مسئلہ کشمیر کے حل میں منصفوں کی نا انصافی

برصغیر پاک و ہند کے شما ل مغر ب میں واقع خطہءارضی کشمیر جسے کشمیر جنت نظیر بھی کہا جاتا ہے کا کل رقبہ 69547مربع میل ہے۔تقسیم ہند کے وقت یہ ریاست دو حصوں میں تقسیم کر دی گئی ۔

جمعہ 27 اکتوبر 2017

Masalah Kashmir Ke Haal Main Munsafaon Ki Be-Insafi
محمد صباح الدین:
برصغیر پاک و ہند کے شما ل مغر ب میں واقع خطہءارضی کشمیر جسے کشمیر جنت نظیر بھی کہا جاتا ہے کا کل رقبہ 69547مربع میل ہے۔تقسیم ہند کے وقت یہ ریاست دو حصوں میں تقسیم کر دی گئی ،اس وقت بھارت اس کے 39102رقبہ پرقابض ہے جو کہ مقبوضہ کشمیر کہلاتا ہے۔ جس کا دارالحکومت سری نگر ہے۔ بقیہ رقبہ آزاد کشمیر کہلاتا ہے جس کا رقبہ پچیس ہزار مربع میل پر پھیلا ہوا ہے۔

اس کا داراکحکومت مظفر آباد ہے۔ریاست کی کل آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے۔ جس میں سے پچیس لاکھ کشمیری آزاد کشمیر میں ہےں۔ہندو راجاو¿ ں نے تقریباً چار ہزار سال تک اس علاقے پر حکومت کی۔ 1846 میں انگریزوں نے ریاست جموں و کشمیر کو75لاکھ روپوں کی عوض ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں فروخت کیا۔

(جاری ہے)

کشمیر کی 80فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے جسے اس وقت ہندو راجہ نے بزور شمشیر غلام بنائے رکھا۔

جب تقسیم ہند کا اعلان ہو چکا تو اس کے بعد ہندو مہاراجہ ہر ی سنگھ نے مسلمانوں کی مرضی کےخلاف 26اکتوبر 1947 کو بھارت کے ساتھ ریاست کے الحاق کا اعلان کر دیا۔جس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ شروع ہو گئی مگر کچھ ہی دنوں بعد اقوام متحدہ کی مداخلت پر جنگ بندی کا اعلان کر دیا گیا۔اس کے بعد 1948میں سلامتی کونسل کی منظور شدہ قراردادوں میں پاکستان اور بھارت کو کشمیر سے فوجیں نکالنے اور وادی میں رائے شماری کروانے کا پا بند کر دیا گیا۔

بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرونے رائے شماری کروانے کا وعدہ کر لیا مگربعد ازاں وہ اپنے وعدے سے منحرف ہوگئے۔بھارتی رویہ کو دیکھ کر پاکستان نے بھی اپنی حکمت عملی ترتیب دیتے ہوئے بھارت سے آزاد کرائے گئے علاقہ میں آزاد کشمیر کی ریاست قائم کر دی اور یوں کشمیر ایک متنازعہ حیثیت اختیار کر گیا جوہنوز حل طلب چلا آرہا ہے۔26اکتوبر 1947 کا وہ دن گیا اور 26اکتوبر 2017کا یہ دن آیا مگر ستر سال گزر جانے کے باوجود آج تک مسئلہ کشمیر حل ہو سکتا نہ ہی مقبوضہ کشمیر کے نہتے بے گناہ مسلمانوں پر بھارتی بربریت ظلم و زیادتی میں رتی برابر بھی کمی آئی نہ ہی عالمی برادری کی اس طلم و ستم پر آنکھیں کھلیں۔

ستر برس گذر جانے کے بعد آج بھی مقبوضہ کشمیر کی خوبصورت ترین وادی میں بھارتی ظلم و بربریت کا بازار گرم ہے ،ہر طرف بکھری انسانی لاشیں اور زخموں سے چور انسانی چہرے بھارتی بربریت کی منہ بولتی تصویروں کی شکل میں د±نیا کے منصفوں کا منہ چڑا رہی ہیں مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔مقبوضہ وادی میں بھارتی درندے ہر روز کسی نہ کسی کشمیری دوشیزہ کو اپنی درندگی کانشانہ بنا نے میں زرا بھر نہیں چوکتے ،ستر برسوں کی درندگی ،بربریت اور ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے کے بعد بھارتی درندوں کو اذیت رسانی کا نیا ہتھیار ”پیلٹ گن“ کی شکل میں ہاتھ آیا تو اسے ایسا استعمال کیا کہ کشمیری نوجوانوں سے ان کی شناخت ہی چھین لی۔

چہرے یوں بگڑے کہ اپنے بھی نہ پہچان پائیں۔د±نیا کے منصفوں کو ظلم و بربریت کا یہ نیا ہتھکنڈا دکھایا گیا تو خاموشی اختیار کر لی گئی اور جب کشمیری مجاہدین اس طلم و ستم کے خلا ف سینہ سپر ہوئے تو ان کے سینے بھی گولیوں سے چھلنی کر دیئے گئے۔آج تک کے ان حالات کو اگر بنظر غور دیکھا جائے تو یہ حقیقت واضع ہو جاتی ہے کہ اس قابل مذمت صورتحال کے پیچھے ا ن ہی عالمی منصفین کا ہاتھ ہے جن سے ہم انصاف کی اندھی امیدیں وابستہ کئے بیٹھے ہیں کہ یہ مسئلہ کشمیر حل کر دیں گے۔

اس میں کوئی دو رائے بھی نہیں ہیں کہ مسئلہ کشمیر کا واحد پرامن حل ”اقوام متحدہ کی قراردادیں “ ہی ہیں مگر ان قرادادوں پر عملدرآمد کی رفتار کو دیکھا جائے تو یہ کہنے میں ہر کوئی حق بجانب ہے کہ مسئلہ کشمیر کے پر امن حل میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ رکاوٹ بھی یہی منصفیں ہی ہیں جو اپنے مفادات کی خاطر یہ مسئلہ اول تو حل نہیں کرنا چاہتے اور بالفرض محال اگر حل کرنا چاہتے بھی ہیں تو کشمیری عوام کی امنگوں نہیں بلکہ بھارتی خواہشات کے مطابق، جن میں ان کے اپنے ہی مفادات پوشیدہ ہیں۔

گذشتہ آٹھ دس برس کی تحریک آزادی کشمیر کی جدوجہد پر گہری نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تحریک کی سینئر قیادت اب قدرے تھک سی گئی ہے اور اس میں اب وہ جوش و جذبہ دکھائی نہیں دے رہا تھا جو پہلے تھا ،مگر ہمیں اس وقت ا طمینان ہوا جب کشمیری مجاہد برہان مظفر وانی نے جام شہادت نوش کر کے تھکی ہوئی تحریک آزادی کشمیر میں نئی روح پھونک دی اور اب یہ تحریک نئے دور میں داخل ہو کر ماضی کے مقابلے میںبہت تیز اور مضبوط ہو چکی ہے۔

مگر اس کے باوجود ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ اب پوری دنیا میں مظلوم کشمیری مسلمانوں کا حمایتی کون ہے ؟ تو اس سوال کا بڑا آسان جواب ” پاکستان “کی صورت میں سامنے آتا ہے کیونکہ پاکستا ن شروع دن سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کا حمایتی رہا ہے اور بھارت کی جانب سے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر بھارت سے سخت احتجاج کرتا رہا ہے۔ بلکہ یہاں تک کہ اسی مسئلہ پر پاکستان اور بھار ت دونوں کے درمیان جنگیں بھی ہوئی ہیں۔

پاکستان نے اس مسئلہ کے حل کی خاطر کئی بار بھار ت کو مذاکرات کی دعوت بھی دی جس پر دونوں ملکو ں میں مذاکرات کے کئی دور بھی ہوئے مگر بھارت ہٹ دھرمی اور میں نہ مانوں والی روش کی بنا ءپر یہ مذاکرات مذاکراتی مباحثوں سے آگے نہ بڑھ سکے جبکہ دوسری طرف مسئلہ کے حل کےلئے پاکستانی کوششوں پر نظر ڈالی جائے تو یہ ہنوز جاری ہیں۔جن کے تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے پچھلے ماہ بھی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ا س کے حل کی جانب عالمی برادری کی توجہ مبذول کروائی ہے۔

اس موقع پر وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر مودی حکومت کی سازشی ذہنیت کے تحت نہیں بلکہ کشمیریوں کی خواہشات اور یو این او کی قرادادوں کے مطابق حل کیا جائے۔وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ عالمی برادری کو اب یہ حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ مسئلہ کشمیر صر ف اور صرف زمین کے ایک ٹکڑے کا نام نہیں، اور نہ ہی یہ پاکستا ن اور بھارت دو ملکوں کے آپس کے معاملات کا مسئلہ ہے بلکہ یہ مسئلہ پورے خطے کی امن و امان کی مجمعوعی صورتحال کا مسئلہ ہے۔

جس کے اثرات لامحالہ پوری دنیا کے امن و امان کی صورتحال پر بھی پڑنا یقینی امر ہے۔کیونکہ جب تک پاک بھارت تعلقات میں بہتری نہیں آتی اسوقت تک علاقائی امن کی صورتحال میں بہتری نہیں آ سکتی اور جب تک دونوں ملکوں کے مابین جاری کشیدگی کی اصل وجہ مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو جاتا اس وقت تک دونو ں ملکوں کے تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے اور نہ ہی پاکستان اس مسئلہ سے الگ ہو سکتا ہے۔

مسئلہ کشمیر کے حل میں جہاں کشمیری ماو¿ں ،بہنوں ،بیٹیوں ،بچوں ، بوڑھوں اور نوجوانوں کی لازوال قربانیوں اور بے مثال جدوجہد کے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان کے اس دلیرانہ موقف اور ہر طرح کی مدد و تعاون کا تعلق ہے تو اسے جتنا بھی خراج تحسین پیش کیا جائے وہ اتنا ہی کم ہے۔ یہ بات اپنی جگہ خصوصیت کی حامل ہے مگر مسئلہ کشمیر کے حقیقی حل میں اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے کردار کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔

یہ امر خوش آئند ہے کہ او آئی سی نے 2015 میں اپنے ہونے والے ایک اجلاس میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے موقف کی حمایت اور قرارداد بھی پاس کی تاہم ضروری ہے کہ وہ اس سے سے زیادہ آگے بڑھ کر کام کرے اور عالمی برادری کو باور کروائے کہ وہ اس مسئلہ کے حل میں سنجیدیگی اختیار کرے۔ کیونکہ اقوام متحدہ کی مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں موجود قرادادوں پر عملد ر آمد کو یقینی بنانا صر ف اور صرف عالمی برادری ہی کا میندیٹ ہے جس کی اسے پاسداری کرنی چاہئے اور جس پر او آئی سی ہی اسے مجبور کر سکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Masalah Kashmir Ke Haal Main Munsafaon Ki Be-Insafi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 October 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.