او آئی سی اور عالم اسلا م کے چیلنجز

او۔ آئی۔ سی یہ تنظیم 58 اسلامی ممالک پر مشتمل ہے۔ جس کی مجموعی آبادی دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ ہے۔ اس کا دفتر سعودیہ عرب کے شہر جدہ میں ہے۔ اس تنظیم کی سرکاری زبانیں عربی، انگریزی اور فرانسیسی ہیں۔ اس تنظیم کو اقوام متحدہ میں باضابطہ نمائندگی دی گئی ہے اور اس کا نما ئندہ وفد اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں موجود رہتا ہے

منگل 23 مئی 2017

OIC Or Alam Islam K Challenges
ریحانہ عطاء :
او۔ آئی۔ سی یہ تنظیم 58 اسلامی ممالک پر مشتمل ہے۔ جس کی مجموعی آبادی دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ ہے۔ اس کا دفتر سعودیہ عرب کے شہر جدہ میں ہے۔ اس تنظیم کی سرکاری زبانیں عربی، انگریزی اور فرانسیسی ہیں۔ اس تنظیم کو اقوام متحدہ میں باضابطہ نمائندگی دی گئی ہے اور اس کا نما ئندہ وفد اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں موجود رہتا ہے۔

تنظیم کے تمام اسلامی ممالک دنیا کے مختلف خطوں یا حصوں مثلاً مشرق وسطیٰ ، براعظم افریقہ ، وسطی ایشیا، حطنہ بلقان، جنوب مشرقی ایشیاء اور جنوبی ایشیاء میں واقع ہیں۔ چھ ممالک کو اس تنظیم میں مبصر کی حثیت حاصل ہے۔ ان میں بوسنیا ، جمہوری وسطی افریقہ، شمالی قبرص، تھائی لینڈ، روس اور سربیا۔ امت مسلمہ کو متحد کرنے کی دنیا بھر میں اجتماعی کوششیں تقریباً انیسو یں صدی سے ہی جاری ہیں۔

(جاری ہے)

جن کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان ملکوں کے سیاسی، اقتصادی اور سماجی مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔ مختلف اسلامی ممالک میں مختلف سیاسی نظریات کے باوجود تمام ممالک نے او۔ آئی۔ سی کی تشکیل میں بھرپور کردار ادا کیا۔ یہ تمام اسلامی ممالک کے اجتماعی تعاون کی وجہ سے وجود میں آئی۔ تنظیم کی تشکیل کا پس منظر یہ ہے کہ یو رشلم/ بیت المقدس (فلسطین/ اسر ائیل) میں مسلمانوں کے متعدد مقدس مقامات چھین لیے گئے۔

1969ء میں 21اگست کو ایک انتہائی ناخو شگوار اور سنگین واقعہ پیش آیا۔ ایک اسرائیلی انتہا پسند نے مسلمانوں کی مقدس زیارات کو نقصان پہنچایا۔ جس پر عالم اسلام میں غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ اس واقعہ کے بعد عالم اسلام کے رہنما اور سربراہان مراکش کے شہر رباط میں جمع ہوئے۔ جس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ مسلمان ممالک کو سیاسی، اقتصادی، سماجی، ثقافتی اور سائنسی شعبوں میں متحد کر نے کے لیے اجتماعی کوشش کی جائے اور مسلمانوں کے درمیان یکجہتی کو فروغ دیا جائے۔

ان مقاصد کے حصول کے لیے اسلامی ممالک کی اسلامی ممالک کی کانفرنس کے نام سے ایک تنظیم بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ 25ستمبر 1969ء کو او۔آئی۔ سی ممالک کی کانفرنس کے نا م سے وجود میں آ گئی۔ تنظیم کے منشور کے مطابق دنیا میں مسلمانوں کو اقتدار کا تحفظ کیا جا ئے گا۔ رکن ممالک کے درمیان یکہجتی کو فروغ دیا جائے گا۔ سماجی، اقتصادی، ثقافتی، سائنسی اور سیاسی شعبوں میں باہمی تعاون کو فروغ دیا جائے گا اور تعلیم خاص سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔

اکتو بر 1973ء میں عرب ممالک اور اسرائیل جنگ ہو ئی۔ جس کے تقریباً چھ ماہ بعد 1974ء میں لاہور میں تنظیم کا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں فلسطینیوں کی تنظیم ا?زادی کو پہلی بار فلسطینیوں کی تنظیم آزادی کو پہلی بار فلسطینیوں کی واحد قانونی نمائندہ تنظیم کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ اس عرب اسرائیل جنگ کے مو قع پر پہلی بار سعودی عر ب نے اپنے تیل کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔


یہ پہلا موقع تھا کہ تیسری دنیا کے ممالک نے اپنے کسی انتہائی اہم مسئلے کے حل کے لیے مخالف طاقتوں کو ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ 1999ء میں اس تنظیم کا ایک اجلا س ہوا جس میں تنظیم نے بین الاقوامی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کنونشن کی منظوری دی اپریل 2000ء میں ملائشیا میں تنظیم کا ایک اور اجلاس ہوا جس میں دہشت گردی کے خا تمے سے متعلق امور پر غور کیا گیا۔

لیکن اجلاس میں دہشت گردی کی تعریف پر اتفاق نہ ہو سکا۔تاہم اس اجلاس میں یہ بات واضح کر دی گئی کہ اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی جہدوجہد کو دہشت گردی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ بھی واضح کر دیا گیا کہ اسرائیل فلسطینیوں کو کچلنے کے لیے جو فوجی کارروائیاں اور حملے کر رہا ہے یہ ریاستی دہشت گردی ہے اور اس کی شدید مذمت کی گئی۔ تنظیم نے فلسطین کے علا وہ کشمیر کے مسئلے پر بھی ایک واضح موقف اختیار کیا۔

او۔آئی ۔سی کا موقف یہ ہے کہمسئلہ کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ نے جو قراردادیں منظور کی ہیں ان پر عمل کیا جائے۔ تنظیم کے اس موقف کی وجہ سے بھارت او۔ آئی۔ سی پر تنقید کرتا ہے۔مسئلہ کشمیر دو طرفہ ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ جس پر بھارت اور پاکستان دونوں ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ اگر ہم او۔ آئی۔ سی تنظیم کی گزشتہ چند دہائیوں کے دوران کارکردگی کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ رکن ممالک نے اپنے ہی منظور کردہ اور طے کردہ مقاصد کو پورا کرنے میں اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں اور قراردادودں کے سوا عملی اقدامات نہیں کیے۔

مقاصد کے حصول کے لیے کوئی کامیابیاں حاصل نہیں کیں اور ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ان کے سارے دعوے لفظی اور زبانی تھے۔ عملی طور پر انہوں نے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے۔ جب یہ تنظیم تشکیل دی گئی تو اس وقت کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ اسلامی ممالک کے در میان یکجہتی کو فروغ دیا جائے۔ جس کی وجہ سے اس تنظیم کی مجموعی کارکردگی کا نقصان پہنچا۔ امت مسلمہ کے اجتماعی مفادات کا تحفظ کر نے کے بجائے رکن ممالک اپنے اپنے مفادات کے لیے کام کرتے رہے جس سے تنظیم کی صلاحیت اور کارکردگی پر برا اثر پڑا۔

اسلامی ممالک کے مفادات کا تحفظ نہیں کیا جا سکا۔ ان کو فروغ نہ دیا جا سکا، تاہم تنظیم نے دہشت گردی کی ایک متفقہ تعریف واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ دہشت گردی اور آئینی طور پر جہدوجہد آزادی میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ تنظیم کا یہ موقف ہے کہ قوموں کو حق خودارادیت دینے سے انکار کی وجہ سے دنیا میں دہشت گردی جنم لیتی ہے۔ دہشت گردی کی بین الاقوامی مسلمہ تعریف نہ ہونے کے وجہ سے عالم اسلام کو زیادہ نقصان پہنچا ہے۔

کیونکہ تاریخ میں دو بڑے واقعات ایسے رونما ہوئے جس سے مسلمان متاثر ہوئے ہیں۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دہشت گردی کا بہانہ بنایا اور افغانستان اور عراق پر حملے کئے۔ انہیں کھنڈر بنا دیا۔ اس کے علاوہ اسلامی ممالک کے باہمی نفاق کی وجہ سے عالم اسلام کے اتحاد کو نقصان پہنچا ہے اور اسلامی ممالک کی تنظیم کی کارکردگی متاثر ہوئی ہے۔

جب تنظیم کا اجلاس ہوتا ہے تو وہاں تمام ممالک ہم آہنگی اور یکجہتی کی حمایت میں پرجوش تقریریں کر تے ہیں۔ لیکن عملاً نفاق اور فروعی اختلافات میں الجھے ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اجتماعی اتحاد کے لیے کوئی عملی اقدام نہیں کرتے ہیں۔ مشرق وسطی میں اس کی بعض افسوس ناک مثالیں ملتی ہیں۔ خلیج فارس کے خطے میں جب امریکہ اور اس کے اتحادیو ں نے عراق پر حملہ کیا تو ہمسایہ مسلم ممالک نے ہی ان کو اڈے فراہم کیے۔

جس طر ح امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے عر اق پر حملہ کر کے اس کو تباہ کیا۔ خدشہ ہے کہ وہ اس طر ح دہشت گردی کا بہانہ بنا کر ایران اور شام کے خلاف بھی فوجی کارروائی کر سکتا ہے۔ اْمت مسلمہ کو اس وقت کئی سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے او آئی سی کو اقدامات کر نے ہونگے۔ یہ تنظیم ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جس کو اپنے اقدامات کے لیے اپنے رکن ممالک کی منظوری لینی پڑتی ہے۔

یہ مسائل کے حل کے لیے خود مختاری کے ساتھ خود کوئی اقدامات نہیں کر سکتے۔ امت مسلمہ کو متعدد سنگین مسائل کا سامنا ہے ان میں سے چند ایک اہم مسائل یہ ہیں۔
1۔ سب سے سنگین اور خوفناک چیلنج یہ ہے کہ بڑی طاقتیں اسلام کے خلاف ایک گھناؤنا پروپیگنڈہ کر رہی ہیں کہ اسلام عدم رواداری اور دہشت گردی کا دوسرا نام ہے۔ جبکہ اسلام امن کا مذہب ہے و ہ مغربی طا قتوں یا بین الاقوامی برادری کے کسی بھی حصے کے خلاف خطرہ نہیں ہے۔

مسلمان ممالک تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ اور پرامن تعلقات رکھنے کے حامی ہیں۔ لیکن وہ دوسروں کی بالادستی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اور نہ ہی وہ دوسروں کے زیر اثر رہنے کے لیے تیار ہیں۔ او آئی سی کا دہشت گردی کے بارے میں موقف واضح ہے۔ یہ تنظیم ہر صورت کی دہشت گردی کی مذمت کرتی ہے۔
2۔ او آئی سی کو ایک اور مسئلہ ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے بارے میں ہے۔

بد قسمتی سے اس معا ملے میں ہد ف صر ف صر ف مسلما ن مما لک ہیں اور مغر بی طا قتو ں اور بین الا قو امی بر ادری کے کسی بھی حصے کے خلاف خطر ہ نہیں ہے۔ مسلما ن مما لک اپنے تما م ہمسا یہ مما لک کے سا تھ دو ستا نہ اور پر امن تعلقا ت رکھنے کے حامی ہیں۔ لیکن وہ دوسر و ں کی با لادستی قبو ل کر نے کے لیے تیا ر نہیں۔ اور نہ ہی و ہ دوسر وں کے زیر اثر رہنے کے لیے تیا ر ہیں۔

او آئی سی کا دہشت گر دی کے بار ے مو قف و اضح ہے۔ یہ تنظیم ہر صور ت کی دہشت گر دی کی مذمت کر تی ہے۔
3۔ تنظیم کے رکن مما لک جب کسی بڑے اجتما عی یا کا نفر نس میں کسی بھی مسئلے پر قر ارداد منظور کر تے ہیں تو وہ متفقہ طور پر مو قف ہو تا ہے لیکن بد قسمتی سے یہی ر کن مما لک عملا ایک دوسرے کے ستا تھ تعا ون نہیں کر تے اور متفقہ طور پر منظور شد ہ قر اردادوں پر عمل نہیں کر تے۔

چنا نچہ تنظیم آگے نہیں بڑ ھ سکتی۔ اسی و جہ سے یہ قر اردادیں بے اثر اور بے سو د ثا بت ہو تی ہیں۔اس لیے او آئی سی کے با رے میں یہ تا ثر پیدا ہو گیا ہے کہ اس کی قر اردادیں بے اثر اور بے سو د ثا بت ہو تی ہے۔ اس لیے او آئی سی کے بار ے میں یہ تا ثر پید ا ہو گیا ہے کہ اس کی قر اردادیں محض لفا ظی ہیں اور یہ عمل درآمد کر نے کے لیے نہیں ہیں۔ قر اردادوں کی اہمیت ختم ہو جا تی ہے۔

جب تک تنظیم کے رکن مما لک کے رویے میں و اضح اور بنیا دی تبد یلی نہیں آئے گی وہ سر د جنگ کے خا تمے کے بعد پید ا ہو نے و الے چیلنچر کا مقا بلہ نہیں کر سکتے۔
4۔ایک اور چیلنج مسلمانو ں کی اپنی کمزوری ہے۔ مذہبی انتہا پسندی کی بھرپور مذمت تو کی جاتی ہے مگر اسے عالم اسلام کے تمام مسائل اور مصائب کی جڑ قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن ہم بدقسمتی سے اسلام کے بتائے ہوئے رواداری، برداشت اور تحمل کے راستے پر چلنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔

ہم انتہا پسندی میں الجھے ہو ئے ہیں۔ کہتے ہیں انتہا پسندی بْری ہے مگر کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اعتدال کا راستہ اسلام کا راستہ ہے مگر ہم بدقسمتی سے اسلام کے بتائے ہوئے رواداری، برداشت اور تحمل کے راستے پر چلنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ اْمت ِمسلمہ کو درپیش مسائل سے نمٹنے کے لیے او آئی سی کو عملی اقدامات کرنے چاہئیے۔ یہ اقداما ت زندگی کے مختلف شعبو ں میں ہو سکتے ہیں۔

لیکن جد ید دور کے تقا ضو ں کے مطا بق اسے تین نکا تی ایجنڈے پر عمل کرنا چاہیے۔
1۔اس وقت عا لم اسلا م فکر و دانش کے شعبے میں پیچھے رہ گیا ہے۔ پو رے یو رپ میں مسلما نو ں کو اور اسلام کو انتہا پسند کہا جا تا ہے۔ اہل دا نش کی تعد اد نہ ہو نے کے بر ا بر ہے۔ضروری ہے کہ غو ر و فکر کر نے والے لو گو ں کو اکٹھا کیا جا ئے اور ان کو یو رپ میں بھیجا جا ئے تا کہ و ہا ں جا کر کام کر یں۔

آرٹیکل لکھیں ، تقر یر یں کر کے ان کو بتا ئیں کہ عا لم اسلام کے مسا ئل کیا ہیں۔ یو رپ اور امر یکہ کے مختلف شہر وں میں اسلا می سکالر ز کو دفا تر بنا کر دیں تاکہ وہا ں جا کر ان کے سیا سی لیڈروں سے ملیں۔ وہا ں اخبا رجا ری کر یں۔ اور تشہیر کا کا م کر یں۔
2َ۔او آئی سی کو عا لم اسلا م کے مسا ئل سے نمٹنے کے لیے ایک اربو ں ڈالر فنڈ قا ئم کر نا چا ہیے یا ایک ایسا ما حو لیاتی ادارہ قا ئم کر نا چا ہیے جس کے پا س اربو ں ڈالر ہو ں۔

جو مسلما ن طلبہ کی اعلٰی تعلیم کے لیے اقد اما ت کر ے اور ذہین طلبہ کے لیے سا ئنس و ٹیکنا لو جی کے شعبے میں تحقیق اور تعلیم و تر بیت کی سہو لتیں فر اہم کر ے۔ ایسے اقد اما ت کیے جا ئیں جن سے وہ اپنے مما لک میں مغر بی مما لک کے اہم تعلیمی ادار وں میں تعلیم حا صل کرسکیں۔
3۔تین چا ر ایسے شعبہ جا ت ہیں جو عا لم اسلا م کے لیے بڑ ا دما غ بن گئے ان میں ایک دہشت گر دی ہے یعنی ہما ر ا وہ دین جو امن، بھا ئی چا رہ اور رحم دلی کے مذہب بنا دیا گیا ہے۔

مسلما نو ں کو وحشی اور دہشت گر د قر ار دیا جا تا ہے۔ بد قسمتی سے مسلما ن مختلف خطو ں میں رہتے ہیں لیکن آپس میں الجھے ہو ئے ہیں۔ مثلا یمن اور سعودی عر ب ، لبنا ن اور فلسطین عا لم اسلا م علا قا ئی تنا زعا ت میں الجھا ہوا ہے ۔ مقبو ضہ کشمیر میں حز ب المجا ہد ین مقا می کشمیر یوں کی جما عت ہے جو اپنی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں ۔امر یکہ انہیں دہشت گرد ی کی تنظیم قر ار دے دیا ہے۔

کسی کشمیری مسلما ن نے کبھی امر یکہ یا امر یکی پر حملہ نہیں کیا لیکن افسو س ان کو دہشت گر د دے دیا گیا۔ وہ اپنے علا قوں میں آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں ، مگر پھر بھی اْن پر دہشت گر دی کا الزام لگا یا گیا ہے۔ اسی طر ح ایک اور مثال مجا ہد ین خلق آرگنا ئز یشن کی ہے۔ جس کے سا تھ امر یکہ نے ایک خفیہ معا ہد ہ کیا ہو ا ہے تا کہ ایران کے خلاف اسے استعما ل کیا جا سکے۔ ایر ان کی سر حد عبور کر کے دہشت گر دی کے حملے کر ائے جا تے ہیں ۔ یہ وہ تنظیم ہے کہ جس کو 1997ء میں امر یکہ ہی نے دہشت گرد تنظیم قر ار دے کر پا بند ی لگا دی تھی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

OIC Or Alam Islam K Challenges is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 May 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.