نادرا کی نئی پالیسی

خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ کا اجراء تصدیق کا اختیار گُرو کودیدیا

پیر 25 ستمبر 2017

Nadra ki Nai policy
سلمان احمد:
قدرت کی جانب سے بعض مردوں میں کچھ حد تک نسوانیت اور بعض خواتین میں مرادنہ پن پایا جاتا ہے اس قسم کے انسانوں کو ہمارے معاشعرے میں خواجہ سراء ہیجڑے کے نام دیئے گئے اور قدرت کی عطا ء کردہ اب خاصیتوں کی وجہ سے اس معاشرہ کے ہی انسان ان کو خود سے کم تر تصور کرتے ہیں اور انہیں حقارت کی نظر سے بھی دیکھا جاتا ہے ۔

ستم ظریفی کی ماری ہوئی یہ مخلوق کرہ ارض میں ہر جگہ پائی جاتی ہے۔ لیکن جس طرح بے کس ومجبور یہ مخلوق ہمارے ملک میں نظر آتی ہے شاید ہی دنیا میں کہیں اور ہوگی۔ یہ ایک ایسی بے کس اور مجبور مخلوق ہوتی ہے کہ جس کو سگے والدین بھی اپنانے سے انکاری ہوجاتے ہیں اور ان بچوں کو ایک جیسے جرم کی سزا مل رہی ہوتی ہے جس کے کرنے میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں ہوتا۔

(جاری ہے)

مغربی معاشروں میں خواجہ سرا پاشی میل کو کھل کر اپنے تشخص کو سامنے لانے کا موقع دیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں مرد کے روپ میں پیدا ہونے والی خواتین اور خواتین کے روپ میں پیدا ہونے والے مردوں کو جنسی اعتبار سے ان کی اسی شخصیت کے روپ میں سامنے آنے کا موقع نہیں دیا جاتا اور اکثر خاندانوں میں پیدا ہونے والے مردوں کا جنسی اعتبار سے ان کی اسی شخصیت کے روپ میں سامنے آنے کا موقع نہیں دیا جاتا اور اکثر خاندان کے لئے باعث شرم ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں مختلف قسم کے معاشرتی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ انہیں نہ توپوری طرح سے خواتین میں قبولیت ملتی ہے اور نہ ہی مردوں میں جبکہ ان کی اپنی شخصیت بھی خاندان کے لئے قابل قبول نہیں ہواکرتی۔

اسی وجہ سے زیادہ تر ایسے افراد گھروں سے بھاگ کر شہروں میں اپنے جیسے لوگوں کے یہان پناہ لے لیتے ہیں ۔ نہ تو معاشرہ میں اور نہ ہی حکومتی سطح پر خواجہ سراؤں کو قبولیت کا درجہ ملتا ہے جس کی وجہ سے انہیں معاشی طور پر انتہائی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ اکثرخواجہ سراناچ گانے یا جسم فروشی کا گھناؤنا پیشہ اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک ان خواجہ سراؤں کو نادرا کی جانب سے شناختی کارڈ بھی نہیں ملتے تھے جس پر سپریم کورٹ نے مداخلت کرتے ہوئے نادرا کو انہیں شناختی کارڈ جانے کرنے کا حکم صادر کردیا جس کے جواب میں پہلے مرحلے میں نادرا نے مجبوری ظاہر کردی تھی کہ والدین کی جانب سے تو ان سے ولدیت کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے تو ان کے ولدیت کے خانہ میں کیا لکھا جائے جس کے بغیر انہیں شناختی کارڈ دیا جانا ناممکن اور خلاف آئین و قانون ہے۔

تاہم اب کفرٹوٹا خدا خدا کرکے کی مصداق پر نادرا نے خواجہ سراؤں کیلئے شناختی کارڈ بنانے کے لئے نئی پالیسی متعارف کرادی جس کے بعد اب خواجہ سراؤں کو والدین کی مرضی کے مطابق جنسیت کو ظاہر کرنے پر مزید مجبور نہیں کیا جاسکے گا بلکہ ان کی مرضی کے مطابق جنس کی شناخت کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع مل سکے گا۔ نادرا ترجمان کی طرف سے جاری بیان کے مطابق نادرا نے خواجہ سراؤں کی مشکلات اور لاہور ہائی کورٹ کے حکم کی تعمیل کے پیش نظر خواجہ سراؤں کو نا معلوم ولدیت کے ساتھ نادرا کے ڈیٹا میں شامل کرنے کیلئے ایک نئی پالیسی متعارف کروائی ہے جس کے تحت ایک گرو خواجہ سراؤں کی درخواست کی تصدیق بطور سربراہ کرے گا۔

اس سے متعلق ترجمان نادرا نے کہا کہ یہ نئی پالیسی خواجہ سراؤں کو درپیش مشکلات کے پیش نظر وضع کی گئی ہے چونکہ اس سے قبل بہت سارے خواجہ سرا معقول دستاویزی ثبوت نہ ہونے کی بناء پر شناختی کارڈ کی سہولت سے محروم تھے، ترجمان نادرا کا کہنا ہے کہ اس سے قبل صرف ان خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ ی جاری کیا جاتاتھا جن کے والدین کے نام معلوم ہوتے تھے ایسے میں بہت سارے خواجہ سرا لاوارث ہونے کی بناء پر قومی شناختی کارڈ یا شناختی کاغذات حاصل کرنے سے محروم ہوجاتے تھے۔

نادرا نے خواجہ سراؤں کے متعلق یہ پالیسی اس حکم کی تعمیل کی روشنی میں وضع کی تھی۔ جس کے تحت سپریم کورٹ نے 2009 میں نادرا کا حکم دیا تھا۔ کہ وہ خواجہ سراؤں کو ان کی خواہش کے مطابق صنف کے ساتھ نادرا ڈیٹا بیس میں رجسٹرڈ کرنے سے متعلق پالیسی وضع کرے۔ ترجمان نادرا کے مطابق نادرا اس سے پہلے اس کمیونٹی کیلئے مرد خواجہ سرا ، عورت خواجہ سرا اور خنصہ مشکل جیسی صنف کا بھی آپشن متعارف کروا چکی ہے جس کے تحت خواجہ سر ا اپنے لئے بغیر کسی سرٹیفیکیٹ کے اپنی مرضی کی جنس کا تعین کرسکتے ہیں۔

نادرا کے اس اقدام سے ایسے خواجہ سرا حضرات جو پہلے ہی بطور خواجہ سرا رجسٹرڈ ہیں اپنے آپ کو نادرا کے ڈیٹا بیس میں بطور گرو رجسٹریشن کراسکیں گے۔ نئی پالیسی کے تحت گرورجسٹریشن کراسکیں گے، نئی پالیسی کے تحت گرورجسٹر یشن کے طریقہ کار کیلئے گرو کو اپنے ساتھ شناختی کارڈ کی کاپی کے ساتھ ساتھ فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کی جانب سے مصدقہ تصدیق شدہ حلف نامہ فارم کا ہونا ضروری ہے۔

نادرا کے ڈیٹا بیس میں رجسٹر کیا گیا گرو ایسے خواجہ سراؤں جن کی ولدیت نامعلوم ہے، ان کی درخواست کی تصدیق بطور سربراہ کرے گا۔ نادرا کی نامعلوم ولدیت کے ساتھ یتیموں کے لئے مروجہ پالیسی کی طرح خواجہ سراؤں کے شناختی کارڈ پر ولدیت کا کوئی بھی نام نادرا کے ڈیٹا بیس سے سسٹم خود کار طریقے سے منتخب کرے گا اور وہ نام ولدیت کے خانے میں درج کیا جائے گا۔

عدالتی احکامات کی روشنی میں خواجہ سراؤں کو مردم شماری میں شامل کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے تاہم شناختی کارڈز نہ ہونے کی وجہ سے اس مردم شماری کے مہم میں بھی خواجہ سراؤں کی اصل تعداد معلوم نہیں ہوسکی۔ اور سال 2017ء میں ہونے والی ملکی تاریخ کی چھٹی مردم شماری میں پورے پاکستان میں خواجہ سراؤں کی کل آبادی 10 ہزار418 ظاہر کی گئی جبکہ خیبر پختونخواہ میں خواجہ سراؤں کے حقوق کیلئے کام کرنے وال تنظیم ٹرانس ایکشن الائنس کے مطابق صرف خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں کی تعداد 50 ہزار سے زائد ہے۔

شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے خواجہ سراؤں کو متعدد مشکلات ومصائب کا سامنا ہے، صوبائی دارلحکومت پشاور میں مقیم خواجہ سراء علیشباہ بھی ان ہزاروں خواجہ سراؤں میں سے ایک ہے جو قومی شناختی کارڈ سے محروم ہے۔ علیشباہ پشاور میں لمبے عرصے سے ناچ گانے کے پیشہ سے وابستہ ہے اور یہ اس کے رزق کا واحد ذریعہ ہے، وہ کہتی ہے کہ کچھ عرصہ قبل مشکلات سے تنگ آکر اپنے اس فن کو خیر باد کہنا چاہ رہی تھی لیکن قسمت نے وفا نہیں کی۔

کہتی ہے” کچھ عرصہ قبل تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن میں نئی آسامیوں کا اعلان ہوا تھا جس میں خواجہ سراؤں کیلئے الگ کوٹہ رکھا گیا تھا، میں نے خواجہ سراؤں کیلئے الگ کوٹہ رکھا گیا تھا، میں نے بھی قسمت آزمانے کیلئے درخواست دے دی لیکن انہوں نے شناختی کارڈ کا مطالبہ کردیا جس پر میں نے شناختی کارڈ کے حصول کا فارم نادرا آفس سے لے لیا، تپتی دھوپ اور گرمی کے موسم میں بہت بھاگ دوڑ کی لیکن نہ تو کسی سرکاری افسر نے تصدیق کیلئے دستاویزات پر دستخط کئے اور نہ ہی میرے پاس والدین کے شناختی کارڈز تھے جس کے باعث میں نے شناختی کارڈ کا وہ فارم پھاڑ دیا اور وہ عزت کی سرکاری نوکری میرے ہاتھ سے چلی گئی “۔

انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی تنظیم بلیو وینز کے سربراہ قمر نسیم کا دعویٰ ہے کہ خیبر پختونخوا کے 90 فیصد خواجہ سراؤں کے شناختی کارڈز پرجنس کے خانہ میں مرد لکھا گیا ہے جبکہ شناختی کارڈ میں خواجہ سراء کے جنس کی وضاحت بھی صحیح معنوں میں نہیں کی گئی انہوں نے واضح کیا کہ خواجہ سراؤں کی 3 اقسام ہیں “ مرد خواجہ سراء ،خواتین خواجہ سراء اور مخنث “ تاہم نادرا کی جانب سے خواجہ سراؤں کیلئے انگریزی کا حرف ایکس استعمال کیا گیا ہے جس سے ان کی جنس کی وضاحت نہیں ہوتی تاہم اس کے جواب میں بتایا گیاہے کہ شناختی کارڈ میں اتنی تفصیل لکھنے کیلئے خانے نہیں ہوتے جس کے باعث انہوں نے صرف ”ایکس“ کا حرف استعمال کیا ہے۔

وفاق زیر انتظام قبائلی علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں خواجہ سرا قبائلی روایات کی وجہ سے پابندیوں کے شکار ہیں فاٹا سے تعلق رکھنے والے خواجہ سراء آسیہ اور سوہانہ کہتے ہیں کہ ان کی زندگیوں کو کئی خطرات لاحق ہیں سوہانہ کے مطابق وہ اپنی ماں سے سال میں ایک دو بار ہی چوری چھپے رابطہ کرپاتی ہیں جو کہ اس کے لئے دکھ کا باعث ہے ۔ باجوڑ ایجنسی کے خواجہ سراء آسیہ کا کہنا ہے کہ اسے ناچ گانے کا شوق تو نہیں البتہ کہیں ملازمت مل جائے یا حکومت کی جانب سے ماہانہ وظیفہ مقرر ہوجائے تو اپنے والدین کا سہارا بننے کے قابل ہوجائے گا۔

یوں تو ملک کے تقریباََ ہر حصے میں خواجہ سراؤں کے ساتھ عوام کا سلوک یکساں ہے مگر قبایلی علاقہ جات اور خیبر پختونخوا کے بعض حصوں میں ان کی زندگی اجیرن ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے خیبر پختونخوا کے بعض علاقوں میں خواجہ سراؤں کے ساتھ بیہمانہ سلوک کے واقعات رونما ہوئے ۔ حتیٰ کہ بعض کیسوں میں ان کو قتل بھی کردیا گیا جبکہ ان پر جسمانی تشدد کے واقعات تو روز کا معمول ہے، جس کی وجہ سے خواجہ سراء اپنے پیشے کے سلسلے میں گھر سے نکلنے سے کتراتے ہیں ۔

اکثر اضلاع میں خواجہ سراؤں کو نوکری کرنے اور گھر کرایہ پر لینے میں بھی مشکلات پیش آتی ہے۔ شہری علاقوں میں جہاں ایک جانب خواجہ سراؤں کو ان پر لگے بعض الزامات کے باعث گھر کرایہ پر نہیں دیا جاتا تو دوسری جانب شہری انہیں اپنے علاقوں میں رہائش اختیار کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتے۔ کل ہی کی بات ہے کہ خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں پولیس کی جانب سے خواجہ سراؤں کے ڈی جے پروگرامات پر پابندی عائد کردی گئی جس کے خلاف خواجہ سرا کمیونٹی نے نکل کا احتجاجی مظاہرہ کیا اس موقع پر خواجہ سراؤں کا کہنا تھا کہ ان پروگراموں کے علاوہ کمائی کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ، عرصہ سے پابندی کے باعث فاقوں تک نوبت آپہنچی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے امن وامان کے نام پر ڈی جے پر پابندی لگائی لیکن آئے روز قتل وغارت کے واقعات رونما ہورہے ہیں ان کا کہنا تھا اگر حکومت امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنانا چاہتی ہے تو ہم پر پابندی لگا کر روز گارنہ چھینے بلکہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کاروائی کرے۔ دوسری جانب بنوں کی ضلعی انتظامیہ کا موقف ہے کہ ایک جانب اگر ڈی جے پروگرام میں لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں تو انہی پروگراموں سے فحاشی بھی پھیل رہی ہے جس کی وجہ سے پابندی لگائی گئی ہے اور بنوں شہر میں فحاشی پھیلانے کی سرگرمیوں کی کسی کو اجازت نہیں دے سکتے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Nadra ki Nai policy is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 September 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.