پاک سعودیہ و خلیجی تعلقات میں بہتری

پاکستان اور سعودیہ کو جہاں کفار اغیار کی مدد سے تیار شدہ تباہ کن ایجنڈوں کا سامنا ہے وہاں ان میں اشتراک عمل دہشت گردی کے خلاف بھی ہے۔ سعودیہ اور پاکستان دونوں کو اپنے نام نہاد خوارج باغیوں کا سامنا ہے

بدھ 16 اگست 2017

Pak Saudi Khaliji Taluqat Main Behtari
محی الدین بن احمد الدین:
پاکستان اور سعودیہ کو جہاں کفار اغیار کی مدد سے تیار شدہ تباہ کن ایجنڈوں کا سامنا ہے وہاں ان میں اشتراک عمل دہشت گردی کے خلاف بھی ہے۔ سعودیہ اور پاکستان دونوں کو اپنے نام نہاد خوارج باغیوں کا سامنا ہے جو مشرقی وسطیٰ میں القاعدہ و داعش کہلاتے ہیں تو پاکستان میں الاحرار، ٹی ٹی پی، غازی بریگیڈ، عبداللہ عزام بریگیڈ کہلاتے ہرے ہیں۔

پاکستان اور سعودیہ کو مذہبی انتہا پسندی کی طرف سے ہی آمادہ قتل مسلمانان کا سامنا ہے جو بزعم خویش بہت متقی و پرہیز گار مسلمان اور مجاہد ہیں اور حقیقی نظام توحید و شریعت کو نافذ کرنا چاہتے ہیں۔علماءکی رائے میں یہ مذہب میں غلو (انتہا پسندی ) میں مبتلا ہوتے ہیں اور دین و ریاست اور معاشرے کو ہر معاملے میں غلو (انتہا پسندی) کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

(جاری ہے)

یہ جمہور مسلمان نہیں ہوتے بہت مختصر سا گروہ عموماً ہوتا ہے جیسے صحابہ کرام کے عہد مبارک میں خوارج کا گروہ عددی طور پر تو بہت کم مگر اپنے قتال اور مسلمانوں کے قتل کو جہاد کے تصور پر جائز بلکہ بہت ضروری قرار دیتے تھے۔ قاتلیں مسلمانان ایسے انتہا پسندوں کے ظہور کی پیشن گوئی آنحضرتﷺ نے فتح حنین و طائف کے بعد فرمائی تھی اور ان کے قتل عام کی نصیحت فرمائی تھی۔

ایک مسلمان کے قتل عمد کا جرم کتنا بڑا ہے؟ یہ قرآن پاک پارہ 5 سورة النساءکی آیت نمبر 93 قتل خطاءکا معاملہ اور سزا آیت نمبر 92 میں واضح طور پر بیان شدہ ہے، ترجمہ ”اور جو کوئی کسی مسلمان کو قصداً قتل کر ڈالے، اسکی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار رکھا ہے۔

“ القاعدہ ہو یا داعش جو مشرق وسطیٰ میں آجکل زیادہ متحرک ہے اور سعودیہ میں مسلمانوں کو قتل کرتے اور کراتے ہیں۔ حتیٰ کہ بیت اللہ شریف میں اسلحہ لیکر گھس کر ریاست پر قبضے کو جائز اور ضروری سمجھتے ہیں۔ مسجد نبوی کے دروازے پر خود کش حملے کرواتے ہیں اور معصوم مسلمانوں اور پولیس و ریاستی اداروں کے ان مسلمانوں کو بھی قتل کراتے اور کرتے ہیں جو مسلمان نمازیوں و شہریوں کی حفاظت پر مامور ہوتے ہیں۔

پاکستان کو بھی پڑوسی ایک مسلمان ملک کی طرف سے دہشت گردی کا سامنا ہے۔ ہندو انتہا پسند غلبے کے ملک سے شدید خطرات اور دشمن ایجنڈوں کا سامنا ہے۔ ایک مسلمان عجمی ملک کا انقلاب کافروں سے کہیں زیادہ مسلمان ممالک، حکومتوں اور معاشروں کے لئے وجہ فتنہ و فساد بنا ہوا ہے۔ سعودیہ و پاکستان یکساں طور پر اس ملکی یلغاری ایجنڈے سے دو چار رہے ہیں۔

پاکستان کو افغانستان سے جو مخالفت اور دہشت گردی کا سامنا رہا ہے وہی سعودیہ، بحرین، امارات کو قطر جیسے مختصر ترین جغرافیئے کے ملک سے رہاہے۔ تازہ پڑھئے کہ تاجکستان کی حکومت نے اس انقلابی ملک سے شدید احتجاج کر کے الزام لگایا ہے کہ وہ تاجکستان کو غیر مستحکم کر رہا ہے۔ یہی الزام سوڈانکی طرف سے لگتا رہتا ہے۔ یہ ہیں وہ اصل معاملات و خطرات اور تباہ کن دشمن ایجنڈے جنہوں نے جنرل مشرف کے عہد میں شاہ عبداللہ کے ریاض کو اسلام آباد کا بہت گہرا دوست، ساتھی اور اتحادی بنا دیا تھا۔

اسی خطرے نے شاہ سلمان کے عہد میں نوجوان اور ولی عہد و وزیر دفاع محمد بن سلمان کو پاکستان کے قریب مزید کیا اور پاک فوج سے قریب تر کر دیا۔ جنرل شریف کا عہد پاک سعودی عسکری مفاہمت اور دہشت گردی، عدم استحکام اور دشمنی ایجنڈوں کا مشترکہ طور پر سامنا اور مقابلہ کرنے کا عہد ہے۔ اسلامی عسکری اتحاد کا ظہور اور وجود ایسے ہی خطرناک معاملات کا نتیجہ ہے۔

جنرل قمر جاوید باجوہ جب آرمی چیف بنے تو انہوں نے سعودیہ، امارات، بحرین سے اور مشرق وسطیٰ میں وہی قریبی تعلقات اپنائے جو جنرل راحیل شریف کے عہد میں گہرے اور دائمی ہوئے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ریاض میں شاہ سلمان سے متعدد ملاقاتیں کیں۔ وزیر دفاع اور آرمی چیف ضرور دیگر اعلیٰ حکام اور قائدین کے سے مسلسل ملاقاتیں، اسی سلسلے کا ایک نیا ظہور محترم خاقان عباسی کے وزیراعظم بننے کے بعد سعودی نائب وزیر دفاع محمد بن عبداللہ کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات اور جنرل باجوہ کا نائب وزیر دفاع محمد بن عبداللہ کو سعودیہ کی جغرافیائی حفاظت اور حرمین شریفین کی حفاظت و خدمت میں اشتراک کا یقین دلانا ہے۔

الحدیدہ بندرگاہ دنیا اور عربوں کے لئے مصیبت بنی ہوئی ہے۔ یہاں سے سعودیہ کے خلاف جارحیت کے لئے اسلحہ میسر آتا ہے اور ساری دنیا کو معلوم ہے کہ وہ کونسا عجمی مسلمان ملک ہے جو الحدیدہ بندرگاہ کے ذریعے یمنی حوثیوں اور جنرل صالح کو اسلحہ فراہم کرتا ہے۔ باب المندب میں جو قذافی ہوتی ہے وہ بھی الحدیدہ کی مدد سے ہوتی ہے۔ یہ بندرگاہ حوثیوں کے پاس ہے۔

اقوام متحدہ میں عرب سفراءنے مطالبہ کیا ہے کہ اگر اقوام متحدہ یمن میں امدادی کارروائیاں کرنا چاہتی ہے تو اسے الحدیدہ بندرگاہ کے معاملات اور صنعاء بندرگاہ اور ایئر پورٹ پر اقوام متحدہ کی امن فوج داخل کرنا ہوگی تا کہ وہ عین باغیوں کی جنگی کارروائیوں کو روکیں اور بین الاقوامی انسانی امداد بحری اور فضائی راستوں سے یوں یمن میں پہنچا سکیں کہ وہ باغیوں اور حوثیوں کے ہاتھ نہ لگے۔

امارات و بحرین مصر اور سعودیہ ایک ہی کشتی کے سوار ہیں اسی لئے ان میں مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ امارات کے ولی عہد اور آرمی چیف الشیخ محمد بن زاہد النہیان اور سعودی ولی عہد اور وزیر دفاع محمد بن سلمان میں مکمل مفاہمت، یکجہتی اور اتحاد ہے۔ سعودی ائیر فورس نے یوم آزادی تقریبات میں حصہ لیا ہے۔ اسلام آباد میں یو م آزادی کے موقع پر سعودی فرمانروا اور صدر پاکستان کی تصاویر سرکاری سطح پر نصب کرکے اس محبت کی عکاسی کی گئی ہییوم پاکستان کی خوشی میں مکہ میں بیت اللہ کے سامنے بلند مکہ ٹاور پر دنیا کا 12واں سب سے بڑا پاکستانی پرحم لہرا کر سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ لازوال دوستی و محبت کا اظہار کیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Pak Saudi Khaliji Taluqat Main Behtari is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 August 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.