ملک میں منشیات کی بڑھتی ہوئی لعنت

اِن کی رگوں میں زہر کون اُتاررہا ہے؟۔۔۔ 30 لاکھ خواتین سمیت 90 لاکھ افراد منشیات کے عادی

جمعرات 10 اگست 2017

Mulk Main Manshiyaat Ki Barhti Huwi Lanat
سید ساجد یزدانی:
گزشتہ دنوں دنیا بھر میں انسداد منشیات کا دن منایا گیااس دن کے حوالے سے ایک سروے رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں 30 لاکھ خواتین سمیت 90 لاکھ افراد منشیات کے عادی ہوچکے ہیں۔ ان میں 7 لاکھ افراد سرنج استعمال کرتے ہیں یا ہسپتالوں کے باہر کوڑا دانوں سے استعمال شدہ سرنجوں سے نشہ حاصل کرتے ہیں ان سرنجوں میں نشہ آور ادویہ ڈال کر جب وہ اپنی شریانوں میں اتارتے ہیں تو اسکے ساتھ متعدد موذی امراض بھی ان کے جسم میں داخل ہوجتے ہیں جس کے سبب یہ لوگ ہیپاٹائٹس اے بی اور سی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

لاہور گنگا رام ہسپتال کے گردونواح میں روزانہ ہی ایسے بیسیوں افراد نشہ کرتے یا نشہ کی حالت میں مدہوش کسی فٹ پاتھ پر پڑے نظر آتے ہیں بعض لوگ ٹولیوں کی صورت میں اور کئی تو اکیلے ہی اپنے ہاتھوں سے یہ زہر اپنی شریانوں میں اتاررہے ہوتے ہیں ۔

(جاری ہے)

منشیات استعمال کرنے والے نشیئوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے ان کی تعدادجو پہلے پچاس لاکھ تھی اب ایک کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔

ان میں زیادہ تر 20 سے 30 سال کی عمر کے نوجوان شامل ہیں جو تیزی کے ساتھ اس لعنت میں مبتلا ہورہے ہیں۔ لاہور میں دس لاکھ جہاز شہر بھر کے مختلف اڈوں سے منشیات حاصل کرتے ہیں شہر میں روزانہ دن من کے قریب ہیروئن،افیون ،چرس، گردہ اور بھنگ فروخت کی جاتی ہے جبکہ شراب اور بڑی تعداد میں سکون آور گولیاں اور انجکشن فروخت کئے جاتے ہیں پاکستان کے طول وعرض میں پھیلے یہ نشئی گھوم پھر کر نشہ حاصل کرتے ہیں۔

ان کی تعداد روز بروز برھتی جارہی ہے۔ پولیس ان کو گرفتار کرنے سے گریزاں ہے اس لئے کہ انہیں حوالات میں رکھنے سے انہیں ان سے کچھ ملنے والا نہیں الٹا،اس کی خدمت کرنا پڑے گی۔ ماہرین کے مطابق عادی افراد میں اضافہ کی بنیادی وجہ نشہ آور اشیاء کا آسانی سے دستیاب ہونا ہے جس سے منشیات کے عادی افراد کے علاوہ عام لوگ بھی حاصل کرلیتے ہیں اور بغیر سوچے سمجھے ان کا استعمال کردیتے ہیں۔

شراب تو مقامی ہوٹلوں سے مل جاتی ہے جبکہ دو نمبر شراب یا کُپی انہیں مختلف اڈوں سے مل جاتی ہیں ۔ انجیکشن اور نشہ آور گولیاں عام میڈیکل سٹورز سے دستیاب ہیں جنہیں لوگ آسانی سے حاصل کرکے اپنا نشہ پورا کرلیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق گھریلو مالی طور پر پریشانیوں میں مبتلا افراد جلدی اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید ان چیزوں کے استعمال سے ان کی پریشانیاں دور ہوگئیں انہیں تو نشہ کرنے کے بعد اپنا پتہ نہیں ہوتا بھلا کسی کی کیا خبرہوگی، یہ لوگ اپنا غم غلط کرتے کرتے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔

صدر وزیراعظم اور وزیر صحت ہر سال ہی منشیات کے عالمی دن کے موقع پر منشیات کے خاتمے کیلئے اقدام اٹھانے کا عہد کرتے ہیں اور بین الاقوامی برادری بھی منشیات کی روک تھام کے لئے مشترکہ باہمی اشتراک عمل کے پروگرام تشکیل دینے کی ضرورت پرزور دیتی ہے۔ منشیات کی غیر قانونی تجارت کا بڑا حجم اور اس سے کھڑی کی جانے والی مالیاتی ایمپائر ہماری آئندہ نسلوں کے لئے مسلسل عفریت ہے اسکے باوجود نت نئے نشے مارکیٹ میں آرہے ہیں جس کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے بھی مشکلات کھڑی ہورہی ہیں جیسے کہ کھانسی کے کئی شربت ہیں اور گزشتہ برس ٹائنو سیرپ سے دو درجن افراد ہلاک ہوگئے تھے اسی طرح کے کھانسی کے کئی شربت بھی نشے کے طورپر استعمال کئے جا رہے ہیں۔

منشیات کے عالمی دن کے موقع پر ڈرگ فری سٹی کے پراجیکٹ ڈائریکٹر محمد الطاف قمر سے گفتگو ہوئی۔ انہوں نے منشیات کی روک تھام کے عالمی دن کی مناسبت سے سیر حاصل لیکچر دیا جو نڈر قارئین ہے۔ ارشاد بانی ہے”اے ایمان والو! بے شک منشیات ،جوا،بت اور فال نکالنے والے پیر‘ یہ سب شیطانی کام ہیں ۔ ان سے بچو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ اور نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے”جب تک بندہ نشہ نہیں کرتاوہ دین کی برکتوں سے مستفید ہوتا رہتا ہے۔

لیکن جب وہ نشہ کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا ستر عریاں کردیتا ہے اور شیطان اس کا ساتھی بن کر ہر برائی کی طرف سے اس کی رہنمائی کرتا ہے اور ہر خیر سے اسے اسے روکتا ہے۔ دنیا کے دیگر تمام مذاہب میں بھی نشہ کی ممانعت کی گئی ہے۔ آج دنیا بھر میں پینتیس کروڑ افراد نشے کے عادی ہوکر شیطان کے مکروہ پنجوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اس نشے کا عادی انسان قتل، خودکشی،آتشزدگی، حادثات،آبرو ریزی،چوری چکاری،اور دیگر جرائم میں ملوث ہے۔

دوسری طرف افغانستان ہر سال سات ہزار ٹن سے زائد افیون پیدا کرکے اس سے مارفین اور ہیروئن بنا کرد نیا بھر میں بھیجے جا رہا ہے۔ مراکش اور کچھ وسط ایشیائی ریاستیں سالانہ دس ہزار ٹن چرس، گانجا،گردا وغیرہ بنا بنا کر دنیا میں بھجوا رہی ہیں۔ کولمبیا پیرو اور لیویا بھی منشیات میں ملوث ہیں ۔ سالانہ تین سو پچاس ارب ڈالر سے زیادہ اس ناجائز کاروبار کے ذریعے کمائے جاتے ہیں۔

کروڑوں افراد انہیں استعمال کرتے ہیں جن میں لاکھوں ہلاکت کا شکار ہوتے ہیں۔ کروڑوں ہیپاٹائٹس اور ایڈز کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ المناک پہلو یہ ہے کہ دنیا بھر کی تمام حکومتیں تمام تر وسائل کے باوجود منشیات پر قابو نا پاسکیں۔ اب اقوام عالم نے اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے منشیات کے نقصانات کو کم سے کم کرنے کی طرف توجہ مرتکز کردی ہے اور بعض کم نقصان دہ منشیات کے محدود استعمال کی اجازت سے دی ہے اور امریکہ اور یورپ کے ریستورانوں میں مخصوص گوشے بنا دیئے گئے ہیں۔

یہ منشیات کے خلاف جہاد میں پسپائی کی طرف پہلا قدم ہے۔ سرنج استعمال کرنے والوں کو (ODS )Substitution Oral Drug کی ترغیب دی جاتی ہے۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں سرکاری اور غیر سرکاری اہتمام میں ایسے بے شمار سینٹر کام کررہے ہیں جہاں نشیئوں کو ہیروئن کے بجائے میتھا ڈان مفت پلائی جاتی ہے تاکہ انکی نشے کی طلب کی بھی تسکین ہوجائے اور وہ ہیروئن کی تباہ کاریوں سے بھی بچے رہیں اور بھی کئی پروگرام شروع کئے گئے ہیں جن کے تحت متاثرہ لوگوں کو منشیات اور اس سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے بارے میں معلومات اور آگاہی دی جاتی ہے اور ان بیماریوں سے بچنے کے لئے ماہرانہ مشورے اور ٹیسٹ کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔

منشیات کے استعمال اور اس کی تباہ کاریوں کے ضمن میں پاکستان کی صورتحال بھی دوسری اقوام عالم سے کچھ مختلف نہ ہے۔ اگر دنیا بھر میں پندرہ سال سے 64 سال کی عمر کے 7 فیصد افراد نشے کی علت کا شکار ہوچکے ہیں تو پاکستان میں بھی UNODC اور حکومت پاکستان کی وزارت انسداد منشیات اور شماریات ڈویژن کے تعاون سے 2012ء میں کئے جانے والے ایک سروے کے مطابق ایسے افراد کی تعداد پانچ فیصد یعنی اسی لاکھ ہے جبکہ کل نشیئوں کی تعداد نوے لاکھ سے کچھ زائد ہے جو پاکستان کی کل آبادی کا پانچ فیصد بنتے ہیں۔

ان نوے لاکھ میں بیس لاکھ افراد پندرہ سے پچیس سال کی عمر کے نوجوان اور تیس لاکھ عورتیں بھی شامل ہیں۔ ان میں چالیس فیصد ان پڑھ جبکہ ساٹھ فیصد پڑھے لکھے ہیں۔ بتیس فیصد بیروزگار جبکہ اڑسٹھ فیصد برسرروزگار ہیں۔ ان تمام نوے لاکھ میں سے ساٹھ لاکھ مہلک ادویات استعمال کرتے ہیں۔سات لاکھ افراد منشیات کو بذریعہ انجکشن لیتے ہیں جن میں سے تین لاکھ ہیپاٹائٹس یا ایڈز کا شکار ہوچکے ہیں اور اس سارے المیہ کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ان نوے لاکھ نشیئوں کے علاج معالجے کے لئے پاکستان بھر کے تمام ہسپتالوں اور سینٹروں میں زیادہ سے زیادہ سال بھر میں تیس ہزار افراد کا اچھا یا برا علاج معالجہ کرنے کی گنجائش ہے گویا باقی تمام کوسسک سسک کر مرنا ہی ہے۔

انسانی زندگی کو صرف منشیات سے ہی خطرہ نہیں، شراب،سگریٹ اور شیشہ اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔ دنیا بھر میں ہر سال اگر منشیات کے ہاتھوں پانچ لاکھ افراد موت کے منہ میں جاتے ہیں تو شراب کے ہاتھوں تیس لاکھ اور تمباکونوشی کے ہاتھوں ساٹھ لاکھ افراد لقمہ اجل بنتے ہیں۔ پاکستان میں کل آبادی کا پچپن فیصد سگریٹ نوشی کی علت شکار ہے جو سالانہ چار سو پچاس ارب روپے کے سگریٹ پھونک ڈالتا ہے۔

گلے، پھیپھڑے اور سانس کے کل مریضوں میں سے اسی فیصد سگریٹ نوشی کے عادی پائے گئے ہیں اور پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ سے زائد اشخاص تمباکو نوشی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے باعث موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے اپنے شہریوں کو منشیات سے بچانے کے لئے منشیات کی پکڑ دھکڑ منشیات کی تباہ کاریوں سے آگاہی اور منشیات کے عادی افراد کے علاج معالجے کے لئے بے شمار اقدامات کئے ہیں جس کے نتیجے میں پچھلے کئی سالوں سے پاکستانی ادارے ہر سال پہلے سے کہیں زیادہ منشیات پکڑ کر تلف کررہے ہیں۔

وزارت انسداد منشیات اور اینٹی نارکوٹکس فورس نے عوام کو منشیات کی تباہ کاریوں کے بارے میں آگاہی دینے کے لئے پچھلے تین سال میں چار ہزار سے زیادہ پروگرام ترتیب دیے۔ اس ضمن میں وزارت انسداد منشیات اور اینٹی نارکو ٹکس فورس کا سب سے بڑا کارنامہ منشیات سے پاک شہر لاہور کا منصوبہ ہے جس کے تحت لاہور کو منشیات سے پاک کرنے کا عزم کیا گیا ہے۔

لاہور شہر میں بیس ہزار سے زائد افراد کو منشیات رکھنے یا منشیات کا کاروبار کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا اور اُن سے دوسو کلو گرام سے زائد افیون ایک ہزار کلوگرام سے زائد ہیروئن چار ہزار سو کلو گرام سے زائد چرس اور ایک لاکھ 75 ہزار سے زائد شراب کی بوتلیں برآمد کی گئیں اور سینکڑوں شیشہ کی فیز کو بند کیا گیا۔ لاکھوں افراد کو ہزاروں پروگرامز کے ذریعے منشیات کی تباہ کاریوں کی آگاہی دی گئی۔

پانچ ہزار سے زائد نشیئوں کاعلاج معالجہ کیا گیا اور صحت مند سرگرمیوں کے فروغ کیلئے ڈیڑھ سو سے زائد کھیلوں کے نئے میدان بنائے گئے۔ اس پروجیکٹ کا سب سے بڑا کانامہ یہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے نشے کے مریضوں کے علاج کیلئے لاہور میں سوبستروں پر مشتمل ایک سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال بنانے کا حکم دیا ۔ اگر یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے تو لاہور کو منشیات سے پاک کرنے کی راہ کا سب سے اہم سنگ میل ہوگا۔

لیکن یہ سب کچھ کافی نہیں یہ صرف حکومتی سطح پر ہونے والے کاموں کا ذکر ہے۔ پاکستان کو،پنجاب کو،اور خصوصاََ لاہور کے نشے سے پاک کرنے کیلئے ہر شخص کو، خواہ وہ حاکم ہے یا محکوم، افسر ہے یا ماتحت ، آجر ہے یا آجیر، استاد ہے یا شاگرد، واعظ ہے یا سامع ، خاص ہے یا عام ، عورت ہے یا مرد،بوڑھا ہے یا بچہ اپنا کردار اداکرنا ہوگا۔ اپنے آپ کو بھی منشیات سے بچانا ہوگا اور اپنے آس پاس والوں کو بھی کہ جب تک سب محفوظ نہیں کوئی بھی محفوظ نہیں او ر سب سے اہم بات یہ کہ ہمیں ان بدنصیبوں کو اس جیتی جاگتی روشن اور رواں دواں زندگی میں واپس لانا ہوگا جہاں سے وہ ہم صحت مندوں کی مجرمانہ غفلت اور چشم پوشی کے باعث نشے کی دلدل میں گرگئے یہ ہمارا فرض بھی ہے اور ہماری کوتاہیوں کا کفارہ بھی۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Mulk Main Manshiyaat Ki Barhti Huwi Lanat is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 August 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.