میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم

کل کا ”برما“ آج کا میانمار کہلاتا ہے ،جہاں کے مطلق العنان حکمران ہی قابض رہے اور پچیس سال بعد پہلی مرتبہ عام انتخابات منعقد کرائے گئے تھے جس میں طویل عرصہ نظربند رہنے والے خاتون رہنما آنگ سان سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسٹی نے واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی۔

ہفتہ 9 ستمبر 2017

Myanmar Main Rohingya Musalmano Par Insaniyat Soz Muzalim
خالد یزدانی:
کل کا ”برما“ آج کا میانمار کہلاتا ہے ،جہاں کے مطلق العنان حکمران ہی قابض رہے اور پچیس سال بعد پہلی مرتبہ عام انتخابات منعقد کرائے گئے تھے جس میں طویل عرصہ نظربند رہنے والے خاتون رہنما آنگ سان سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسٹی نے واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی۔

اگرچہ وہ آئینی اصولوں کے مطابق ملک کی صدر نہیں بن سکتیں تھیں ،لیکن بطور سٹیٹ کونسلر آج وہی میانمار کی سربراہ تصور کی جاتی ہیں۔ جب سے دس لاکھ روہنگیا مسلمانوں پر بدھ مت کے جنونیوں نے فوج کے ساتھ چند سالوں سے جن ظالمانہ کارروائیوں کا آغاز کیا تھا، اس کے نتیجہ میں 2012ءمیں رخائن ریاست میں سینکڑوں مسلمان زندہ جلا دیئے گئے یا ان کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا اور ایک لاکھ کے قریب افراد نقل مکانی کر کے بنگلہ دیش جانے پر مجبور ہوگئے تھے۔

(جاری ہے)

کچھ عرصہ پہلے سیٹلائٹ سیلی گئی تصاویر سے ظاہر ہوا تھا کہ رخائن کے شمالی حصے میں کئی مقامات پر آگ لگی تھی انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے جو تصویر میڈیا پر جاری کی اس میں روہنگیا مسلمانوں کے ایک گاو¿ں میں سات سو گھروں کو آگلگی دکھا ئی دی۔اس میںکتنے لوگ زندہ جلے اس کا درست اندازہ لگانا مشکل ہے کہ عالمی میڈیا کو ان علاقوں میں جانے کی اجازتنہیں ہے ،کیونکہ اگر میڈیا نے دنیا کو وہاں ہونے والے مظالم کی حقیقی تصویر دکھا دی تو ہر حساس دل اس کی پر زور مذمت کرے گا ،اور میانمار کی ظالم حکومت کے خلاف ساری دنیا کے پرامن عوام سخت سے سخت کارروائی کا مطالبہ کریں گے۔

میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر خاموشی اختیار کرنے اور ان کی مدد نہ کرنے پر دنیابھر میں امن کا نوبل انعام حاصل کرنے والی آنگ سان سوچی پر اب دنیا بھر میں شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی نمائندہ برائے میانمار یانگ لی نے کہا تھا کہ رخائن میں حالات نہایت خراب ہیں۔ آنگ سان سوجی کو اس معاملے کے حل کے سلسلہ میں قدم اٹھانا چاہئے کیونکہ اس مرتبہ رخائن میں ہونے والی بربریت اکتوبر سے کہیں زیادہ ہے۔

آنگ سان سوچی ملک کی حقیقی سربراہ ہیں کو اس موقع پر ضروری اقدامات کرنے چاہیں۔ اسی طرح نوبل امن انعام حاصل کرنے والی پاکستانی ملالہ یوسفزئی نے اپنے ٹوئٹ میں دیئے گئے بیان میں کہا کہ وہ روہنگیا کے معاملے پر آنگ سان سوچی کا بیان سننے کا انتظار کر رہی ہیں۔اس وقت رخائن کی جو صورت حال ہے اس پر آنگ سان سوچی کو عالمی سطح پر سخت تنقید کا سامنا ہے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی یہ سوال اٹھا رہی ہیں کہ شمالی ریاست رخائن میں صحافیوں اور امدادی کارکنوں کو جانے کی اجازت کیوں نہیں ہے۔

میانمار کے صدارتی ترجمان کے مطابق بین الاقوامی ذرائع صورت حال بارے غلط بیانی کہا جا رہا ہے ،مگر اصل حقائق یہ ہیں کہ اس وقت اگر میڈیا کو رخائن میں جانے کی اجازت مل گئی تو وہاں روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے بارے ساری دنیا کو معلوم ہو جائے گا۔دیکھا جائے تو میانمار میں حالیہ مظالم بوسنیا کے مسلمانوں اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے کشمیریوں کے علاوہ فلسطینیوں پر اسرائیلی بربریت کا ہی تسلسل دکھائی دیتے ہیں، جہاں مسلمان مرد و خواتین کے علاوہ بچوں کو بھی دیدہ دانستہ مارا جا رہا ہے۔

پناہ گزینوں کی عالمی ایجنسی ”آئی او ایم“ کے مطابق میانمار (برما) کے مسلم اکثریتی علاقے ”رخائن“ میں پرتشدد واقعات کے بعد ایک ہفتے سے بھی کم مدت میں اٹھارہ ہزار سے زیادہ روہنگیا مسلمان علاقے سے نقل مکانی کرکے بنگلہ دیش میں داخل ہوئے ہیں، جہاں ان کے لئے کیمپ قائم کئے گئے ہیں اور ان پناہ گزینوں کو خوراک بھی مہیا کی جا رہی ہے حال ہی میں ان کیمپوں میں آنے والے درجنوں پناہ گزین گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے۔

جبکہ ہزاروں روہنگیا کے مسلمان بنگلہ دیش کی سرحد عبور کرنے کے منتظر ہیں۔ آئی او ایم کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران یعنی جمعہ سے بدھ تک اٹھارہ ہزار چار سو پنتالیس روہنگیا مسلمانوں کا کیمپ میں اندراج کیا گیا تھا۔ ترجمان کے مطابق ہزاروں افراد سرحد پر موجود ہیں جن تک ہماری رسائی نہیں۔ جبکہ کیمپ میں آنے والے نئے پناہ گزینوں میں سے بعض کے پاس کپڑے تھے، جبکہ بعض کے پاس کھانے پینے کے برتن بھی تھے، تاہم بڑی تعداد اپنا سب کچھ پیچھے چھوڑ آئی ہے اور اب ان کو فوری طور پر پناہ اور خوراک کی اشد ضرورت ہے۔

اکتوبر 2016 سے اگست 2017ءتک کا جائزہ لیا جائے تو میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و ستم کے بعد ہزاروں افرادنقل مکانی کرکے بنگلہ دیش میں پناہ لے چکے ہیں۔ اے ایف پی کے مطابق بنگلہ دیش میں بلاکھلی کے علاقے میں قائم عارضی کیمپ میں آنے والے روہنگیا کے مسلمانوں کی اتنی لرزہ خیز داستانیں ہیں کہ پتھر سے پتھر دل انسان بھی ان کو سن کر موم ہوجائے۔

میانمار کے علاقے رخائن میں روہنگیا کے مسلمان آباد ہیں جبکہ بودھوں کی وہاں اکثریت ہے جو ان کے ساتھ کئی برسوں سے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔اور اب ان میں اتنا اضافہ ہوگیا ہے کہ ساری دنیا کے امن پسند وہاں ہونے والی بربریت پر صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں۔نشریاتی ادارے بی بی سی کو اقوام متحدہ کے ایک سینئر اہلکار نے نومبر 2016ءکو بتایا تھا کہ میانمار اپنی سرزمین سے اقلیتی روہنگیا مسلمانوں کی نسل ختم کرنا چاہتی ہے۔

ان کے مطابق رخائن ریاست میں مسلح افواج روہنگیا افراد کا قتل کرتی رہی ہے۔ سیکیورٹی فورسز فردوں کو جان سے مارنے، بچوں کو ذبح کرنے اور خواتین کی بے حرمتی کرنے، گھروں کو جلانے، لوٹنے اور لوگوں کو بنگلہ دیش کی جانب دریا عبور کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف انڈونیشیا کے شہر جکارتہ میں مظاہرین نے میانمار کے سفارت خانے کے باہر زبردست احتجاج بھی کیا،اسی طرح روس کے دارلحکومت ماسکو میں ہزاروں افراد بھی سڑکوں پر نکل آئے، چیچنیا کے دارلحکومت گروزنی میں ہزاروں افراد نے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم پر زبردست احتجاج کیا اس موقع پر چیچن رہنما رمضان کادیروف نے عالمی رہنماﺅں سے مطالبہ کیا کہ وہ میانمار میں مسلمانوں کا قتل عام بند کروائیں اور انسانیت کے خلاف مظالم ڈھانے والوں کو کٹہرے میں لایا جائے۔

پوپ فرانس نے بھی روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو روہنگیا سے باہر نکال کر پھینک دیا گیا ہے، لیکن وہ سب سے اچھے اور امن پسند لوگ ہیں۔ سالہا سال سے روہنگیا مسلمان مصائب کا شکار ہیں تشدد کرکے انہیں قتل کیا گیا۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ مسلم عقیدے پر عمل کرتے ہیں۔ترکی کے صدر طیب اردگان نے روہنگیا کے مسلمانوں کے قتل عام کو نسل کشی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس جرم پر آنکھیں بند کرنے والے بھی شریک جرم ہیں۔

طیب اردگان نے بارہ ستمبر کو جنرل اسمبلی میں معاملہ اٹھانے کا بھی اعلان کیا، جبکہ ترکی کے وزیر خارجہ نے بنگلہ دیش حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنی سرحدیں روہنگیا پناہ گزینوں کے لئے کھول دے ان کے اخراجات ترک حکومت ادا کرے گی۔ مگر بنگلہ دیش کی وزیر اعظم نے ایک انٹر ویو میں ان مظلوموں کی بنگلہ دیش آمد کی مخالفت کی ہے۔ پاکستان نے بھی میانمار حکومت سے کہا قتل عام کی تحقیقات کرائے اور ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ روہنگیا مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرے۔

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان ان کی مدد کے لئے او آئی سی کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔ وزیرخارجہ خواجہ آصف نے بھی روہنگیا مسلمانوں پر کہا کہ ظلم و تشدد بند کیا جائے۔ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد عالمی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور مسلمانوں کی یہ حالت زار عالمی برادری کے ضمیر کے لئے چیلنج ہے۔ گذشتہ دنوں مالد یپ کی حکومت نے میانمار سیتجارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کردیا ،اس وقت ساری دنیا میں میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم کے خلاف آواز اٹھائی جارہی ہے جبکہ اسلامی ملکوں سمیت ایسے عملی اقدامات کی ضرورت ہے جس سے میانمارکی حکومت کوآئیندہ اس طرح کے گھناﺅنے مظالم کی ہمت نہ ہو اور ایسا اسی وقت ہو سکتا ہے جب او آئی سی اور اقوام متحدہ بھرپور کوشش کرئے بلکہ فوری طور پر متاثرہ علاقے میں امن جوبھیجی جائے ،جس سے روہنگیا کے مسلمانوں کو وہاں امن سے رہنے کا حق مل سکے ،جہاں گوتم بدھ مت کے ماننے والوں کی حکومت ہے ،وہ گوتم بدھ جو سب جانداروں سے پیار کا درس دیتا تھا مگر آج اس کے پیروکار اس کی تعلیمات کے برعکس جو کچھ کررہے ہیں اس سے ان کی روح ضرور تڑپ رہی ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Myanmar Main Rohingya Musalmano Par Insaniyat Soz Muzalim is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 September 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.