نیکی کا صلہ

رحمت بائیس سال کا جوان آدمی تھال؛ گاوٴں میں اس کی ماں اور تین چھوٹے بہن بھائی تھے جن کا وہ واحد کفیل تھا؛ گاوٴں میں روزگار نہ ملنے کی وجہ سے وہ قسمت آزمائی کیلئے شہر آ گیا؛ کچھ دن کی دربدری کے بعد اسے ایک ظالم شخص کے ہاں ملازمت مل گئی؛ اس کا مالک اسے بات بے بات گھونسوں اور لاتوں پر رکھ لیتا؛ اُس دن تو حد ہی ہو گئی جب اس نے رحمت کے منہ پر جوتیاں برسا دیں حالانکہ

منگل 6 جون 2017

Naiki Ka Sila
بابر جاوید:
رحمت بائیس سال کا جوان آدمی تھال؛ گاوٴں میں اس کی ماں اور تین چھوٹے بہن بھائی تھے جن کا وہ واحد کفیل تھا؛ گاوٴں میں روزگار نہ ملنے کی وجہ سے وہ قسمت آزمائی کیلئے شہر آ گیا؛ کچھ دن کی دربدری کے بعد اسے ایک ظالم شخص کے ہاں ملازمت مل گئی؛ اس کا مالک اسے بات بے بات گھونسوں اور لاتوں پر رکھ لیتا؛ اُس دن تو حد ہی ہو گئی جب اس نے رحمت کے منہ پر جوتیاں برسا دیں حالانکہ قصور مہمانوں کے ساتھ آئے بچے کا تھا جس نے پانی سے بھرا جگ کھانے کی میز پر گرا دیا تھا۔


رحمت کا ضبط جواب دے رہا تھا؛ اس نے آس پاس گز رتے لوگوں سے نظریں چراتے ہوئے اپنی رفتار تیز کر دی؛ پھر اچانک ایک گلی میں مڑ گیا جو نسبتاً سنسان تھی؛ ادھر اُدھر دیکھنے کے بعد ایک دیوار کی طرف منہ کر کے دھاڑیں مار مار کر رونے لگا؛ وہ سوچ رہا تھا کہ کیا غریب ہونا کوئی جرم ہے جس کی اُسے سزا مل رہی ہے؟ کیا ساری زندگی اُسے عذاب بھگتنا ہوگا؟ پھر وہ آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے اللہ سے فریاد کرنے لگا کہ وہ اس کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔

(جاری ہے)


جی ہلکا ہونے کے بعد وہ دوبارہ گلی سے نکل کر بازار کی بھیڑ کا حصہ بن گیا۔ وہ ایک ویسا ہی گلاس خریدنے جا رہا تھا تھا جیسا اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر گیا تھا؛ اس کے مالک نے گلاس ٹوٹنے کی پاداش میں پہلے تو اسے تھپڑ مارے اور بعد میں حکم دیا کہ وہ ویسا ہی گلاس اپنے پلے سے لا کر کچن میں رکھے۔ کچھ دیر کی تگ و دو کے بعد اسے ویسا ہی گلاس مل گیا جیسا اس کے ہاتھوں ٹوٹا تھا؛ وہ گلاس خرید کر اطمینان کا سانس لیتے ہوئے تیز قدموں کے ساتھ گھر کی طرف روانہ ہوا؛ اُسے ڈر تھا کہ دیر ہونے کی وجہ سے بھی اس کی پٹائی ہو سکتی ہے۔


اپنی گلی میں داخل ہوتے ہی اُسے کسی گڑ بڑ کا احساس ہوا؛ گلی دھوئیں سے بھری ہوئی تھی؛ صورت حال کا جائزہ لینے کیلئے وہ کھانستا ہوا آگے بڑھا تو اس پر واضح ہوا کہ اس کے مالک کے گھر کا گھر آگ کی لپیٹ میں ہے؛ محلے دار پانی کی بالٹیاں اپنے اپنے گھروں سے لاکر آگ بجھانے کی کوشش کر رہے تھے؛ فائر بریگیڈ ابھی نہیں پہنچا تھا؛ مالک کے بیوی بچے تو گرمی کی چھٹیاں گزارنے ننھال گئے ہوئے تھے لیکن مالک گھر میں ہی تھا اور دوپہر کے وقت اُسے سونے کی عادت تھی۔


”میرا مالک باہر آیا یا نہیں“ اُس نے ایک ہمسائے سے پوچھا۔
” نہیں، وہ اندر ہی ہے؛ ہم نے اُس کی چیخیں بھی سنی ہیں جو اب نہیں آ رہیں۔“ ہمسائے نے دکھ بھرے لہجے میں بتایا۔
”اچھا ہے جل مرے؛ قدرت اس سے اس کے ظلموں کا حساب لے رہی ہے“ ایک لمحے کیلئے رحمت کے ذہن میں خیال آیا لیکن اگلے ہی لمحے اُس نے زیر لب بڑبڑاتے ہوئے اپنی قیض اتار دی ”مالک میرے ساتھ جو کرتا رہا وہ اس کا ظرف تھا؛ میرا فرض ہے کہ میں مرتے ہوئے انسان کی جان بچاوٴں۔


پھر لوگ اُسے روکتے ہی رہ گئے لیکن وہ بجلی کی سی تیزی کے ساتھ شعلوں میں گم ہو گیا۔ اُس کا مالک اُسے بیڈ روم کے دروازے پر بیہوش ملا؛ اس کے کپڑے جل رہے تھے؛ اس کا چہرہ اور حسم بری طرح جھلس چکے تھے؛ رحمت کے کپڑوں نے بھی آگ پکڑ لی تھی لیکن اس نے اس کی پرواہ کیے بغیر مالک کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر بیرونی دروازے کی طرف دوڑ لگا دی؛ جا بجا شعلوں نے اس کا راستہ روکا لیکن وہ جواں مرد جیسے تیسے مین گیٹ پر پہنچ گیا؛ جہاں آکر اس کی ہمت جواب دے گئی اور وہ خود بھی بیہوش ہو کر گر پڑا۔


فائر بریگیڈ اور ایمبولینس بھی اسی اثنا میں پہنچ چکے تھے؛ لوگوں نے دونوں کو ہسپتال پہنچا دیا؛ رحمت کو تو دس دن بعد ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا لیکن مالک کو ڈیڑھ ماہ انتہائی نگہداشت کے شعبے میں رکھا گیا۔ ہوش میں آنے کے بعد مالک کو گھر والوں نے بتایا کہ کس طرخ رحمت کی دلیری کی وجہ سے اسے نئی زندگی ملی۔ مالک نے رحمت کو طلب کیا؛ اس کے سامنے اپنے مظالم پر شرمندگی کا اظہار کیا اور اس کے احسان پر شکر گزار ہوا۔


رحمت کی بڑی بیٹی کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی ”ڈیڈی رحمت سے پوچھیں کہ ہم اسے ملازمت سے نکال دیں گے تو یہ ہمیں یاد بھی کیا کرے گا یا نہیں“وہ اٹھلا کر بولی۔ رحمت متذبذب ہو گیا اور ہکلاتے ہوئے مالک کی طرف دیکھ کر بولا ”صاحب! چھوٹی بی بی کیا کہہ رہی ہیں؛ میری ماں اور میرے بہن بھائی۔۔۔۔“
”انہیں کچھ نہیں ہو گا“ مالک مسکراتے ہوئے بولا ”میں تمہیں نوکری سے ضرور نکال رہا ہوں لیکن مارکیٹ میں جو نئی دکان میں نے خریدی ہے اس کے اوپر والا فلیٹ تمہارے نام کر رہا ہوں۔“ رحمت ہکا بکا رہ گیا؛ آہستہ آہستہ اس کی سمجھ میں آنے لگا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دینے پر آئے تو ایسے ذرائع سے عطا کرتا ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Naiki Ka Sila is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 June 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.