محنت کا پھل

چائے بنانے والا اعلیٰ افسربن گیا دفتر سے واپسی پر اُس لڑکے سے چائے بنواکر پینا میرا روزانہ کا معمول تھا

جمعہ 4 نومبر 2016

Mehnat Ka Phal
عبدالجمیل :
یہ آزمودہ بات ہے کہ انسان کی محنت کبھی ضائع نہیں جاتی ، اس کا پھل انسان کو ضرور ملتا ہے خواہ دیرسے ملے ۔
اس حوالے سے مجھے ایک پرانا واقع یادآرہا ہے جو میںآ پ لوگوں کے ساتھ شیئر کررہاہوں۔ دوسری جنگ عظیم شروع ہونے سے پہلے ہندوستان میں چند ایک ہی فیکٹریاں تھیں۔ یہ سب پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں میں تھیں، ان میں ایک فیکٹری فوجیوں کے یونیفارم بنانے کی تھی جو کہ شاہ جہان پور میں تھی ۔

جب جنگ شروع ہوئی توہندوستانی فوج میں بھی بھرتیاں شروع ہوگئیں اور ساتھ ہی ساتھ ان کی یونیفارم بنانے کی فیکٹریاں قائم ہونے لگیں۔ ایسی ہی 2فیکٹریاں سیالکوٹ چھاؤنی میں تھی ۔ ایک کلو رنگ فیکٹری اور دوسری پیراشوٹ بنانے کی فیکٹری ، ان دونوں میں آکاؤنٹس کا سٹاف بھی تقریباََ ایک صد کلرکوں پر مشتمل تھا ۔

(جاری ہے)


میں کلورنگ فیکٹری کے اکاؤنٹس آفس میں تھا۔

میری ڈیوٹی فیکٹری کے مالی معاملات کا آڈٹ کرنا تھا۔ اپنے دفتر سے روزانہ آڈٹ کیلئے نکل جایا کرتا تھا۔ راستہ میں فیکٹری کا اسٹیشنری کا دفتر پڑتا تھا ، جہاں پر کچھ دیر میں ٹھہر جاتا تھا کہ وہاں ایک لڑکے کی ڈیوٹی چائے بنانے کی ہوا کرتی تھی چنانچہ میں جاتے ہی اسے کہتا تھا کہ فٹافٹ چائے بنادو، لہٰذا چائے پی کر آگے جاتا تھا۔ یہ میراروزانہ کا معمول تھا ۔


جنگ ختم ہونے پر فیکٹریاں بھی بند ہونے لگیں۔ اکاؤنٹس کا سٹاف کچھ تو گھر چلا گیا کچھ دوسرے محکموں میں جہاں ضرورت تھی تبدیل کردیا گیا ۔ چنانچہ میرا تبادلہ بھی ملٹری اکاؤنٹس کے راولپنڈی دفتر میں ہوگیا جہاں سے میں 1977ء میں بطور اکاؤنٹ آفیسر پاکستان ہائی کمیشن لندن میں ٹرانسفر ہوگیا۔ یہاں ملٹری اکاؤنٹس کاایک اپنا الگ دفتر تھا۔ ایک دن ایک آرمی کے کرنل میرے پاس آئے اورکہنے لگے کہ میرا ایک خط جی ، ایچ، کیو، راولپنڈی سے آپ کی معرفت آئے گا۔

جب آپ کومل جائے تو مجھے اس ٹیلیفون پر اطلاع کردیں کہ انہوں نے فون نمبر مجھے دے دیا، اس جگہ دوا اپنے بڑے بھائی کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے ۔
چنانچہ ایک دن مجھے وہ خط مل گیا اور میں نے ان کو فون پر اطلاع کردی اور ساتھ ہی وہ کہنے لگے کہ میرے بڑے بھائی سے بات کرلیں وہ آپ سے بات کرناچاہتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے فون ان کو دے دیا، ان کے بڑے بھائی مجھے پوچھنے لگے کہ جمیل صاحب آپ کبھی سیالکوٹ کلورنگ فیکٹری کے اکاؤنٹس میں نہیں ہوا کرتے تھے ۔

میں نے انہیں کہا کہ ہاں یہ 1944ء کی بات ہے ، میں وہاں کام کرتاتھا۔ مجھے حیرت بھی ہوئی کہ انھیں کیسے معلوم ہوا۔ وہ کہنے لگے کہ آپ کو یاد ہے کہ آپ روزانہ وہاں فیکٹری کے اسٹیشنری کے دفتر میں رکاکرتے تے کہ اٹھو فٹافٹ چائے بنادو۔ پھرچائے پی کرآگے جایا کرتے تھے ۔ میں نے کہا ں کہ ہاں مجھے یاد ہے ۔ اس کانام لے کر فلاں لڑکا تھا۔ اب مجھے خاصا تجسس ہورہا تھا کہ یہ صاحب کون ہیں اور یہ سب باتیں کیسے جانتے ہیں۔

کہنے لگے کہ “ میں وہی لڑکا ہوں جو کبھی آپ کو چائے بنا کر دیاکرتا تھا ۔
یہ سن کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی ۔ میرے دریافت کرنے پر کہ آپ لندن میں کیا کرتے ہیں، کب سے ہیں، انہوں نے بتایا کہ میں محنت کرتا رہا۔ خوب دل لگا کر پڑھائی کی اور کامیابیوں کی منزلیں طے کرتا ہوا اعلیٰ سرکاری افسر بن گیا تھا۔ جب ریٹائرہوا تو یہاں آگیا اور اب زندگی کے باقی دن یہاں ہی گزار رہا ہوں، یہ کرنل میرا چھوٹابھائی ہے ، جب اس نے آپ کا نام لیا تو مجھے یہ بتایا کہ یہ اکاؤنٹس میں ہیں تو مجھے فوراََ یاد آگیا کہ کہیں آپ وہی جمیل صاحب نہ ہوں جو کلورنگ فیکٹری کے اکاؤنٹس میں ہوا کرتے تھے اور روزانہ مجھے چائے بنانے کے لئے کہا کرتے تھے۔


ایک تو میں ان کی یادداشت پر حیران ہوا دوسرے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ ان کو ان کی محنت کا صلہ بھی اللہ تعالیٰ نے دے دیا اور اعلیٰ سرکاری عہدے پر پہنچادیا۔ سچ ہے کہ انسان کی محنت کبھی ضائع نہیں جاتی ، محنت کا پھل اسے ضرور ملتا ہے۔
میں نے قصداََ ان کا نام نہیں لکھا۔ ان کی یاد داشت کی داد دینا پڑتی ہے ۔ مجھے پوچھنے لگے کہ میں ابھی ریٹائر نہیں ہوا، میں نے انہیں کہا کہ ریٹائر ہوگیا تھا لیکن صدر پاکستان کے حکم کے تحت مجھے 2سال کا کنٹریکٹ ملاتھا جو کہ ختم ہوگیا تھا تو مزید 2سال کنٹریکٹ مل گیا۔

آج کل میں کنٹریکٹ پر ملازمت کر رہا ہوں ۔
ہماری معاشرتی زندگی میں ا ور بھی بہت سی مثالیں ہیں جن میں معمولی ملازمت شروع کرنے والے اعلیٰ عہدوں پرپہنچ گئے، انسان کی محنت کبھی ضائع نہیں جاتی اس کا پھل ضرور ملتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Mehnat Ka Phal is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 November 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.