نظام تعلیم و امتحان، چند تلخ حقائق

قومی زندگی کے مسائل پاکستان میں سب سے اہم اور حساس مسئلہ نئی نسل کی تعلیم و تربیت ہے۔ سچ یہ ہے کہ سب سے زیادہ خرابی اور بگاڑ کا شکار بھی یہی شعبہ ہے۔

بدھ 20 دسمبر 2017

Nizam e Taleem o Imtehan Chand Talakh Haqaiq
قومی زندگی کے مسائل پاکستان میں سب سے اہم اور حساس مسئلہ نئی نسل کی تعلیم و تربیت ہے۔ سچ یہ ہے کہ سب سے زیادہ خرابی اور بگاڑ کا شکار بھی یہی شعبہ ہے۔ انگریزی کے شاعر ورڈزورتھ نے اپنی ایک نظم میں کہا تھا ترجمہ”آج کا بچہ آنے والی کل کو باپ بنے گا اور انفرادی سطح پر خاندان اور اجتماعی حیثیت سے ملک و قوم کی ذمہ داریاں پوری کرے گا“ تاریخ بتاتی ہے زندہ قوموں نے ماضی کے ہر دور میں کارگاہ حیات میں تازہ قدم رکھنے والے نونہالوں کی تعلیم و تربیت کی طرف خاص توجہ دی۔

اس حوالے سے جب ہم اپنے ملک و قوم کے حالات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو بے حد دکھ ہوتا ہے کہ ایک زندہ نظریات اور توانا تاریخ رکھنے والی قوم ہر شعبہ زندگی میں پستی کے گڑھے میں گری ہوئی ہے ۔ حصول آزادی سے پہلے انگریز کی غلامی نے سب کچھ چھین لیا۔

(جاری ہے)

انگریز نے یہاں اپنا نظام تعلیم رائج کیا جس کے نتیجے میں ایسی نسلیں تیار ہوئیں جو انگریز کے طرز فکر و احساس کی روشنی میں پروان چڑھیں ۔

افسوس70 سال بیت گئے لیکن ہم نئی نسل کے لئے قومی امنگوں ور مستقبل کے تقاضوں کو مدنظر رکھنے والا نظام تعلیم وضع نہیں کر سکے۔ بنیادی طور پر یہ ریاست کی ہیئت مقتدرہ کی ذمہ داری تھی لیکن سیاستدانوں نے قومی مقاصد کو پیش نظر نہیں رکھا بلکہ ذاتی اغراض کی تتلیوں کے پیچھے بھاگتے رہے۔ نظام تعلیم کی عمارت چار ستونوں پر استوار ہے۔ نصاب کی درجہ بدرجہ تیاری، درس و تدریس، امتحان کا انعقاد، جوابی کاپیوں کی جانچ پڑتال اور شفاف نتائج کی تیاری۔

اس ضمن میں اہم ترین بات ”سب کے لئے یکساں نظام تعلیم“ ہے۔ یہی تعلیم کا جوہر خاص ہے جسے ہمیشہ یکسر نظرانداز کیا گیا۔ اس کا بنیادی سبب رائج طبقاتی نظام ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں صدیوں سے سرایت ہو چکا ہے۔ تمیز بندہ و آقا کا فساد بڑھتے بڑھتے ملوکیت ‘ جاگیر داری اور سرمایہ داری میں صورت پذیر ہوا۔ زندگی کے ہر شعبے میں جاگیر و سرمایہ کا قبضہ و تسلط قائم ہو گیا۔

زندگی کی تمام راحتیں اشرافیہ کو میسر آئیں۔ طبقاتی نظام میں تعلیم کے درجات مقرر ہو گئے۔ اول درجہ کے اشرافیہ یورپ کی اعلیٰ درس گاہوں میں تعلیم و تربیت پاتے ہیں۔ دوسرے درجے کے شرفاء یورپی طرز کے مہنگے تعلیمی اداروں میں پڑھتے اور پھلتے پھولتے ہیں۔ تیسرا سفید پوش طبقہ ہے جو سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کرتا ہے۔ ان کے بچے دفتروں ‘ فیکٹریوں‘ کارخانوں کے کل پرزے بنتے ہیں اور مین پاور فراہم کرتے ہیں۔

چوتھا طبقہ مزدوروں ‘ کسانوں کا ہے جسے دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ ان کے بچے گلی کوچوں میں پھرتے ہیں۔ مزدور کا بچہ مزدور اور کسان کا بچہ کسان ہی بنتا ہے۔ اس اعتبارسے سب کے لئے یکساں نظام تعلیم ایک خواب ہے۔ یہ محض ایک نعرہ ہے جو اشرافیہ سیاستدان اقتدار کی سیڑھی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔اب آئیے نصاب کی طرف۔ اشراف کے بچے یورپی درس گاہوں کے نصابات پڑھتے ہیں جب وہ فارغ التحصیل ہو کر وطن میں آتے ہیں تو انہیں یہاں ہر شے میلی اور گندی نظر آتی ہے۔

عام سفید پوش طبقے کے بچے مغربی اور مشرقی اقدار کا ملغوبہ نصاب پڑھتے ہیں۔ ان کا منتہائے نظر نوکری کی تلاش ہے۔ یہ آدھا تیتر آدھا بٹیر قسم کا نوجوان ہے۔ اس کی شخصیت اعتماد سے خالی ہوتی ہے اور کردار تضادات کا مجموعہ۔ چوتھے طبقے کے بچوں کیلئے تعلیم شجر ممنوعہ ہے۔ معاشرے کا غالب حصہ اسی طبقے پر مشتمل ہے۔ نظام امتحان میں اشرافیہ کے امتحانات اور نتائج کی درجہ بندی یورپی اداروں میں ہوتی ہے۔

پاکستانی اداروں کا نظام امتحان نت نئے تجربات کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک امتحانی مراکز بکتے تھے۔ بوٹی مافیا عروج پر تھا۔ ناجائز ذرائع سے نمبر لگوانے کی روش عام تھی۔ نتائج میں تبدیلی اور اعلیٰ درجہ بندی کا حصول بے حد آسان تھا۔ سنا ہے اب یہ ناجائز وسائل ختم ہو گئے ہیں ۔خدا کرے ایسا ہی ہو۔ چند سال پہلے حکومت نے میڈیکل ، انجینئرنگ اور دیگر اعلیٰ فنی اداروں میں داخلے کیلئے این ٹی ایس کا ادارہ قائم کیا۔

بظاہر یہ محفوظ نظر آتا ہے لیکن گزشتہ سال کچھ بھیانک اطلاعات منظر عام پر آئی ہیں۔ یہ ادارہ پرائیویٹ سیکٹر کے انصرام میں دے دیا گیا جس کی سرپرستی انتہائی بااثر شخصیات کرتی ہیں۔ میڈیکل انجینئرنگ کے انٹری ٹیسٹوں میں بے قاعدگیوں کے انکشافات سامنے آئے۔ ملک میں کرپشن اداروں کو دیمک کی طرح اندر ہی اندر چاٹ رہی ہے۔ این ٹی ایس میں ہونے والی کرپشن میں کروڑوں اربوں روپے کا کاروبار ہوا۔ میڈیا پر تفصیلات نہایت تفصیل سے آ چکی ہیں۔ دکھ اس بات کا ہے کہ حقائق سے سب آگاہ ہیں لیکن سب چپ ہیں۔ ان دنوں ہر طرف احتساب کا بہت چرچا ہے۔ خدا جانے احتساب کے ارباب بست و کشاد کون سے نمبر کی عینک استعمال کرتے ہیں۔ انہیں اصل کرپشن نظر ہی نہیں آتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Nizam e Taleem o Imtehan Chand Talakh Haqaiq is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 December 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.