مسلمانوں کے قاتل مودی اور سوچی کا گٹھ جوڑ

روہنگیا مسلمان دہشت گرد قرار بھارتی وزیراعظم کا دورہ میانمار ‘مسلم قتل عام کی حمایت آنگ سانگ سوچی نے بھارت کے نصابِ تعلیم سے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا سبق سیکھا

جمعہ 29 ستمبر 2017

Musalmano K Qatil Modi or Sochi Ka Gath Jor
رابعہ عظمت:
پریس کانفرنس میں نام نہاد دہشت گردی کا ملبہِ پاکستان پر ڈالنے کی سازش کے بعد بھارتی وزیر اعظم نے میانمار کا رخ کر لیا۔ جب وہاں مسلمانوں کو ذبح کیا جارہا تھا اور ان کے گھروں کو جلایا جارہا تھا نریندرمودی بجائے میانمار کی لیڈر حقوق انسانی و جمہوریت کی علمبردار آنگ سان سوچی سے مسلم قتل عام کی مذمت کرتے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرتے دکھائی دیئے اور مسلمانوں کے دشمن انتہا پسند بھارتی وزیراعظم نے واضح الفاظ میں میانمار حکومت کی مسلمانوں کے خلاف فوجی کاروائی کی حمایت کی اور کہا کہ ان کی حکومت برمی حکومت کے ساتھ کھڑی ہے، یعنی مسلمانوں کے دونوں قاتل ایک جگہ اکٹھے ہوگئے اور ادگر سوچی نے بھی بھارت میں روہنگیا مسلمانوں کو دربدر کرنے کے بھارتی فیصلے کی حمایت کی۔

(جاری ہے)

دنیا شاید بھول گئی ہے کہ یہ وہی نریندر مودی ہے جس کی وزارت اعلی کہ دور میں گجرات میں تین ہزار سے زائد مسلمانون کے خون سے ہولی کھیلی گئی، خواتین کو بے آبرو کیا گیا ۔ بچوں ، بوڑھوں کو مسلم نفرت وعصیبت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا، صرف اس پر ہی بس نہیں کیا بے گناہ مسلمانوں کے قتل پر ندامت و معذرت کے بجائے مودی نے ڈھٹائی سے کہا کہ”اگر ان کی گاڑی کے نیچے کوئی کتا بھی آکر مرجائے تو افسوس ہوتا ہے۔

“ انہوں نے مسلمانوں کو کمتر جانور دے بدتر سمجھا۔ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کو کچلنے کے لئے نت نئے حربے آزمائے جارہے ہیں۔ کشمیریوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔ کشمیریوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کیلئے کشمیری نوجوانوں کو جعلی پولیس مقابلوں میں ہلاک کیا جا رہا ہے۔ کشمیرمیں تعینات درندہ صفت بھارتی سکیورٹی فورسز نے نوجوانوں کو اپنا ہدف بنا لیا ہے۔

بھارتی حکومت نے بدھ دہشت گرد حکومت سے اپنی دوستی نبھاتے اور روہنگیا مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دیدیا ہے۔ اعدادو شمار کے مطابق ہندوستان میں چالیس ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان پناہ گزین ہیں جو مقبوضہ جموں و کشمیر سمیت بھارت کی دیگر ریاستوں میں مقیم ہیں۔ جب سے نریندر مودی نے اقتدار سنبھالا ہے ہندو انتہا پسند قوتوں کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں اور وہ ڈنکے کی چوٹ پر بھارت کو ہندو راشٹریہ بنانے پر تلی ہوئی ہیں اور اس کے لئے ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو یہاں سے باہر دھکیلنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، تب سے مسلمان پناہ گزینوں اور مہاجرین کے لئے بھی ہندوستان کی زمین تنگ ہونا شروع ہوگئی ہے۔

بھگوا سرکار اب صرف ان مہاجرین کو پناہ دینے کو تیار ہے جو مسلمان نہیں صرف ہندو ہیں۔ مودی سرکار کا یہ واضح فیصلہ ہے کہ بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان کی اقلیتوں کیلئے اس کے دروازے کھلے ہیں، مگر اقلیتوں سے مراد صرف ہندو اور سکھ ہیں۔دراصل مودی سرکار کا روہنگیا مہاجرین مخالف حالیہ اقدام میانمار حکومت کو خوش کرنے کیلئے ہے اور وہ مسلم دشمن برمی حکومت سے تعلقات بڑھا کر وہاں کی سرزمین پر موجود معدنیات کو اپنے تصرف میں لینا چاہتا ہے۔

مودی اور سوچی جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا اس میں دہشت گردی کے خلاف مل کر لڑنے کا عزم کیا گیا۔ مودی نے صاف لفظوں میں روہنگیا کے انتہا پسندوں اور دہشتگردوں کی بات کی ہے ۔ یعنی انہی مسلمانوں کی قاتلہ سوچی نے بھی ہندوستان سے مسلم مہاجرین کو نکالنے کے بھارتی اقدامات کو سراہا اور مسرت کا اظہار کیا مسلمانوں کو واپس قتل گاہ بھیجنے کے اعلان پر کہا کہ ہم مودی حکومت کے شکر گزار ہیں۔

بھارت میں روہنگیا مسلم پناہ گزینوں نے بھارتی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ روہنگیا کمیونٹی نے عدالت میں دائر درخواست میں کہا ہے کہ ان کا دہشت گردی اورکسی بھی دہشت گرد تنظیم سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے کہا کہ صرف مسلمان ہونے کی بنا پر انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اپنی درخواست میں مرکزی حکومت کے اقدام کو مساوات کے حق کی خلاف ورزی بتایا ہے اور کہا کہ ہم غریب مسلمان ہیں اس لئے ایسا کیا جارہا ہے جبکہ اقوام متحدہ نے بھارتی فیصلے کی مذمت کی ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق بھارت کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتا کہ ان پناہ گزینوں کو واپس بھیج دے جہاں پر انہیں اذیتیں دی گئی ہوں اور انہیں موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہو۔ صد افسوس اس کے باوجود بھارتی مودی حکومت اپنے فیصلے پر قائم ہے اس کی چند وجوہات ہیں جو ذیل میں بیان کی جارہی ہیں۔(1 ) 1951- ء میں یو این او رفیوجی کنونشن ہوا تھا جس میں پناہ گزینوں کے حقوق کی حفاظت کا فیصلہ کیا گیا تھا اس پر 148 ممالک نے دستخط کئے تھے لیکن ہندوستان دستخط کرنے والے ملکوں میں شامل نہیں تھا۔


(2)بھارت نے یو این او کنونشن پر عمل نہیں کیاتھا جس میں لوگوں کو اذیت دینے کے خلاف کنونشن منعقد ہوا تھا جبکہ اکتوبر 1997ء میں جو کنونشن ہوا اس میں بھارت نے بھی دستخط کئے تھے۔ (3) کنونشن کے آرٹیکل نمبر 3 میں کہا گیا تھا کہ کوئی بھی پارٹی انہیں معطل نہیں کرسکتی یا انہیں واپس جانے یا زبردستی واپس دھکیلنے کی مجاز نہیں ہے جب وہ مہاجرین اپنے ملک سے خوفزدہ ہیں کہ انہیں واپس جاتے ہی مار دیا جائے گا۔

(4)بھارت نے اس کنونشن کی منظوری دینے کے سلسلے میں ابھی تک کوئی قانون نہیں بنایا۔ (5 )روہنگیا یو این ایچ آر سی سے رجسٹرڈ ہیں یا نہیں وہ لوگ غیر قانونی تارکین وطن ہیں یہ بھارتی وزیر داخلہ کا بیان ہے۔ (6 )تقریباََ 40 ہزار روہنگیائی مسلمان ہندوستان میں ہیں اور مزید 14 ہزار یو این این سی ایچ آر رجسٹرڈ ہیں۔ (7)غیر قانونی تارکین وطن روہنگیائی مسلمان اس وقت جموں ، ہریانہ اتر پردیش، حیدر آباد، دہلی اور راجستھان میں ہیں۔

(8)وزیر اعظم مودی نے میانمار کی راخین ریاست میں تشدد تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وہاں کی حکومت کو بھرپور تعاون دینے کے لئے کہا، تاہم برما کی لیڈر آنگ سانگ سوچی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف ظلم وستم پر خاموش کیوں ہے؟ آخر وہ کیا چاہتی ہے۔ یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ سوچی نے ایسا کیا کیا تھا کہ اسے امن کا انعام حاصل کرنے کے بعد مسلمانوں پر قتل وغارت اور تشدد کا سلسلہ شروع کردیا جس میں تیزی آگئی ہے۔

میانمار کی لیڈر آنگ سانگ سوچی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس پر بھارتی انتہا پسندانہ سوچ غالب ہے کیونکہ سوچی نے اپنی زندگی کے ابتدائی 16 سال اپنی ماں کے ساتھ بھارت میں گزارے اور وہاں کے نصاب تعلیم سے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا سبق سیکھا۔ سوچی کی والدہ بھارت میں ایک عرصے تک سفیر کے عہدے پر بھی تعینات رہی، یہ مسلم دشمنی نریندر مودی سے ملاقات کے دوران پوری عیاں ہوچکی ہے۔

میانمار کی تاریخ میں فوج کے خلاف کھڑے ہونے پر بین الاقوامی برادری کی جانب سے آنگ سانگ سوچی کی زبردست تعریف و حمایت کی گئی تھی جس کی بناء پر اسے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا لیکن آج اس کی سربراہی میں حکومت انسانیت کو تہہ تیغ کرتے ہوئے بڑی سفاکی سے روہنگیائی مسلمانوں کی نسل کشی کررہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ساتھ ساتھ کئی ممالک کے سربراہوں نے سوچی سے نوبل انعام واپس لینے کا مطالبہ کیاہے ۔

یقینا نوبل انعام دینے والے ادارے کو سوچی سے یہ اعزاز واپس چھین لینا چاہیے کیونکہ سوچی کی شخصیت میں ظلم وبربریت کا جنون سامنے آچکا ہے اور وہ اس نوبل انعام کی توہین کررہی ہے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا بھارتی وزیراعظم سابق وزیر اعلیٰ گجرات میانمار میں نسل کشی کے اسٹڈی ٹور پر گئے تھے تاکہ اس بات کا ندازہ ہوجائے کہ ان کے دور میں گجرات میں جو نسل کشی ہوئی وہ سنگین تھی یا میانمار کی نسل کشی میں شدت ہے۔

مودی سے ملاقات کے بعد سوچی نے میانمار کا تقابل کشمیر سے کردیا تا کہ فوجی کاروائیوں کو حق بجانب قراردیا جاسکے۔ برمامیں مسلمانوں کی تعداد 70 سے 80 لاکھ کے درمیان ہے لیکن ایک سازش کے تحت مسلم آبادی کو گھٹا کر پیش کیا جارہا ہے ۔ اس بنیاد پر ان کے کھیت، باغات، مکانات سب قبضے میں لے لئے گئے ہیں۔ مسلمانوں کو قانون شہریت کے تحت 1823ء سے پہلے میانمار میں ان کے آباؤ اجداد کی موجودگی کے دستاویزی آمد 1050 عیسوی سے پہلے کی تاریخ ہے۔

برما کے تمام علاقوں میں ہی مسلمان آباد تھے تاہم سات بڑے صوبے مسلم اکثریتی شمار کئے جاتے ہیں ان میں سب سے بڑا صوبہ جس کا تاریخی نام راخین تھا اب اس کا نام بدل کر ”راکھین“ رکھ دیا گیا ہے ۔ اس صوبے میں 80 فیصد مسلمانوں کی آبادی ہے۔ بنگلہ جریدے”بنگاویک“ کی ایک رپورٹ کے مطابق جو مسلمان برما میں رہتے ہیں ان کے نام سرکاری ریکارڈ سے حذف کردیئے گئے اور مردم شماری میں بھی شمار نہیں کئے گئے تھے۔

برما میں مسلم نسل کشی کی ابتداء 1940 سے ہوئی بدھسٹ دہشت گرد تنظیموں نے بدھست راشٹر،”برما صرف بدھوؤں کا نعرہ“ لگایا۔ اس نعرے کے ساتھ دہشت گرد تنظیموں نے 1942ء میں بڑے پیمانے پر مسلم نسل کشی شروع کی اس وقت کی رپورٹوں کے مطابق صرف تین ماہ میں مارچ 1942ء تا جون1942 ء ایک لاکھ 50 ہزار مسلمانوں کو شہید کردیا گیا تھا اور ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کو دربدر اس طرح 1940ء تا1950ء1962 اور 1982 ء تک ہوئے مسلمانوں پر فوجی حملوں میں لاکھوں مسلمانوں کو میانمار سے نکال دیا گیا تھا اور ان مسلمانوں نے پاکستان سمیت بنگلہ دیش ، ملائیشیا، انڈونیشیا میں پناہ لی۔

آج پھر برما میں مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ ترکی حکومت کے تشکیل کردہ گروپ INN نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا میں آج سب سے بدترین حالات میں برمی مسلمان ہیں جنہیں حکومت ، پولیس،فوج اور بدھودہشت گردوں نے ظلم و ستم کا نشانہ بنارکھا ہے ۔ ایک خاتون نے نیویارک ٹائمز کے رپورٹر کو بتایا کہ بدھ دہشت گر د ہم پر گولیاں چلا رہے ہیں انہوں نے ہمارے گھروں کو نذر آتش کیا۔

میرے شوہر کو ماردیا اور ہم سب کو جان سے مارنے کی کوشش کی۔ آنگ سانگ سوچی خود ایک بیوہ عورت ہیں ، انہوں نے ایک عرصے تک میانمار کے آمروں کو چیلنج کیا۔ مسلسل پندرہ سال تک نظر بند رہیں اور جمہوریت کے لئے مہم چلائی۔ انہیں جدید دور کی ہیرو سمجھا جارہا تھا۔ مگر میانمار کی اعلیٰ سربراہ ہونے کی حیثیت سے آج یہی سوچی ایسے ملک میں ہونے والی نسل تطہیر کا دفاع کررہی ہیں، چنانچہ میانمار میں روہنگیا مسلم شہریوں کو دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے۔

ویسے میانمار میں جو بھی کچھ ہورہا ہے اس کے لئے ”نسلی تطہیر“ کا لفظ بھی معمولی ہے۔ بدھ دہشت گردی کی نئی لہر کے شروع ہو نے سے پہلے YALE LAW SCHOOL کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ میانمار میں روہنگیا کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اسے ”قتل عام“ قراردیا جانا چاہیے۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے ادارہ FORTIFY RIGHTS کے چیف نے بنگلہ دیش بورڈ پر روہنگیا مہاجرین سے انٹر ویو کرنے کے بعد کہا کہ برمی فوج بچوں کو قتل کررہی ہے ۔

ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ROTH KEN کا کہنا ہے کہ جب آنگ سانگ سوچی کو نوبل پرائز ملا تو ہمیں خوشی ہوئی تھی کیونکہ وہ عالمی سطح پر ظلم وجبر کے خلاف صبرواستقامت کی علامت کے طور پر ابھری تھی۔ مگر آج جبکہ اسے اقتدار وغلبہ حاصل ہے تو خود پوری بے غیرتی کے ساتھ روہنگیا پر کئے جانے والے مظالم میں ہاتھ بٹا رہی ہے،۔ معروف سماجی کارکن اور نوبل ایوارڈ یافتہ DESMOND TUTU نے سوچی کو ایک دردناک کھلا خط لکھا ہے (جومختلف اخبارات میں شائع ہوا ہے)اس میں وہ لکھتے ہیں: ”میری بہن! اگر میانمار کے اعلیٰ ترین سیاسی منصب تک تمہاری رسائی کی قیمت تمہاری یہ خاموشی ہے تو یہ بہت مہنگی قیمت ہے۔“

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Musalmano K Qatil Modi or Sochi Ka Gath Jor is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 September 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.