مراعات میں اضافے کے خواہشمند ” ایوانوں“ سے غائب کیوں؟

سینیٹ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں میں ممبران کی حاضری غیر تسلی بخش سیاسی جماعتوں کو براشت کا کلچر پروان چڑھاکر جمہوری اقدار کے فروغ کے لئے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی

بدھ 27 ستمبر 2017

Marat Main Izafy K Khawhismnd Aiwano Sy Ghaib Q
محبوب احمد:
حکمران پارٹی ہو یا اپوزیشن جماعتیں ایک طرف دونوں ہی ”ایوانوں“ کی اہمیت کا ذکر کرتے نہیں تھکتیں، سیاسی بحران کے موقع پر تو خاص کر انہیں پارلیمنٹ کی اہمیت اور بڑھ کر یاد آتی ہے لیکن دوسری طرف ایوانوں سے غیر حاضری ان کے محب وطن ہونے کا واضح ثبوت فراہم کرتی ہے ۔ سینیٹ ہو یا قومی وصوبائی اسمبلیاں یہاں کے عوامی نمائندوں کی غیر حاضری کے خوفناک اعداوشمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والے یہ خالی”ایوان“ ملک وقوم پر بوجھ ، وقت اور قومی دولت کا ضیاع ہیں جہاں ارکان تو کیا وزیراعظم، وزراء اعلیٰ اور وزرا آنا پسند ہی نہیں کرتے، بظاہر دیکھا جائے تو پارٹی ٹکٹ کے حصول سے لے کر انتخابات میں کامیابی تک کیا۔

(جاری ہے)

کچھ نہیں کیا جاتا۔”ایوانوں“ میں پہنچنے کیلئے کروڑوں روپے لگا کر دھاندلیاں کرائی جاتی ہیں، ہنگامے اور خونریزی سے بھی گریزنہیں کیا جاتا، کامیابی کے بعد حلف برادری کے موقع پر نو منتخب ارکان فخریہ طور پر یہ عہد کرتے ہیں وہ ان ”ایوانوں“ کے احترام اور وقارکو ملحوظ خاطر رکھیں گے لیکن سب اس کے برعکس ہوتا ہے۔ عوامی نمائندوں کی غیر حاضری ان دنوں ہر ” ایوان“ کا ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے،گھنٹیاں بجتی رہتی ہیں بعد ازاں کو رم پورا نہ ہونے پر اجلاس ملتوی کردیئے جاتے ہیں، بیشتر اراکین اسمبلی تو اپنے الاؤنس اور تنخواہ پکی کرنے کیلئے صرف حاضری لگانے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔

جمہوری معاشرے میں”ایوانوں“کا تقدس سب سے مقدم ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ممبران کے درمیان تلخ کلامی اور ہاتھا پائی کے واقعات منظر عام پر آنا اب معمول کا حصہ بن چکے ہیں، عوامی نمائندوں کی ان ایوانوں میں قواعد وضوابط کی خلاف ورزی اور غیر حاضری لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے۔ ممبران کی اکثریت عموماََ ”ایوانوں“ سے غائب رہتی ہے لیکن اگر ان میں سے بیشتر اپنی حاضری کو یقینی بنا بھی لیں تو زیادہ تر وقت اپنا ذاتی کام کرانے میں صرف کردیا جاتا ہے۔

”ایوانوں“ سے ہونے والے مالی فوائد اور سہولیات کا جہاں تک تعلق ہے تو اس معاملے میں تمام اراکین متحد ہیں کہ ان میں وقتاََ فوقتاََ اضافہ ہوتا رہے اور وہ ان تمام سہولیات جن میں بیرون ملک سے علاج معالجہ کی سہولت بھی شامل ہے بھرپور استفادہ کرسکیں۔ سوال یہ ہے کہ عوام کے ٹیکس سے پرتعیش زندگی گزارنے ، مراعات اور تنخواہوں میں اضافے کے خواہشمند یہ ممبران“ایوانوں“ سے کیوں غائب رہتے ہیں؟ ۔

”ایوانوں“ میں پارلیمانی لیڈرز اور ممبران کی حاضری عموماََ مایوس کن ہی رہی ہے اور اراکین کبھی کبھار ہی اپنا چہرہ دکھانے کو ترجیح دیتے ہیں حالانکہ آئین کے آرٹیکل 64 کے تحت40 روز تک بغیر رخصت اسمبلی اجلاسوں سے غیر حاضر رہنے والا رکن نااہل قرار دیا جاسکتا ہے لیکن آج تک کوئی ایسا اقدام دیکھنے کو نہیں ملا کہ جس سے غیر حاضری پرکسی ممبر کو سزا کا مستحق قراردیا گیا ہو۔

” ایوانوں“ میں زیادہ تر اراکین کی توانائی قانون سازی سے زیادہ اپنے مخالف کی ٹانگیں کھینچنے میں بھی صرف ہوتی ہے اور اگر کاروائی کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ کوئی تقریری مقابلے کا مقام ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ” ایوانوں“ میں کورم پورانہ ہونے کی وجہ سے اکثر وبیشتر اجلاس ملتوی ہوتے ہیں لیکن اگر خوش قسمتی سے کورم پورا بھی ہوجائے تو مخالفین کے لئے وہ زبان اور وہ الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں کہ جن کے استعمال کا تصور مہذب مہاشرے میں نہیں کیا جا سکتا، بظاہر دیکھا جائے تو ملکی سیاست میں ایک عرصہ سے طوفان بدتمیزی برپا ہے۔

وزیراعظم اور وفاقی وزراء ان ”ایوانوں“ میں تشریف لانے کی زحمت کم ہی گوارا کرتے ہیں چہ جائیکہ کوئی اہم نوعیت کا قومی مسئلہ درپیش ہویا قوم کسی سانحے کی وجہ سے صدمے سے نڈھال ہولیکن اس موقع پر بھی اراکین کا رویہ مناسب نہیں ہوتا بلکہ تقریری مقابلے ہوتے ہیں، مسائل کے حل کی طرف توجہ ہونے کے بجائے ایک دوسرے پر لعن وطعن کرنے میں سارا وقت صرف کردیا جاتا ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ قومیں تاریخ سے کٹ کر زندہ نہیں رہ سکتیں اور بدقسمتی سے پاکستان میں ریاست نے تاریخ کو ہمیشہ ہی مسخ کیا ہے ، ان تمام لوگوں کی تاریخ جنہوں نے جمہوریت کی بالادستی ، قانون کی حکمرانی اور جمہوری روایات کے فروغ کے لئے قربانیاں دیں کو توڑ مروڑ کر پیش کیاگیا ہے، ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ نصابی کتابوں میں ان کی جدوجہد کو مناسب جگہ نہیں دی گئی۔

الحمد اللہ آج اس ملک میں ایک جمہوری نظام ہے اور پارلیمان آئین کے تحت کام کررہی ہے، لہٰذا مقتدر حلقوں پر فرض ہے کہ وہ طبقات جنہوں نے جمہوریت کے لئے قربانیاں دیں ان کی یاد کو محفوظ کیا جائے کیونکہ یہ پارلیمان کا وجود لوگوں کے مرہون منت ہے جنہوں نے سڑکوں پر آکر آمریت کا مقابلہ کیا اور جمہوری نظام کے لئے کوڑے کھائے اور صعوبتیں برادشت کیں، یہ بات حکمرانوں کو ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ رویوں میں تبدیلی کے بغیر جمہوری نظام کو استحکام نہیں بخشا جا سکتا، لہٰذا منزل کا حصول ممکن بنانے کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں برداشت کا کلچر پروان چڑھائیں اور جمہوری اقدار کو دفروغ دے کر اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں تاکہ جمہوریت کے اصل ثمرات سے مسفید ہوا جاسکے، موجود حالات میں احتساب کے لئے ایسا ادارہ تشکیل دینے کی اشد ضرورت ہے کہ جو غیر جانبدرانہ طریقے سے ملکی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکانے والے کرپٹ عناصر کا کڑا حتساب کرسکے۔

اس بات میں کوئی شک وشبے کی گنجائش نہیں ہے۔ کہ یہ ”ایوان“ ہی اصل طاقت کا سرچشمہ ہیں لیکن مقام افسوس ہے کہ پارلیمنٹ سے غیر حاضر رہنااور اس کے تقدس کا خیال نہ رکھنا ارکان کی اکثریت نے اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے۔ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا عہد کرنے والوں کو غیر اخلاقی اور غیر قانونی فعل زیب نہیں دیتے، لہٰذا سیاستدانوں کو اپنی حاضری یقینی بنا کر اپنے اختلافات پارلیمنٹ میں طے کرنے چاہئیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Marat Main Izafy K Khawhismnd Aiwano Sy Ghaib Q is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 September 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.