ملک میں آبپاشی کا سنگین تر ہوتا مسئلہ

واپڈا کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان آبی قلت کے شکار 15ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے اور پانی کے استعمال کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں چوتھے نمبر پر ہے جب کہ پاکستان کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بھی انتہائی کم ہے۔

پیر 27 نومبر 2017

Mulk Main Aabpashi Ka Sangeen Tar Hota Masla
رانا زاہد اقبال:
واپڈا کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان آبی قلت کے شکار 15ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے اور پانی کے استعمال کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں چوتھے نمبر پر ہے جب کہ پاکستان کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بھی انتہائی کم ہے۔ کالا باغ ڈیم نہ بننے کی وجہ سے ملک کو 70ارب ڈالر سالانہ کا نقصان ہو رہا ہے کیونکہ ایک ملین ایکڑ فٹ پانی سے معیشت کو سالانہ دو ارب ڈالر کا فائدہ ہوتا ہے اور یہ اہم منصوبہ سرد خانے میں ڈالنے کی وجہ سے ہر سال 35ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع ہو جاتا ہے، یہ منصوبہ1993ء میں مکمل ہونا تھا جس کا مطلب ہے کہ تب سے اب تک ملک کو 288 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔

اگر کالا باغ ڈیم بن جاتا ہے تو 3600میگا واٹ یعنی 31.5 ارب واٹ بجلی صرف ڈھائی روپے فی یونٹ پیدا کی جا سکے گی۔

(جاری ہے)

ماہرین کا کہنا ہے کہ کالا باغ ڈیم کا منصوبہ 1953ء میں بنایا گیا تھا لیکن افسوس کہ اس مفید ترین منصوبے پر پیش رفت کے حوالے سے بے جا اختلافات اور گومگو کی کیفیت کا شکار ہیں۔ یہ منصوبہ صرف پانی کے ذخیرے کا نہیں بلکہ تباہ کن سیلابوں اور قحط سے بچانے اور وافر بجلی پیدا کرنے والے منصوبے کا نام ہے۔

ہماراالمیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر اہم قومی مسئلے کو منفی سیاست کی نظر کر دیا جاتا ہے۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے فطری طور پر زراعت کا انحصار پانی پر ہوتا ہے۔ پاکستان میں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہے جو بارش کے ساتھ لازمی ضرورت سمجھا جاتا۔ زرعی لحاظ سے صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ کو خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ دونوں صوبے ہی ملکی آبادی کی زرعی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق ربیع کی فصل میں پنجاب اور سندھ کو پانی کی فراہمی میں کمی کا خدشہ ہے۔ پانی کی کمی کے باعث منگلہ پاور پاوٴس بند ہونے کی وجہ سے پنجاب کو پانی کی فراہمی میں 20فیصد کمی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔جب کہ دریائے سندہ سے پنجاب کو 7ہزار کیوسک پانی کی فراہمی جاری رہے گی جو پنجاب میں کاشت کی جانے والی فصلوں کے پیشِ نظر ناکافی ہے۔ اسی طرح دریائے سندھ سے پنجاب کو پانی فراہم کرنے کی وجہ سے سندھ کو بھی پانی کی کمی کا سامنا ہے۔

ان دنوں گندم کی بوائی کا سیزن ہے جس کی افزائش اور مناسب پیداوار کے حصول کے لئے پانی کی وافر مقدار ناگزیر ہے۔ پانی کی کمی سے چاول کی پیداوار کم ہونے کا خدشہ بھی موجود ہے جس کی وجہ سے زرعی اجناس کی قیمتیں آسمان پر پہنچ سکتی ہیں اور غذائی اجناس کی قلت کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے ۔ایک وقت تھا جب ہماری ضرورت کے مطابق پانی میسر تھا لیکن آج ہر گزرتا سال پانی کے مسئلہ کو سنگین کر رہا ہے۔

پانی کی طلب و رسد میں فرق سے ملک کی وفاقی اکائیوں کے مابین اختلاف بھی سامنے آتا رہا ہے۔ اس کمی بیشی کا معیشت پر اثر پڑتا ہے۔ پاکستانی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 24فیصد ہے۔ آبی ذخائر میں کمی کے باعث پاکستان ان ممالک میں شمار ہونے لگا ہے جو پانی کی وجہ سے بین الاقوامی تنازعات کا شکار ہو رہے ہیں۔ ملک میں آبپاشی کا بڑا دار و مدار دریائے سندھ اور اس کے ملحقہ دریاوں پر ہے۔

ان دریاوں سے 138ملین ایکڑ فٹ کے لگ بھگ پانی ملتا ہے، صرف اکیلا دریائے سندھ 65فیصد دریائی پانی فراہم کرتا ہے، جہلم 17فیصد اور چناب 19 فیصد پانی فراہم کرتا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آنیوالے تین دریا بیاس ، ستلج اور راوی بھارت کے ہاتھ فروخت کر دئے گئے ان دریاوں میں اب پانی کی جگہ دھول اڑتی ہے، کالا باغ ڈیم سندھ طاس معاہدے کے فوری بعد بننا چاہئے تھا کیونکہ راوی اور ستلج سے محروم ہونے کے بعد یہ ناگزیر تھا ان دریاوں کے علاقے میں آبپاشی کے لئے ٹیوب ویل لگانے کی وجہ سے وہاں پانی کی سطح 80فٹ سے نیچے جا چکی ہے۔

بھارت مقبوضہ کشمیر سے آنیوالے دریاوں کے پانی کو بند باندھ کر کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں آ چکا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہم صرف دو بڑے تربیلا اور منگلہ ڈیم بنا سکے جب کہ بھارت میں ایسے ڈیموں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ ہمارے ہاں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے پاکستان کو اندرونی اور بیرونی محاذ پر مخالفت کا سامنا ہے۔ بیرونی محاذ پر بھارت سرگرم ہے اس نے کالا باغ ڈیم کی مخالفت کے لئے باقاعدہ ایک فنڈ قائم کر رکھا ہے جو پاکستان کے اندر اپنے پروردہ لوگوں میں تقسیم کرتا ہے۔

بھارت پاکستان آنے والے دریاوں پر آبی ذخائر کی تعمیر کر رہا ہے جس سے وہ پاکستان آنے والے دریاوں کے پانی پر کنٹرول حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہو گا۔ کافی حد تک وہ ایسا کر بھی رہا ہے پاکستان کو پانی کی ضرورت ہو تو پانی روک کر قحط سالی سے دوچار کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کئی بار مون سون میں تمام دریاوں کا رخ پاکستان کی طرف موڑ کر سیلاب برپا کر چکا ہے۔

برسات میں خود ہمارا پانی بھی انسانوں اور فصلوں کو ڈبوتا ہوا سمندر میں جا گرتا ہے۔ اگر ملک میں مطلوبہ ڈیم تعمیر ہو چکے ہوتے تو کئی سیلابوں سے پاکستان محفوظ رہتا۔دوسرا بھارت سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے دیائے چناب اور جہلم پر متنازعہ آبی منصوبے تعمیر کر رہا ہے بلا شبہ آبی تنازعات کے حل کے لئے نیک نیتی سے بات چیت ہی واحد پر امن طریقہ ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ بھارت سنجیدہ رویہ اختیار کرے۔

عالمی برادری کا بھی فرض ہے کہ پاکستان کو قحط کی صورتحال سے بچانے کے لئے بھارت کو سندھ طاس معاہدے کا پابند کرے۔ پانی کی بڑھتی ہوئی قلت کے پیشِ نظر حکومت کو ذخیرہ آب کی طرف توجو دینی چاہئے جس کے لئے کالا باغ کی تعمیر بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کو ایک لمبی مدت کی منصوبہ کرنی چاہئے جس کے تحت ہر سال 25چھوٹے بڑے آبی ذخیرے قائم کئے جائیں تا کہ آنے والے دنوں میں پانی کی قلت جیسے مسائل پر قابو پایاجا سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Mulk Main Aabpashi Ka Sangeen Tar Hota Masla is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 November 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.