معذور مگر عزم و حوصلے کے نانگا پربت اسٹیفن ہاکنگ

جنبش رخسار سے تسخیر کائنات وقت کی مختصر تاریخ لکھنے والے کو وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا

منگل 27 مارچ 2018

mazoor magar azam hosly ky nanga parbat stephen hawking
محبوب احمد
معذوری کو اپنی طاقت بنانے والا اسٹیفن ولیم ہاکنگ ایک ایسا سائنسدان تھا جو لوگوں کو کائنات کی نہ صرف سیر کرواتا بلکہ ایسی معلومات فراہم کرتا کہ جس سے انسانی عقل دنگ رہ جاتی،دنیا بھر کے ساتھ ساتھ سب سے طاقتور کہلانے والے ممالک کے سربراہ بھی انہیں احترام کی نگاہ سے دیکھتے۔8 جنوری 1942 کو آکسفورڈ برطانیہ میں پیدا ہونے والے عظیم ماہر فلکیات طبیعات اور ریاضی دان اسٹیفن ولیم ہاکنگ نے ابتدائی تعلیم سینٹ البنز کے ایک سکول سے حاصل کی سکول اور کالج کے مراحل سے گزرنے کے بعد اپنی صلاحیتوں کے جو ہر دکھانے کیمبرج یونیورسٹی پہنچ گئے۔

ایم ایس سی تک ایک عام طالب علم کا درجہ رکھنے والے اسٹیفن کو کھیلنے کودنے کا بے حد شوق تھا وہ سائیکل چلاتے‘فٹ بال کھیلتے‘کشتی رانی کے مقابلوں میں حصہ لیتے اور روزانہ پانچ کلو میٹر دوڑ لگاتے۔

(جاری ہے)

اسٹیفن 1963 میں کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کے دوران سیڑھیوں سے پھسلنے کے باعث عمر بھر کے لیے دنیا کی پچیدہ ترین بیماری”موٹر نیوران ڈزیز“میں مبتلا ہوگئے۔

ڈاکٹرز نے ان میں ایک ایسے لاعلاج مرض کی تشخیص کی کہ جس کے باعث وہ نہ بول سکتے اورنہ ہی سکتے تھے معذور مگر عزم و حوصلے کے تانگا پربت نے پوری دنیا ایک ویل چئیر پر گزار دی۔1979 سے 2009 تک ہاکنگ کیمبرج یونیورسٹی کے اس عہدے پر براجمان رہے کہ جس پر کبھی مشہور سائنسدان آئزک نیوٹن شمالی لندن میں مقیم تھے مگر دوسری جنگ عظیم کے دوران آکسفورڈ کو نسبتاً محفوظ علاقہ سمجھا جاتا تھا لہٰذا انہوں نے وہیں سکونت اختیار کرلی۔

اسٹیفن ایک خود کار جدید قسم کی ویل چئیر پر بیٹھے بیٹھے اپنی زبان ہلائے بغیر لیکچر دیتے ان کی ویل چئیر پر ایک جدید قسم کا کمپیوٹر نصب تھا جس میں سے ایک تار نکل کر ان کے دائیں گال سے چسپاں رہتی ہاکنگ جو بھی سوچتے اور جیسے ہی اپنی گال کو حرکت دیتے کمپیوٹر بولنا شروع کردیتا یوں جنبش رخسار سے تسخیر کائنات ہونے لگتی۔سٹیفن ہاکنگ جسے آئن سٹائن کے بعد دنیا کا سب سے بڑا ذہین سائنسدان تصور کیا جاتا ہے نے کائنات میں ایک ایسا بلیک ہول دریافت کیا جس سے روزانہ نئے نئے سیارے جنم لے رہے ہیں انہوں نے اس بلیک ہول میں ایسی شعاعیں بھی دریافت کیں جو کائنات میں بڑی بڑی تبدیلیوں کا باعث بن رہی ہے یہ شعاعیں اسٹیفن ہاکنگ کی مناسبت سے ”ہاکنگ ریڈیشن“ کہلاتی ہیں دنیا کے تمام بڑے سائنسدان انہیں اپنا گرو سمجھتے لیکن یہ ان کی زندگی کا محض ایک پہلو تھا کیونکہ ان کا اصل کمال ان کی بیماری تھی ہاکنگ کی شہرہ آفاق نصنیف وقت کی مختصر تاریخ میں اس امر پر روشنی ڈالی گئی کہ وقت کب پیدا ہوا؟گزرتے وقت کیوں نہیں روکاجاسکتا؟ماضی حال اور مستقبل کیا ہے؟ابھی تک مستقبل کے زمانے سے کوئی شخص ہم سے ملنے کیوں نہیں آیا؟ہر شخص حال میں کیوں آتا ہے اور ماضی کا حصہ بن جاتا ہے؟ان کے اس بیان نے بھی ساری دنیا کو پریشان کردیا تھا کہ مختلف وجوہات کے باعث آنے والے ہزار برس کے دوران یہ دنیا تباہ ہوجائے گی لہٰذا ہمیں دوسرے سیاروں پر زندگی تلاش کرنی چاہئے اور وہاں گھر بسانے چاہئیں۔

عصر حاضر کے مشہور سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ سے متعلق کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کا انتقال33 برس قبل1985 میں ہوا تھا اور ان کی وہیل چیئر پر بیٹھا دنیا کو نئی نئی تحقیقات سے روشناس کروانے والا شخص ہاکنگ نہیں بلکہ ان کا کوئی ہم شکل تھا تاہم ان کی موت عالمی خلائی ادارے ناسا کے لیے بہت بڑا نقصان تھی چنانچہ انہوں نے ہاکنگ کی موت کا اعلان کرنے کے بجائے ان کی جگہ ان کے ہم شکل کو پیش کردیا ۔

کیا واقعی وہیل چیئرپر بیٹھاشخص ہاکنگ کی بجائے ایک عام شخص تھا جسے”ناسا“ کی طرف سے کنٹرول کیا جاتا رہا۔ماہرین کے مطابق ہاکنگ کا لاحق مرض اے ایل ایس میںمبتلا ہونے والے افراد اس مرض کی تشخیص کے بعد زیادہ سے زیادہ صرف5 برس تک جی پاتے ہیں،تاہم ہاکنگ نے میڈیکل سائنس کے دعوﺅں کی نفی کرتے ہوئے اس مرض کے ساتھ 55 برس گزاردئیے۔یونیورسٹی آف پنسلوینیا کے اے ایل ایس سینٹر کے میڈیکل ڈائریکٹر لیومک کلسکی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ مرض کی یہ علامت مستقل نہیں کی افراد اس مرض میں مبتلا ہونے کے بعد فوراً موت کا شکار ہوجاتے ہیں جبکہ کچھ اس مرض کے ساتھ طویل زندگی بھی جی لیتے ہیں،گویا یہ بات حتمی نہیں کہ اس مرض کا شکار ہونے والے افراد کو بہت جلد مرنا ہی ہوگا۔

اسٹیفن ہاکنگ کی نوجوانی کی تصویر اور موجودہ تصاویر کو دیکھا جائے تو ان میں نہایت معمولی سا فرق نظر آتا ہے گویا شدید بیماری اور گزرے ماہ و سال نے ہاکنگ کا کچھ نہیں بگاڑا اور وہ ایسے ہی جوان رہے کچھ افراد ان کی پرانی اور موجودہ تصاویر میں بالوں کی رنگت میں بھی فرق قرار دیتے ہیں،بعض کا کہنا ہے کہ وہیل چیئر پر گذشتہ 30 برس بیٹھا شخص ایک بالکل صحت مند اور عام انسان تھا جو ایک طویل عرصے سے اسٹیفن ہاکنگ بن کر مفلوج ہونے کا ڈرامہ کرتا رہا ہے بہر حال قطع نظر اس کے کہ اسٹیفن کی موت کب،کہاں او ر کیسے ہوئی،ان کی زندگی کا اگر مفصل جائزہ لیا جائے تو انہوں نے معذوری کے باوجود ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔

اسٹیفن ہاکنگ نے 1990 کی دہائی میں ایک نیا کام شروع کای جس کا مقصد محض مایوس لوگوں کی زندگی میں روشنی کی کرنیں بکھیر نا تھا،دنیا کی بڑی کمپنیوں اداروں اور فرمز نے ان کی خدمات حاصل کیں ہاکنگ کی ویل چیئر کو سٹیج پر رکھ دیا جاتا اور وہ کمپیوٹر کے ذریعے لوگوں کو بتاتے کہ کیسے انہوں نے معذوری کے باوجود کامیابی کی منازل طے کیں ان کا کہنا تھا کہ اگر میڈیکل سائنس کو شکست سے سکتا ہوں تو لوگ جن کے سارے اعضاءسلامت ہیں جو چل سکتے ہیں جو دونوں ہاتھوں سے کام کرسکتے جو کھا پی سکتے ہیں ،قہقہہ لگاسکتے ہیں اور اپنے تمام خیالات دوسرے لوگوں تک پہچاسکتے ہین وہ کیوں مایوس ہیں؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

mazoor magar azam hosly ky nanga parbat stephen hawking is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 March 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.