پاک افغان امریکی پالیسی نااہل حکام کے ہاتھ میں!

امریکی فوج قوت کو دباؤ سے نکالنے کیلئے پاکستان پر پابندیوں کا منصوبہ۔۔۔ افغانستان میں امریکی فوج قوت کا بھرم کھل گیا

جمعہ 18 اگست 2017

Pak Afghan Amrici Policy Na Ahal Hukkam K Hath Main
امتیاز الحق:
پاکستان کا دورہ کرنیوالے اعلیٰ امریکی حکام وقیادت جن میں سینیٹر جان مکین اور ان کے وفد کے دیگر ارکان امریکی افواج کے جوائنٹ چیفس آف سٹاف جوزف ڈنفورڈ اور حالیہ دنوں نائب معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی و وسطی ایشیا ایلس ویلز کی سربراہی میں امریکی وفد نے پاکستانی سکیورٹی قیادت سے ملاقاتیں کی ہیں ان تمام ملاقاتوں میں امریکی حکام نے اپنی اپنی رپورٹس صدر ٹرمپ کو پیش کی ہیں۔

گزشتہ دو ماہ کے عرصہ کے دوران اعلیٰ سطح پر واشنگٹن حکام کے مسلسل دورے پاکستان، خطہ کے ممالک اور عالمی سطح پر حیرت اور تجسس کیساتھ کسی حد تک پریشان کن انداز میں اس کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ پریشانی اس وقت مزید بڑھ گئی جب وائٹ ہاؤس کے سچوایشن روم میں افغان جنگ کے خاتمہ پر ہونے والے اہم اجلاس میں صدر ٹرمپ کے اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا کہ افغان جنگ کا خاتمہ کیسے ہوگا؟ اس دوران ٹرمپ کے چیف سٹریٹجک اور وائٹ ہاؤس کے نیشنل ایڈوائزر نے ایک دوسرے پر چلانا شروع کردیا اور کچھ عہدیدار اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے۔

(جاری ہے)

اس موقع پر صدر ٹرمپ نے بھی کہا کہ افغانستان پر مکمل کنٹرول ناممکن ہے لہٰذا افغانیوں سے ایک ٹریلین ڈالرز کے قدرتی ذخائر مانگے جائیں۔ اس موقع پر صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ چینی کمپنیاں منافع کمارہی ہیں یہ اجلاس اس وقت اور اس موقع پر ہوا جب جان مکین اور جوزف ڈنفورڈ کی پاکستانی حکام سے ملاقاتوں کے بعد رپورٹ پیش کی گئی تو صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکی فوج جنگ ہار رہی ہے۔

افغانستان میں امریکی فوج کے انچارج جنرل نکلسن کر برطرف کرنے کا کہہ دیا کیونکہ جنوبی ایشیا میں نئی امریکی حکمت عملی اور خارجہ پالیسی تاخیر کا شکار ہیں نہیں ہو رہی بلکہ ناکامی سے دوچار ہے۔ 19 جولائی کو وائٹ ہاؤس کے سچوایشن روم میں ہونے والے اجلاس کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ قومی سلامتی کے اعلیٰ حکام سے افغانستان میں ”اختتامی صورتحال“ سے متعلق مزید معلوم فراہم مطالبہ کررہے ہیں۔

وہ جاننا چاہتے تھے کہ افغان جنگ کا خاتمہ کیسے ہوگا۔اجلاس میں کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ افغان جنگ کا خاتمہ کیسے ہوگا؟اس دوران اجلاس میں ہلچل مچ گئی جب وزیر دفاع جیمز میٹس اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جوزف ڈنفورڈ سے صدر نے کہا کہ وہ افغان جنگ نہ جیتنے کی وجہ سے افغانستان میں امریکی فورسز کے سربراہ جنرل نکلسن کو برطرف کرنے کا سوچیں، صدر ٹرمپ نے اجلاس میں کہا ہم جیت نہیں رہے۔

اس موقع پر ٹرمپ نے اجلاس میں کہا کہ ہم جیت نہیں رہے۔ اس موقع پر ٹرمپ کے چیف سٹریٹجک سٹیوبینن اور وائٹ ہاؤس کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر ایچ آر مک نے ایک دوسرے پر چلانا شروع کردیا۔ صدر ٹرمپ یہ کہتے ہوئے اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے کہ ”امریکی افواج افغان جنگ ہارنے کی اجازت دے رہی، جرمن نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق وہاں موجود میٹس”مک“ ماسٹر اور اعلیٰ حکام صدر کی افغان پالیسی وحکمت عملی بارے رضا مندی حاصل نہ کرسکے۔

تاریخی طور پر نو آبادیاتی اور جدید نو آبادی تسلط کا زوال اس وقت ہو ا یا ہورہا ہے جب بڑی طاقتوں نے دیگر ممالک کے اندرونی معاملات اور ریاستوں کو اپنے ہاتھ اور قبضہ میں لیاتووہ اس وقت الجھ کررہ گئے۔ پاکستان افغان معاملات میں الجھا تو نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے لیکن یہ اس کی مجبوری تھی کہ بھارتی اثرونفود کو بڑھنے سے روکے۔ امریکیوں نے پاکستان کی اس سوچ کیساتھ نرم رویہ رکھتے ہوئے اسے روس کے خلاف استعمال کیا لیکن خود برے طریقے سے افغانستان میں پھنس گیا جس سے نبٹنا اس کے بس کی بات نہیں۔

امریکی اس بات سے آگاہ نہیں تھے کہ خطہ میں روس اپنی شکست وریخت کے بعد دوبارہ طاقت پکڑ رہا ہے چین اقتصادی قوت کے طور پر خطہ اورپاکستان میں سٹریٹجک پارٹنر بن جائیگا عالمی اقتصادی بحران امریکہ کو متاثر کریگا برطانیہ یورپی یونین سے علیحدہ ہوگا۔ طاقت کا توازن مغرب سے مشرق کی جانب تبدیل ہوگا۔ امریکی خارجہ ماہرین اشرافیہ اور سٹیبلشمنٹ اس بات سے ابھی بھی متفق نہیں کہ تاج برطانیہ کے بعد امریکی قوت کے دن لدچکے ہیں۔

ویت نام میں امریکی اپنا قبضہ، افغانستان میں اپنی بالادستی اور مشرق وسطی میں بتدریج اثرو نفوذ کے کم ہوتے ہوئے انہیں اندازہ نہیں ہورہا کہ برطانیہ کو انڈیا میں قبضہ برقرار رکھنا اس وقت مشکل ہوگیا تھا جب جنگ عظیم دوئم میں اپنی فوج اور اسلحہ جھونکنے کے بعد جو قیمت ادا کی اس سے کئی گنا امریکی مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں ادا کررہے ہیں اور اب انہیں افغانستان سے نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا اوروہ اپنی ہی جڑیں کھو کھلی کررہا ہے۔

وائٹ ہاؤس کے سچوایشن روم میں امریکی خارجہ و دفاعی اسٹیبلشمنٹ کے حکام ایک دوسرے پر چلا رہے تھے تو وہ اس غلط فہمی کا شکار تھے کہ وہ اب بھی عالمی طاقت ہیں جن کا اس روئے زمین پر کوئی حریف نہیں اس قوقت کا زوال لا محال ہے اور دنیا کے تمام فیصلے وہی کررہے ہیں ان ماہرین کو آنے والے دنوں کی تصویر دکھائی نہیں دے رہی کہ افغانستان میں امریکی شکست کا مطلب مشرق وسطیٰ اور افریقہ کیساتھ سنٹرل امریکہ سے بھی اسے نکلنا پڑے گا اسن کی نظروں میں حالات کی خرابی انہی ملکوں میں خراب لیڈر شپ اور حالات کی وجہ سے ہے لہٰذا وہ گاہے بگا ہے پاکستان اور دیگر ملکوں میں دھونس دھاندلی اور سازش کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ ان ملکوں پر دباؤ ڈال کر اپنی مرضی کی پالیسیوں کی شکل میں عملدرآمد ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔

یہ اشرافیہ حالات کو بہتر بنانے کے بجائے اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ کرنے کیلئے زور آزمائی کررہے ہیں۔ ان کی پوری کوشش سٹیٹس کو برقرار رکھنا ہے ہر قسم کی تبدیلی کو اپنے خلاف تصور کرکے اسے ایک چلینج کے طور پر سمجھ کر اسکا راستہ روکنے کی کوشش کررہے ہیں اس کے لئے وہ افغانستان میں داعش اور عسکریت پسندوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔

اپنی تمام ناکامیوں کو حقانی گروپ اور پاکستان کے اسکے اتحاد کی شکل میں بنانے کی کوشش وائٹ ہاؤس کے سچیوایشن روم میں دیکھی جاسکتی ہے۔ آج کا واشنگٹن نئے حالات کے چیلنجز کے مطابق اپنی پالیسیوں کو بدلنے کیلئے تیار نہیں۔ عالمی حالات کو اپنے قابو کرنے کے زعم میں مبتلا اس اشرافیہ کی نااہلی خطے میں نئے جمال عبدالناصر اور نئے پیوٹن کو پیدا کرسکتی ہے۔

روس کی بڑھتی ہوئی طاقت اسکی اپنی شکست وریخت کی بحالی کی وجہ سے ہے جس کا دنیا کو کوئی خطرہ نہیں لیکن روسی طاقت جو عالمین سطح پر اب بھی کمزور ہے جس کے جارحانہ عزائم نہیں ہیں جو پاکستان کیساتھ بہترین تعلقات کی جانب بڑھ رہے ہیں کل کے دشمن آج کے دوست بن گئے ہیں۔پاکستانی سکیورٹی قیادت کی خطہ میں اہمیت اور اسکے کردار کی وجہ سے امریکی خارجہ ودفاعی اسٹیبلشمنٹ دباؤ میں لاکر روسی و چینی حقیقت پسندانہ تعلقات کو پاکستان سے ختم کرنا چاہتی ہے ایک جانب روس پر امریکی پابندیاں دوسری جانب پاکستان کو دباؤ میں لا کر یہ بات چھپانا چاہتی ہے کہ واشنگٹن کا سپر پاور ہونے کا رتبہ ختم ہوگیا ہے۔

اس رتبہ کو بچانے کیلئے روس اور پاکستان پر پابندیاں لگانا ضروری ہیں اپنی حیثیت و اہمیت کو ختم ہوتے ہوئے دیکھ کر وہ پاکستان میں دہشت گردی اور بحران کو پیدا کرسکتی ہے اور وہ بتدریج اس جانب بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان اور روس کسی بھی دھونس دھاندلی کو قبول کرنے کو تیارنہیں۔پاکستان نے خطہ میں چین اور وسط ایشیائی ملکوں کے ساتھ ترقیاتی عمل میں حصہ ڈالنا شروع کردیا ہے، امریکی حکام کے برعکس اپنی قومی پالیسیوں کو ترجیح دے رہے ہیں پاک چین اور روس افغانستان میں تاریخ کے دھارے کا رخ بدلنے کیلئے پرعزم ہیں اور وہ امریکی جارح مزاج کے سامنے کھڑے ہونے سے انکار کررہے ہیں۔

یہ ممالک سمجھتے ہیں کہ دیوار برلن کے انہدام کے بعد امریکہ کو جس طاقت کی وجہ سے عالمی سٹیج پر بلاشرکت غیرے اختیار حاصل تھا اور ہر جگہ اسکا حکم چلتا ہے اب اسکی تحلیل کا عمل جاری ہے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ امریکی پالیسی سازوں میں کہ اب امریکی اسٹیبلشمنٹ دہشت گردوں کو پیدا کرکے ان کی حکومتوں کا تختہ نہیں الٹ سکتی وگرنہ وہ صدام حسین کے بعد بشارالاسد ایران،پاکستان کا اپنا غلام بنا چکے ہوتے۔

ملکی تعصب داعش عسکریت پسندوں و دیگر انتہا پسند گروپوں کو پیدا کرکے پاکستان اور خطہ کے دیگر ممالک کو تابع کرنے کے دن گنے جاچکے ہیں اب یہ قوت ان ملکوں میں اپنا ایجنڈا نافذ نہیں کرسکتی۔ پاکستان کے قدم جم چکے ہیں روس چین کو موقع مل گیا ہے کہ وہ علاقہ میں امریکی بالادستی کو ختم کریں۔ امریکی فوف قوت اب امریکی اشرافیہ کے نیچے سے سرک رہی ہے اب یہ خطہ معاشی فوجی قوت کے دائرے سے نکل کر اپنا حلقہ اثر بنا چکا ہے۔

امریکی عوام ایسی پالیسیوں سے تنگ آچکے ہیں وہ طویل جنگوں سے تھک چکے ہیں اور وہ ان ملکوں کی طرح مداخلت کے حق میں نہیں ہیں خود ٹرمپ کا نعرہ تھا کہ امریکہ دنیا کا ٹھیکیدار نہیں بنے گا۔ امریکی عالمی تنہائی کا شکار ہورہے ہیں۔ امریکہ کی نااہل اور کمزور پالیسیوں کی وجہ سے پاک روس چین خطہ میں افغان جنگ کا فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔

پاکستانی سکیورٹی حکام آنے والے اعلیٰ قیادتی رہنماؤں کو باور کراچکے ہیں کہ افغانستان میں فوجی اہداف حاصل کرنے کی بجائے جتنی جلدی ہو افغانستان سے نکل جائیں۔ افغانستان کی بحالی کی کنجی مذکورہ تینوں ملکوں کے ہاتھ میں ہے جس کے اتحادی وسط ایشیائی ریاستیں اور پاکستان کے عوام ہیں جو اپنی مسلح افواج ، سکیورٹی اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Pak Afghan Amrici Policy Na Ahal Hukkam K Hath Main is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 18 August 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.