مصر دھماکے سے لرز اٹھا‘ 250 شہید‘ سینکڑوں زخمی!

مقدس مقامات دہشت گردوں کے نشانے پر․․․․․․․․ نماز جمعہ کے دوران درپیش سانحے میں خواتین‘ بچے اور فوجی دہشت گردانہ کاروائی کا نشانہ بنے

پیر 4 دسمبر 2017

Misar Dhmaky Sy Larz Utha 250 Sheehd
محبوب احمد:
سر زمین اسلام مِصر میں آگے اور خون کی جو ہولی کھیلی جارہی ہے اس نے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کیلئے کی جانیوالی کاوشوں کو داؤ پر لگایا ہے۔ مغرب اس وقت دنیا میں دین اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خوفزدہ اور اسلامی تحریکوں کی عوام میں مقبولیت کو دیکھ کر بوکھلا ہٹ کاشکار ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ 1952ء سے نومبر 2011ء تک مصر اور مصری عوام بدترین آمریت کے چنگل میں جکڑے رہے۔

اگست 2012ء میں مصری عوام نے محمد مرسی پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں مصر کا صدر منتخب کیا لیکن لبرل اور سیکولر جماعتوں کو اخوان المسلمون کا برسراقتدار آنا کسی طور پر ناقابل قبول نہ ہوا ۔مرسی کی منتخب اسلام دوست حکومت کا ختم کیا جانا افسوس ناک ضرور تھا لیکن بہت زیادہ حیرت انگیز نہیں کیو نکہ روز اول سے ہی حسنی مبارک کی باقیات اور دین بیزار، آمریت نواز لبرل فسطائی عناصر ان کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف تھے۔

(جاری ہے)

جنرل السییی کی قیادت میں فوجی بغاوت کا سب سے بڑ ا فائدہ صہیونی ریاست اسرائیل کو ہوا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل مصر میں کسی ایسی منتخب حکومت کو کبھی برداشت کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ وہ قبلہ اول کو آزاد کرنے پر ایمان رکھتی ہو۔مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ مساجد زمین پر اللہ تعالیٰ کا گھر ہونے کے ناطے کرہٴ ارض کے مقدس ترین مقامات ہیں جہاں ہر وقت عرش معلی سے اللہ رب کریم کی رحمت براہ راست نازل ہوتی ہے اور ہمہ وقت رحمت کے ملائکہ نزول کرتے ہیں، مگر روز اول سے چند شرپسند عناصر نے مساجد میں دہشت گردی اور خون خرابے کی ایک ایسی مکروہ تاریخ کی بنیاد ڈالی ہے جسے آج تک ان کے پیروکار شکلیں بدل بدل کر اپنائے ہوئے ہیں۔

مساجد میں دہشت گردی کا مکروہ سلسلہ 14 سو سال قبل شروع ہوا جب بدبخت ایولولو فیروز نامی ایک مجوسی نے مراد رسول اللہ علیہ وسلم خلیفہ دوئم سیدنا عمر بن خطاب کو مسجد میں گھس کر عین نماز کے دوران منجر گھونپ کر شہید کر ڈالا تھا۔ مسجد میں دہشت گردی کی بنیاد رکھنے والا یہ بدبخت مسلمان نہیں بلکہ آتش پرست دہشت گرد تھا، اس واقعہ کے 16 سو برس بعد کوفہ کی جامع مسجد میں عبدالرحمان بن ملجم نامی ایک خوار نے دوران نماز داماد رسولﷺ حیدر کرار حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کو نہایت بے رحمی کے ساتھ شہید کیا۔

افریقی ممالک بالخصوص نائجیریا اور الجزائر میں بھی دہشت گرد عناصر اسلام کا لبادہ اوڑھ کر آج تک درجنوں مساجد کو شہید اور ہزار ہا انسانوں کا خون پی چکے ہیں اور یہ سلسلے تاحال جاری ہے۔گزشتہ دنوں ایک ایسا ہی سانحہ مصر میں بھی رونما ہوا جس سے پورا علاقہ گونج اٹھا، شمالی صوبے سینائی میں ایک مسجد پرجمعہ کی نماز کے دوران دہشت گردوں کی فائرنگ اور بم حملے 250 افراد شہید جبکہ 130 افراد زخمی ہوئے، العرش کے قریب بیرالعباد نامی قصبے میں ہونے والی دہشت گردانہ کاروائی میں شہید ہونے والوں میں زیادہ تعداد خواتین ، بچے اور فوجی اہلکاروں شامل ہیں یاد رہے کہ شمالی سینائی خطے میں شدت پسند کئی برس سے متحرک ہیں لیکن ان کا نشانہ زیادہ تر سکیورٹی فورسز ہیں ، یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ انہوں نے مسجد میں نمازیوں کو نشانہ بنایا ہے ۔

سینا کے شمالی علاقوں میں گزشتہ چند برس سے میڈیا کی رسائی نہیں ہے۔ فوج کے آئے دن بیانات سامنے آتے رہتے ہیں کہ اس نے سینا کے مختلف حصوں میں فتح حاصل کرلی ہے لیکن فوج اور شدت پسندوں کے درمیان جاری لڑائی ختم ہوتی نظر نہیں آرہی ، حملے کا نشانہ بننے والی مسجد صوفی ازم کے پیروکاروں میں مقبول ہے جنہیں قبل ازیں بھی شدت پسندوں کی جانب سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

2013ء کے بعد سے شدت پسندوں کی جانب سے بغاوت میں شدت آئی ہے تب سے سینکڑروں پولیس اہلکار ، فوجی اور عام شہری حملوں میں مارے جاچکے ہیں۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی دہشت گردوں کے حملوں کے نتیجے میں گزشتہ14 برس کے دوران 5 سو مساجد براہ راست یا بالواسطہ طور پر متاثر ہوئی ہیں،4 جولائی 2013ء کو کوئٹہ کی جامعہ مسجد میں دہشت گردوں نے حملہ کرکے 53 نمازیوں کو شہید کیا، 2004ء میں مذہبی مقامات کو 5 بار دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا، کراچی میں سندھ مدرستہ الاسلام سے ملحقہ حیدری مسجد اور ایم اے جناح روڈ پر واقع مسجد امام علی رضا پر خودکش دھماکوں میں 40 نمازی شہید ہوئے ، بلوچستان کے ضلع جھل مگسی میں مزار پر حملے میں 50 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ، اسلام آباد میں امام بری کے مزار پر حملے میں 25 افراد جاں بحق ہوئے،2006 میں کراچی نشتر پارک کے قریب میلادالنبی ﷺ کے جلسے میں 60 افراد لقمہ اجل بنے، جولائی،2006ء میں پشاور کنٹونمنٹ بورڈ کی مسجد میں دھماکے سے 15 افراد لقمہ اجل بنے، فروری2009ء میں ڈیرہ غازی خان کی مسجد میں خودکش دھماکے میں 32 افراد شہید ہوئے، مارچ میں پشین میں کربلا مدرسہ اور اس سے ملحقہ مسجد میں بم دھماکے سے 30 سے زائد افراد شہیدہوئے،جمرود چھاؤنی کی مسجد میں خودکش حملے میں 76 افراد کو شہید کیا گیا، اپریل 2009ء میں چکوال میں ایک امام بارگاہ میں خود کش بمبار نے گھس کر 24 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا ، جون میں اپر دیر کی ایک جامع مسجد نشانہ بنی جس میں 40 نمازی شہید ہوئے، نوشہرہ کنٹونمنٹ بورڈ کی مسجد میں دھماکہ ہوا جس میں سترہ نمازی مارے گئے،12 جون2009ء کو لاہور میں جامعہ نعیمہ ہونے والے دھماکے میں علامہ سرفراز نعیمی سمیت متعدد افراد شہید ہوئے تھے۔

مساجد میں خون خرابے کے مذکورہ تمام واقعات کی ذمہ داری کوئی نہ کوئی گروپ قبول کرکے اپنے تیئں دلائیل پیش کرتے ہیں، مگر یہ سوال ہمیشہ تشنہ لب رہے گا کہ خود کو انسانی حقوق کا علمبردار کہلوانے والے انسانیت سے اس قدر عاری اور مساجد کے دشمن کیوں ہیں؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Misar Dhmaky Sy Larz Utha 250 Sheehd is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 December 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.