پابندیوں کی امریکی پالیسیاں، نئے عالمی نظام کا جنم․․․!

پاکستان ،وینزویلا،کوریا،چین،روس،ایران امریکہ کے خلاف ڈٹ گئے کمزور عالمی امریکی کردار علاقائی ریاستوں کی مضبوطی کا باعث

منگل 12 ستمبر 2017

Pabndiyo ki Americi Palisiya Naye Aalmi Nizzam Ka Janam
امتیاز الحق:
پاکستان پر طالبان کی مدد، روس پر امریکی انتخابات میں مداخلت ، کوریا کی ایٹمی صلاحیت کی چینی حمایت ، ایران پر شام و عراق میں امریکی مخالف عناصر کی حمایت کرنے پر امریکہ نے ایشیاء یورپ کے بعد سینٹرل امریکہ میں بھی اور دھمکیوں پابندیوں کا محاذ کھول دیاہے۔ چین کے خلاف امریکی محکمہ خزانہ نے 10 کمپنیوں اور 6 افراد کے نام دیئے ہیں جن میں کوئلے ،فولاد اور مالیات کی چینی کمپنیاں شامل ہیں۔

چینی ترجمان نے ردعمل کے طور پر کہا کہ امریکہ کو فوری طورپر ایسی غلطی کی اصلاح کرنی چاہیے۔ امریکی وزیر خزانہ سٹیون منوچن نے کہا کہ یہ ناقابل قبول ہے کہ چین،روس یا کسی اور جگہ کے لوگ اور کمپنیاں شمالی کوریا کر سرمایہ پیدا کرنے کے قابل بنائیں جنہیں وہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار بنانے اور خطہ کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے استعمال کرے۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا تھا کہ پابندیوں پر عمل نہ کرنے کے نتائج بھگتنا ہونگے۔ روس کے حوالے سے امریکی کانگریس کی دونوں جماعتوں سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کا ایک گروپ 2016ء کے صدارتی انتخابات میں مبینہ مدالت کے ردعمل میں روس پر نئی پابندیوں اور ساتھ ہی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ماسکو کے خلاف تعزیرات میں نرمی برتنے سے روکنے کیلئے ایک سمجھوتے پر متفق ہوگئے ہیں۔

قبل ازیں گزشتہ مہینے غیر مستحکم کرنے کی ایران کی سرگرمیوں کے خلاف ایکٹ نامی ایک مسودہ قانون سینٹ سے پاس کیا گیا تھا جس میں ایران کے بیلسٹک میزائل تجربات کی پاداش میں نئی پابندیاں بھی تجویز کی گئی تھیں۔ مسودے پر ایوان نمائندگان میں رائے شماری کے نتائج بادی النظر میں پابندیوں کا عندیہ دے رہے ہیں کہ وہ امریکہ کے اپنے خلاف جاسکتے ہیں۔

یہ قانون سازی ایک ایسے عمل کے تحت کی جارہی ہے جس میں مسودہ قانون کی منظوری کیلئے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے جس کا مطلب ہے کہ اس مسودے کو ویٹو نہیں کیا جاسکے گا۔ آئندہ ماہ امریکہ اور دنیا کیلئے اہم ترین ہوں گے جو مستقبل قریب میں واضح کریں گے کہ عالمی نظام رائے عامہ ریاستیں ممالک کا رخ کیا ہوگا۔ اندازہ ہے کہ پابندیوں کے شکار ممالک کوان کے ”خطرناک اقدامات“ پر جواب دہ بنایا جائیگا۔

روس کر سزا دینے کے متعلق پابندیوں کے بل کو بھاری اکثریت سے منظور کیا گیا ردعمل کے طور پر روس نے امریکی سفارتی عملے کی تعداد 1200 سے گھٹا کر 755 تک کرنے کا حکم دیا۔ روس پر پابندیاں ایران و شام کی حمایت سے روکے کیساتھ یوکرائن میں امریکی اثرونفوذ میں رکاوٹ کے طور پر لگائی گئی ہیں لیکن امریکہ کو اس بات کا اندازہ نہیں ہوسکا کہ روس کے ایوان زیریں”ڈوما“ نے امریکہ کیساتھ جوہری ہتھیار بنانے کے پلوٹونیم کے استعمال سے متعلق معاہدے کی معطلی کے بارے میں صدر ولادیمیر پوٹن کے دستخطوں سے بھیجے گئے فرمان کی متفقہ منظوری دی۔

پوٹن کا کہنا تھا کے واشنگٹن کی غیر دوستانہ کاروائیوں کے نتیجے میں اسٹریٹجک استحکام کیلئے خطرات ابھر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ امریکہ روس کی سرحدوں کے قریب تعینات کی جانیوالی فورسز ہٹا لیتا ہے تو روس بھی جوابی پابندیاں ختم کردیگا۔اور معاہدہ بحال کیا جاسکتا ہے ۔ روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریا بکوف نے قانون سازوں کو بتایا کہ اگر واشنگٹن نے روس کے خلاف پابندیوں کو سخت کیا تو ماسکو ایسے اقدامات کرسکتا ہے جو امریکہ کیلئے تکلیف دہ ہونگے۔

قبل ازیں روس نے امریکہ سے جوہری مواد کی تلفی کا معاہدہ معطل کردیا تھا اگر اس معاہدہ پر عملدرآمد ہوتا تو اس سے 17 ہزار جوہری ہتھیار بنانے کیلئے کافی جوہری مواد کو پرامن توانائی کے استعمال میں لانے کے قابل بنایا جاسکتا ہے ۔ روس نے یورینیم کی ریسرچ سے متعلق امریکہ کے محکمہ توانائی کیساتھ اس معاہدے کو ختم کردیا ہے جس کے تحت روس کے انتہائی افزدود گی والے ان چھ جوہری ری ایکٹروں کو کم خطرناک افزدگی والے یورینیم میں تبدیل کرنے سے متعلق ایک مطالعاتی جائزے کو عمل میں لانا تھا۔

کریملن کا کہنا ہے کہ وہ اب ان معاہدوں کو دوبارہ بحال کرنے پر تیار ہے اگر مغرب یوکرائن کے معاملہ سے متعلق اس پر عائد پابندیوں کو اٹھا لیتا ہے اور ان کی تلافی کرتا ہے ۔ روسی قیادت اس بات پر بھی غور کررہی ہے کہ انٹرمیڈیٹ نیو کلیئر فورسز(آئی این ایف INF)جیسے اسلحہ کے کنٹرول سے متعلق سمجھوتوں کو بھی منسوخ کردیا جائے اسی کیساتھ امریکی قیادت والے اتحاد کو جو شام میں عسکریت پسندی میں ملوث ہے روس نے متنبہ کردیا ہے کہ دہشت گردوں کو روسی فورسز کی جانب سے نشانہ بناتے وقت دور رہیں وگرنہ روسی جنگی طیارے ہر اس ہدف کو نشانہ بنائیں گے جسے روس اور شام اپنے لئے خطرہ تصویر کریں گے۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ انہیں خدشہ ہے کہ ایسا کوئی واقعہ اگر پیش آگیا تو صورتحال اور کشیدہ ہوجائیگی ۔ ایران کے معاملہ کا جہاں تک تعلق ہے تو گزشتہ پابندیوں میں ایرانی تیل کی فروخت پر پابندی کیساتھ تجارتی پابندیاں لگائی گئیں جس کا فائدہ ایران کو یہ ہوا کہ اندرونی طور پر تیل سے متعلق پیداوار اور بیرونی تجارتی رکاوٹوں کو اپنے ہی ملک کے اندر بہتر بنا لیا گیا اور جب اوبامہ دور میں برطانیہ فرانس،چین روس اور امریکہ کیساتھ جوہری معاہدہ طے پایا تو تہران کو ان ممالک کے علاوہ دیگر ملکوں سے بھی مبارکباد کے پیغامات موصول ہوئے۔

جو نہی ایران پر اقتصادی پابندیاں ہٹائی گئیں ایرانی تیل اقتصادی ترقی برآمدات میں اضافہ بیروزگاری میں کمی اور افراط زر جیسے مسائل نہ صرف حل ہوئے بلکہ ایران خطہ میں ایک بڑی قوت بن کر ابھرا اور دیکھتے ہی دیکھتے مشرق وسطیٰ میں توازن قوت کو کافی حد تک امریکہ کے پلڑے سے نکال کر شام قطر ،یمن،لبنان اور دیگر ہمسایہ ریاستوں میں امریکی مخالف پلڑے میں ڈال دیا جس کے ردعمل میں امریکی دوبارہ پابندیوں بارے دھمکیوں اور دباؤ ڈالنے کیلئے زور آزمائی کر رہے ہیں لیکن صدر ایران حسن روحانی نے کہا کہ نئی پابندیوں کی شکل میں ایران مہینوں ہفتوں یادنوں میں نہیں گھنٹوں میں جواب دیگا۔

ماضی کی پابندیوں نے ایران کو اس قابل کردیا کہ وہ اپنے پاؤں پر نہ صرف کھڑا ہوگیا بلکہ خطہ کی فیصلہ کن قوت بن کر ابھرا ہے ۔ ابھرتی اس وقت کو کبھی تیل کی زیادہ پیداوار کے نتیجہ میں ایرانی تیل کی عالمی منڈی میں قیمت گرا کر کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی اور اس کی اقتصادی ترقی اور منافع کو محدود کرنے کی لاحاصل حرکت ہوتی ہے جبکہ ایرانی منجمد اثاثے جو امریکی بنکوں میں پڑے ہیں ایران وہ نکالنے کی بات کرتا ہے تو امریکی خائف ہوجاتے ہیں تاہم عالمی معیشت میں ایران کا دوبارہ داخلہ کسی طور پر برداشت نہیں کیا جارہا ۔

حالیہ پاکستان کے بارے صدر امریکہ کی پالیسی واضح طور پر ایران نے پاکستان موقف کی حمایت کی ہے اور امریکہ کو پیغام دیا ہے کہ اب وہ دن گئے جب ایسی حرکتوں سے کام چل جاتا تھا۔ چین،روس نے اس سے قبل پاکستان بارے بعد ازاں پاکستانی قیادت کی جانب سے واضح پیغام کہ امداد کی بجائے اعتمادکی بات کی جائے پاکستان کی قربانیوں کیساتھ خطہ میں اس کی اہمیت کے پیش نظر امریکی دانشور ماہرین، سماجی و معاشی تجزیہ نگار واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ امریکہ واقعی پاکستان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن وہ پاکستان سے مکمل علیحدگی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

پاکستان اب چین ،روس کیلئے بھی اہم ملک بن گیا ہے اور روسیوں نے جنگی مشقوں کیساتھ پاکستان کے اقتصادی مسائل کے حل کیلئے 2.5 ملین ڈالرز کی گیس پائپ لائن کے علاوہ دفاعی ضروریات اقتصادی تعلقات کے حوالے سے پاکستان کو اہم ملک قرار دیا ہے۔ کل کے دشمن آج کے دوست بن رہے ہیں۔ امریکی 5 بلین ڈالر کی امداد کی بجائے چین کی ایک سو دس بلین ڈالر ز کی سرمایہ کاری پاکستان کے لئے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔

چینی ریاست اب امریکی دباؤ سے نکل کر امریکہ کیلئے دباؤ بن گئی ہے۔ چین کو چین میں پھنسانے کے چکر میں امریکہ خود چین میں پھنس گیا ہے۔ وینز ویلا نے اپنے شہریوں کو سوشلسٹ حکومت کے خلاف دوروزہ فوجی تربیت دی جو کہ اگرچہ محض دکھاوا ہے لیکن امریکہ کو واضح پیغام دیا گیا ہے کہ تاریخی لحاظ سے اب امریکی کمزور حکومتوں کو اپنی متکبرانہ بالادستی پر مبنی رعونت آمیز رویہ سے قابو نہیں کرسکتے۔

105 ارب ڈالرز چینی سرمایہ کاری ونرم قرضہ جو کہ لمبی مدت کا ہے، امریکہ کے 5 بلین ڈالرز کی خاطر پاکستان امریکہ کیساتھ مضبوط نہیں ہوسکتا اور نہ ہی بوجھ اٹھا سکتا ہے۔ امریکی شرائط اور ڈومور جیسا ڈرامہ رچائے بغیر چین اربوں ڈالر صرف اس وعدے پر دیتا ہے کہ مستقبل میں پاکستان ان پیسوں کو لوٹا دیگا۔ ٹرمپ کے لئے عقلمندی یہ ہے کہ وہ پاکستان اور روس چین کیساتھ اس خطہ میں تعلقات مضبوط کرے۔

احمقانہ بات یہ ہے کہ خطہ میں ایران،روس،چین ،پاکستان ، وسط ایشیا ایک صفحہ پر ہیں اور وہ پھر اکیلے خطہ کے ایک ملک بھارت کو اہمیت دے رہا ہے جبکہ خود بھارتی ایک حالاک لومڑی کی مانند امریکی احمقوں کیساتھ علاقے کے ممالک میں اپنی ساکھ خراب کرکے امریکہ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں جتے ہوئے ہیں تاہم شرمندگی کے مقام ڈولکم سرحدی علاقے سے چین کیخلاف فوجوں کو واپس بلا کر خود امریکی انتظامیہ کو بھی شرمندہ کیا کہ وہ کس گھوڑے کو تیار کررہے ہیں جو گدھا ثابت ہورہا ہے ۔

دونوں نے ملکر افغانستان میں کتنا امن واستحکام پیدا کیا ہے دونوں ملک خطہ میں بے نقاب اور اکیلے رہ گئے ہیں۔ افغانستان کے حوالے سے پاکستان خطہ کے ممالک میں اثرورسوخ رکھتا ہے لیکن یہ اس نے امریکہ کی حمایت و مدد کے بغیر حاصل کیا ہے۔سوات، فاٹا،خیبر 4 آپریشن، ضرب عضب اور دیگر دہشت گردی کے خلاف کاروائیاں امریکی امداد کے بغیر کی گئی ہیں۔ اس تناظر میں امریکی پابندیوں والے ممالک ایک نئے عالمی اتحاد اور نظام کی جانب بڑھ رہے ہیں اور امریکی پالیسیوں کے خلاف ڈٹ گئے ہیں جس سے ان کی ترقی کے دروازے کھل رہے ہیں ہر پابندی خوشحالی و ترقی لاتی ہے لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ ”شکریہ امریکی پابندیاں“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Pabndiyo ki Americi Palisiya Naye Aalmi Nizzam Ka Janam is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 September 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.