی نتائج برآمد ہوں گے۔امریکہ آج اس خطے بالخصوص افغانستان کے بارے میں اپنی غلط اور بے وقت کی پالیسیوں کے نتائج پر دوسرے ممالک کو موردالزام ٹھہرا رہا ہے اس کی مفاد پرستی پر مبنی حکمت عملی اور بے جا مداخلت کے نتیجے میں اسے کچھ حاصل نہیں ہواالٹا خطے میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کو فروغ ملا ہے امریکی صدر کو یہ بات اب باورکرلینی چاہیے کہ پاکستان کی مدد اور تعاون کے بغیر افغانستان میں پائیدار امن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا عالمی رہنما اور میڈیا بھی اسے رائے پر متفق ہیں کہ پاک فوج نے اپنے ملک میں دہشت گردوں کے اڈوں کو تباہ کردیا ہے اور افغانستان میں دہشت گردی کے جو بھی واقعات ہورہے ہیں وہ باہر سے نہیں اندر سے ہوتے ہیں۔

افغانستان میں امن سب سے زیادہ پاکستان کے مفاد میں ہے ایسے میں امریکی صدر کا وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو پیغام تضحیک آمیز ہے لہٰذا ڈونلڈ ٹرمپ کو اب پاکستان پر لگائے گئے الزامات کے ثبوت پیش کرنا ہوں گے کیونکہ بغیر ثبوت کے اعتماد بحال نہیں ہوسکتا۔افغانستان کے 60 سے 70 فیصد حصے پر افغان حکومت کا کنٹرول نہیں ہے امریکہ کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ بھارت کو افغانستان پر مسلط کرنے سے حالات مزید خراب ہوں گے ماضی میں بھی حکومت پاکستان امریکی صدر کی نئی پالیسیوں اور الزام تراشیوں کے بعد اپنی پوزیشن واضح کرتی آئی ہے اس حوالے سے پاکستان کی اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت نے بھی ٹرمپ کی جانب سے پاکستان پر لگائے گئے الزامات کو جس انداز سے مسترد کیا وہ قابل تحسین ہے۔

پاکستان نے قیام امن اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ناقابل فراموش کردار ادا کیا ہے لیکن امریکہ کا یہ شروع دن سے ہی وطیرہ رہا ہے کہ اس نے ہمیشہ پاکستان کی قربانیوں کو نظر انداز کرکے بے وفائی کی ٹرمپ کا حالیہ ”ڈومور“ کا پیغام بھی اصل بھارت کو خوش کرنے اورپاکستان کو مزید غیر مستحکم کرنے کی ایک بڑی سازش کا حصہ ہے لیکن امریکی صدر کی ان دھمکیوں اور الزام تراشیوں کے بعد پاکستان کی سول و ملٹری قیادت کا ایک پیچ پر آکر امریکہ کو ”ڈومور“پر ”نومور“ کا جواب دینا پوری قوم کے جذبات کا صحیح عکاسی ہے افغانستان میں دہشت گردی پاکستان پر الزامات سے نہیں بلکہ تعاون سے ہی ختم ہوگی خطے میںقیام حقیقی امن کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی اس حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کرنا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

pakistan ko do more ka naya america pegham is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 March 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.