معاشرے میں منشیات کا بڑھتا رجحان اور نفسیاتی مسائل !

نوجوان نسل کی تباہی کا ذمہ دار کون؟․․․․․․․․․․․․ نصاب میں منشیات کے مضر اثرات کو نمایاں کرکے پیش کرنے کی اشد ضرورت ہے، مقررین کا اجلاس سے خطاب

جمعرات 11 جنوری 2018

muashray mein munshiyat  Ka barhta howa Rujhan  or Nafsiyati Misail
سید علی بخاری:
ہمارے معاشرے میں منشیات کی لعنت کا بڑھتا ہوا رجحان اور نفسیاتی مسائل کسی سنگین خطرے سے خالی نہیں ، منشیات ایک ایسی لعنت ہے جو سکون کے دھوکے سے شروع ہوتی ہے اورزندگی کی بربادی پر ختم ہوتی ہے ، حکومت وقت کے ساتھ ساتھ دیگر نجی اداروں کومنشیات کے علاج معالجہ اور اس کی روک تھا کیلئے ہنگامی سطح پر کام کرنا ہوگا، خطرے کی بات یہ ہے کہ منشیات کی لعنت تعلیمی اداروں اور اَپر کلا س میں ایک فیشن کے طور پر سامنے آرہی ہے جس کے دوررس انتہائی مضر اثرات نمایاں نظر آرہے ہیں ۔

ایک اندازے کے مطابق آج 10 ملین متاثرین نئے ناموں سے نشہ کا استعمال کررہے ہیں ، نشے کے یہ عادی مریض اور ان کے حوالے س مرکزی وصوبائی حکومتوں کے پاس مختص بجٹ نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی جو کہ ایک المیہ ہے، لہٰذا مرکزی وصوبائی حکومتیں ڈینگی کی طرح اس کی طرف بھرپور توجہ دیں۔

(جاری ہے)

تازہ ترین معلومات کے مطابق نشہ میں مبتلا ء افراد کی بڑی تعداد 25 سے31 سال تک کی ہے جبکہ دوسرا بڑا حلقہ 15 سال سے 24 سال تک کی عمر کا ہے ، پاکستان میں جس نشے کا استعمال سب سے زیادہ کیا جاتا ہے وہ چرس ہے جبکہ منشیات کا 80 فیصد استعمال مرد کرتے ہیں اور 20 فیصدخواتین ہیں۔

350 ٹن سے زائد افغان منشیات پاکستان میں استعمال ہوتی ہے ۔ حکومت پاکستان کے ایک ریکارڈ کے مطابق 66.22 فیصد نشے کے عادی افراد کی عمر 20 سے 29 سال تھی جو مختلف جرائم کی مرتکب ہوئے ۔ 18.92 فیصد نشے کے عادی افراد کی عمر 15 سے 19 سال تھی جو جرائم کے مرتکب ہوئے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان تمام تر حقائق کے باوجود پاکستان کی حکومتیں ا س حوالے سے کوئی متاثر کن عملی پالیسی تشکیل نہ دے سکیں، اگر حکومت اور اداروں کے ساتھ ساتھ خود عوام اس کے خلاف پوری طرح اٹھ کھڑے نہ ہوئے اور اس کو اپنے اندر اور اردگرد سے مارنہ بھگایا تو پھر بنی نوع انسان کو تباہ کرنے کے لئے کسی عالمگیرجنگ یا مہلک جوہری ہتھیاروں کی ضرورت نہ رہے گی، نوجوان نسل کو بچانے کے لئے سب سے اہم کردار والدین اور اساتذہ کا ہے، اس کے بعد علماء دین کا ہے اور پھر میڈیا کا، نشہ آور اشیاء فراہم کرنے والے عناصر کے خلاف سخت سے سخت کارائی کی جائے اور نصاب میں منشیات کے مضراثرات کو نمایاں کرکے پیش کیا جائے۔

ضرورت اس امرکی ہے کہ حکومت اور اداروں کے ساتھ ساتھ ملک کے دانشور، اساتذہ ، قلم دان بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے تمام اصحاب حالات کی سنگینی کا احساس کریں اور آگے بڑھ کر اپنے اپنے دائرہ کار اور حلقہ ا ثر میں منشیات کے اس عفریت کا مار بھگانے کے لئے تن، من ،دھن سے ہر ممکن کوششیں کریں۔ گزشتہ دنوں شوریٰ ہمدرد کا اجلاس ” منشیات کا بڑھتا ہوا رُجحان نفسیاتی مسائل اور معاشرے پر اثرات“ کے موضوع پر ہمدرد مرکز لاہور میں ہوا۔

مقررین میں جسٹس (ر)ناصرہ اقبال،ابصار عبدالعلی ، ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، میڈیکل سپرینٹنڈنٹ فاؤنٹین ہاؤس لاہور ڈاکٹر سید عمران مرتضیٰ ، کنسلٹنٹ انٹی ڈرگ نارکو ٹکس کمپین سید ذوالفقار حسین، جنرل (ر)راحت لطیف ، برگیڈیر (ر)محمد سلیم ، ڈاکٹر عظمت الرحمن ،میجر (ر)صدیق ریحان ، میجر(ر)خالدنصر، پروفیسر خالد محمود عطاء شعیب مرزا، پروفیسر نصیر اے چوہدری ، طارق چغتائی ، طفیل اختر، عائشہ عمران ، ندیم شہزاد علی ودیگر نے شرکت کی۔

کنسلٹنٹ انٹی ڈرگ نارکو ٹکس کمپیئین سید ذوالفقار حسین نے کہا کہ اب تک 635 تعلیمی اداروں میں ساٹھ ہزار سے زائد طلباء وطالبات میں شعور و آگہی مہم چلا چکے ہیں اور کئی نامور کالجز ویونیورسٹیز کا ڈرگ فری ڈکلیئر کروایا ہے، آج اَپر کلاس بچیاں بھی ہیش، کوکین اور شیشہ کا بے دریغ استعمال کررہی ہیں جبکہ غیر ذمہ دار اساتذہ اُن کو نشہ کی افادیت بتاتے ہیں کہ اس سے چالیس چالیس گھنٹے نیند نہیں آتی اور پیپر کی تیاری اچھے طریقے سے کرسکتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ ہم نے شیشہ کے خلاف مہم شروع کی اور اس کے خلاف قانون بنوایا اور پنجاب اسمبلی میں بھی اسکے خلاف بل پیش کیا بالآخر پورے ملک میں شیشہ کو ایک خطرناک نشہ ثابت کیا۔

میڈیکل سپریٹنڈنٹ فاؤنٹین ہاؤس لاہور ڈاکٹر سید عمران مرتضیٰ نے کہ کہ نشے کی لعنت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ایک کروڑ لوگ ڈرگ کے عادی ہیں، گزشتہ اعدادوشمار کے مطابق 22 کروڑ میں سے 8 کروڑ لوگ نشہ کے عادی ہیں جس گھر میں نشے کا عادی ہوتا ہے اُسکی وجہ سے پورا گھر متاثر ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نشے کی لعنت کو روکنے کیلئے سب سے پہلے گھر کے سربراہ پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، ڈاکٹر صاحب نے موبائل کے بے جا اور بے دریغ استعمال کو بھی ایک نشہ قرار دیا انہوں نے کہا کہ چھوٹوں سے محبت اور دوستانہ ماحول پیدا کیا جائے جبکہ بڑوں کی تعظیم کی جائے اور اُن کے ساتھ وقت بیتا یاجائے ، مذکورہ مسائل کی بنیادی وجہ خاندانی نظام کا متاثر ہونا ہے ، انہوں نے مزید کہا کہ جب ہم اپنے اندرسے حسد ، بغض، کینہ اور نفرت کو ختم کردیں گے اور ہر بڑے چھوٹے کے لیے احترام ، تعظیم ، محبت اور معاف کرنے کی عادت اپنا لیں گے تو بے شمار نفسیاتی بیماریاں خود بخود ختم ہوجائیں گی۔

، معاشرے میں ماں کا کردار کم سے کم ہوتا چلا جارہا ہے ، جس کی بدولت بگاڑ پیدا ہو رہا ہے ، عورت کو مرد کے شانہ بشانہ قرار دینے کے سبب گھر سے نکال کر گھر کے ماحول کو برباد کردیا ہے طلاق کی گئی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے ، انہوں نے مزید کہا کہ کسی بھی قوم کا اصل سرمایہ وہ نوجوان ہوتے ہیں جو جسمانی وروحانی دونوں اطراف سے چست ہوں۔ جسٹس (ر)ناصرہ اقبال نے کہا کہ اس وقت 25 ملین بچے سڑکوں پر پھر رہے ہیں جبکہ غربت کی وجہ سے لوگ بیٹیاں بیچنے کو تیار بیٹھے ہیں، ملک کا ہر فرد تقریباََ سوا لاکھ کا مقروض ہے ،معاشرہ کو بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں تو کیسے ہمارا معاشرہ نفسیاتی اور نشے کی بیماریوں میں مبتلا نہیں ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی بھی مذکورہ مسائل کو جنم دے رہی ہے۔ ڈپٹی اسپیکر شوریٰ ہمدرد لاہور محترم ابصار عبدالعلی نے بحث ہو سمیٹتے ہوئے کہا کہ صحت اللہ کی بڑی نعمت کی قدر کرنی چاہیے، ہمارا معاشرہ جن سلگتے ہوئے مسائل سے دوچار ہے ان میں سے نوجوانوں اور نئی نسل کے اندر منشیات کا فروغ ایک اہم مسئلہ ہے یہ ایک ایسا طاعون ہے جس نے نہ صرف لاکھوں انسانوں کو گھُٹ گھُٹ کر جینے پر مجبور کردیا ہے بلکہ ہزاروں نوجوانوں کو ابدی نیند بھی سلادیا ہے، دین اسلام نے ان تمام چیزوں کو حرام قرار دیا ہے جو انسانی جسم اور اخلاقی زندگی پر اثر انداز ہوں ۔

میدیا ، اساتذہ ، والدین علماء اور مخیر حضرات سے اپیل ہے کہ وہ منشیات کے خاتمے اور اسکی بیخ کنی کیلئے اپنا کردار ادا کریں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی اسکی روک تھام اور سدباب کیلئے اہم اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ منشیات سے پاک معاشرہ کا قیام عمل میں لایا جاسکے، اور نشے جیسی لعنت سے چھٹکارہ حاصل کرکے پاکستان کے مستقبل کر محفوظ بنایا جاسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

muashray mein munshiyat Ka barhta howa Rujhan or Nafsiyati Misail is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 January 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.