نواز شریف کے ڈٹ جانے پر ”جیالے“ حیران!

پیپلز پارٹی کے کارکن اپنی قیادت کی پالیسیاں سمجھنے سے قاصر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا بھٹو اور بے نظیر کے راستے پر زرداری نہیں نواز شریف چل رہے ہیں؟

بدھ 6 دسمبر 2017

Nawaz Sharif K Dat jany pr Jyaly Hyrann
سالک مجید:
ہر دور آمریت میں جمہوریت کے لئے بے مثال جدوجہد کی شاندار تاریخ رکھنے والی پیپلز پارٹی کے نظریاتی کارکن اور سینئر جیالے حیران ہیں کہ نواز شریف ڈٹ گیا ہے اس کی توقع انہیں بالکل بھی نہیں تھی کیونکہ پیپلز پارٹی کی قیادت تو اپنے کارکنوں کو یہی بتاتی آئی ہے کہ نواز شریف سیاسی قائد نظریاتی سیاستدان نہیں بلکہ ضیاء آمریت کی باقیات ہے اور اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے تعاون کے بغیر سیاست نہیں کرسکتا۔

1999ء میں بھی حکومت کے خاتمے کے بعد جیل کی سختیاں برداشت کرنے کی بجائے سعودی سے سفارش کراکر جدہ چلا گیا تھا اور یہ شریف خاندان سختیاں بردداشت نہیں کرسکتا حکومت کے بغیر پاکستان میں رہ بھی نہیں سکتا لیکن اب جو اسٹینڈ نواز شریف نے لے لیا ہے اس نے جیالوں کو حیران کردیا ہے، وہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے جو لڑائی پیپلز پارٹی کی میراث تھی وہ ان سے نواز شریف اور مسلم لیگ (ن)نے چھین لی ہے اور ایسا اس لئے ہورہا ہے کہ آصف زرداری نے بھٹو خاندان کی پالیسی سے یوٹرن لے لیا ہے اور اب سیاسی منظر نامہ ایسا ہے کہ پیپلز پارٹی کی جگہ مسلم لیگ (ن) نے لے رکھی ہے اور پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ سے یارانہ بڑھانے میں مصروف ہے ۔

(جاری ہے)

سیاسی حلقوں میں اس دلچسپ صورتحال پر مختلف تبصرے جاری ہیں عام تاثر ہے کہ پیپلز پارٹی کو لالی پاپ مل گیا ہے کہ 2018ء کے سیٹ اپ میں پی پی کا کردار اہم ہوگا۔ جیالے پی پی قیادت کی موجودہ پالیسیوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں سینئر جیالے سمجھتے ہیں کہ آصف زرداری اپنے خاندان ، اپنی ہمشیرہ اور اپنے قریبی ساتھیوں کو تحفظ دلانے کی خاطر مقتدر حلقوں کو خوش کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے آمادہ ہیں اس لئے انہوں نے نواز شریف سے ملاقات کرنے سے صاف انکار کررکھا ہے اور ہاتھ ملانے سے گریزاں ہیں۔

سندھی میڈیا اور سندھی دانشور بھی کھل کر کہہ رہے ہیں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر کے راستے پر اس وقت آصف زرداری نہیں بلکہ نواز شریف چل رہے ہیں۔ غیر جمہوری قوتوں کے سامنے ڈٹ جانا پیپلز پارٹی کی شان ہوئی تھی لیکن اب یہ منظر بدل چکا ہے اور نواز شریف ملک میں نئی سیاسی تاریخ رقم کررہے ہیں ۔ قومی اسمبلی میں نواز شریف کے ہاتھوں پیپلز پارٹی کو جوشکست ہوئی ہے اس پر بھی پیپلز پارٹی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور پوچھا جارہا ہے کہ اگر پیپلز پارٹی کی قیات کو پتہ تھا کہ نمبرز گیم میں ووٹ کم پڑیں گے تو پھر قومی اسمبلی میں بل پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی۔

بہتر ہوتاسینٹ میں کامیابی حاصل کرلینے کے بعدفی الحال انتظار کیا جاتا اور قومی اسمبلی کا آپریشن کھلا رکھا جاتا ہے اس طرح مسلم لیگ (ن)کی قیادت پر بھی دباؤ قائم رہتا ہے کہ کسی بھی وقت بل لایا جاسکتا ہے ۔ قومی اسمبلی میں جس بھاری مارجن سے مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی اور اس بل کی حامی قوتوں کو شکست دی اس پر کہا جارہا ہے کہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ نواز شریف نے مخالفین کو حیران کردیا ہے اور وہ بازی جیت گئے ہیں کم از کم قومی اسمبلی کے پلیٹ فارم پر انہوں نے تمام مخالف حربوں ، ہتھکنڈوں اور سازشوں کو ناکام بنادیا ہے۔

اور وہ تمام اراکین قومی اسمبلی جنہوں نے نواز شریف کے حق میں کھلی حمایت کا اعلان کردیا ہے اور جن کے بارے میں عمران خان کا کہنا ہے کہ انہیں شرم سے ڈوب مرنا چاہئے وہ دراصل سیاسی تاریخ کے اس اہم موڑ پر مسلم لیگ (ن) کے ہیرو بن کر سامنے آئے ہیں اور اس لئے مریم نواز شریف نے کہا ہے کہ ان اراکین قومی اسمبلی نے خوف کو شکست دیدی ہے، یہ سب مبارکباد کے حق دار ہیں۔

رانا ثناء اللہ اور صدیق الفاروق نے بھی پی پی اور تحریک انصاف کی قیادت اور عمران خان کو براہ راست جواب دے دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر بدکردار اور کرپٹ شخص پارٹی کا سربراہ بن سکتا ہے تو اہل کیوں نہیں۔ ٹی وی شو میں صدیق الفاروق نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ عمران خان پر ٹیریاں کے والد ہونے کا الزام ہے ان کوتو سنگسار ہونا چاہیے وہ پارٹی سربراہ بنے بیٹھے ہیں ان کا دفاع کرنے والے پی ٹی آئی اراکین کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے ۔ دھرنا سیاست نے بھی عوام کو بہت پریشان کیا ہے راستے روکنے والوں کے کوائف جمع کرکے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Nawaz Sharif K Dat jany pr Jyaly Hyrann is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 December 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.