مقروضوں پر مبنی عارضی پالیسیاں

خلیجی ممالک سے آنے والے زرمبادلہ میں مسلسل کمی۔۔۔۔۔۔۔۔ ملکی فلاح وبہبود کی کبھی ضمانت نہیں دے سکتیں!

جمعرات 2 نومبر 2017

Maqroozo pr Mabni Aarzi paliciya
امیر محمد خان:
14 اگست 1947ء کو قیام پاکستان کے دن بانی پاکستان نے مساعد حالات میں افواجِ پاکستان سے اپنے خطاب میں کہا تھا ”ہمیشہ یادرکھیں افواج پاکستان’ پاکستان کے عوام اور ملک کی خدمت پر مامور ہیں، وہ ملکی پالیسی بنانے کی ذمہ دار نہیں م، یہ ڈیوٹی ہم سویلین کی ہے۔۔۔۔ “ ہمارے آج کے سیاست دان قائد کے اس فرمان کو بارہا بیان کرنے کی بالکل اس طرح کوشش کرتے ہیں جس طرح وہ قرآن مجید میں سے اپنے مطلب کے الفاظ نکال لیتے ہیں، ”نماز کے قریب مت جاؤ“ اس کا اگلا حصہ جس میں نشے کی بات کی گئی ‘ وہ بیان نہیں کرتے اور اپنی خرافات جاری رکھتے ہیں۔

اس طرح قائد کے فرمانوں میں سے اوپر تحریر کردہ لائن کا انتخاب کرلیتے ہیں نیز اپنی آنکھیں اس طرف سے بند کرلیتے ہیں جو بانی پاکستان نے طرز حکومت چلانے اور اقتدار کے دوران حکمرانوں کے رہن سہن کی بات کی تھی ۔

(جاری ہے)

اگر سیاست دان اس طرف توجہ دے لیتے تو لوٹ کھسوٹ کرنے والے سیاست دانوں کی زندگی مشکل جبکہ پاکستان کے عوام کی زندگی آسان ترین ہوتی اور پاکستان خارجہ امور ، معاشی امور میں جس تباہی کا شکار ہے وہ کبھی نہ ہوتا ۔

قدم قدم پر حکومتیں اپنی مصنوعی مضبوطی کا اظہار کرنے کیلئے یہ بیان بھی دیتی رہی ہیں کہ ” پاکستان کے تمام ادارے خصوصاََ عسکری قیادت اور سیاسی قیادت ایک صفحہ پر ہیں“۔ اگر اس بیان کو حقیقی رنگ میں دیکھا جائے تو صفحہ شاید ایک ہو مگر اسکی سیاہی علیحدہ علیحدہ لگتی ہے۔ اگر سیاست دان یہ کہتے ہیں کہ معیشت مضبوط ہے تو کیا عسکری قیادت اس ملک سے باہر رہتی؟؟ انہیں علم نہیں کہ معیشت کی کیا صورتحال ہے، مفروضوں پر بنی پالیسیاں ملک کی فلاح وبہبود کی کبھی ضمانت نہیں دے سکتیں۔

آج جب آئی ایم ایف کہتا ہے کہ پاکستان کی معیشت کی کیا صورتحال ہے، مفروضوں پر بنی پالیسیاں ملک کی فلاح و بہبود کی کبھی ضمانت نہیں دے سکتیں۔ آج جب آئی ایم ایف کہتا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو 31 ارب کی ضرورت ہے تو ہماری وزارتِ خزانہ بیان داغتی ہے کہ یہ اعدادوشمار غلط ہیں، آئی ایم ایف کو ہماری ترقی کا علم نہیں، وغیر وغیرہ۔۔ جو ادارہ دنیا بھر کی معیشت پر اپنی نظر رکھتا ہے وہ غلط ہے؟؟ ہمارا کہنا ہے کہ آئندہ سالوں میں بیرون ملک سے آنے والے زرمبادلہ میں بڑا اضافہ ہوگا،(جو ایک مفروضہ ہے)اس وقت جب دنیا میں بڑے بڑے ممالک میں معیشت انحطاط کا شکار ہے پاکستانیوں کی بڑی کھیپ بیروزگار ہو کر واپس پاکستان آرہی ہے، جس میں خلیجی ممالک بھی شامل ہیں جہاں کی ٹیکس فری آمدن سے ایک بڑا حصہ زرمبادلہ کی شکل میں پاکستان آرہاتھا مگر وہ زر مبادلہ کی مشینیں جنہیں کسی بھی حکومت کی جانب سے کبھی کوئی قابل رشک ریلیف نہیں ملا وہ خود بھی بیروز گار ہو کر پاکستان آرہے ہیں، اس لئے وزارت خارجہ اس پر ”نظر“ نہ ہی رکھے تو آئندہ کی پالیسی مرتب ہوسکتی ہے۔

اراکین اسمبلی، حکومتی اراکین اور تمام اداروں سے منسلک لوگ عوام کے ٹیکسوں سے اپنی تنخواہ اور مصارف حاصل کرتے ہیں کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی بھی پالیسی پر ہونے والے اختلاف پر بیان بازی کرکے ملک کو تماشہ نہ بنائیں اور کوئی ایک پالیسی بنائیں۔ افواجِ پاکستان ایک بہادر ادارہ ہے وہ ملک سے دہشت گردی کو مٹانے کیلئے نہ صرف کوششیں کررہا ہے بلکہ اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کررہا ہے۔

اگر اس کی کوششوں پر پانی پھیرنے، اس کی صلاحیتوں پر بھروسہ نہ کرتے ہوئے ملک میں دہشت گردوں کے خلاف امریکہ کے ساتھ مل کر”مشترکہ“ آپریشن کا عندیہ امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے وزیر خارجہ خود ہی دے دیں تو جو لوگ اپنی جانیں دے رہے ہیں ان کا ردعمل ایک فطری عمل ہے۔ آج پاکستان کی صورتحال میں جو انار کی پائی جاتی ہے وہ اگریہ کہا جائے تو کسی حد تک غلط نہ ہوگا کہ اس میں ”نام نہاد آزاد“ میڈیا کا بہت عمل دخل ہے۔

گزشتہ دنوں آئی ایس پی آر کے ترجمان جنرل آصف غفور کی پریس کانفرنس اگر غور سے دیکھی جائے تو اس کا ثبوت بھی مل سکتا ہے ”کچھ ہونے “ کی توقع رکھنے والے صحافی اپنی ریٹنگ کیلئے جو سوالات کررہے تھے یا وہ سننا چاہتے تھے تو وہاں ایسا کچھ نہ تھا ان کی امیدوں پر پانی پھرگیا جب جمہوری عمل میں عسکری قیادت کے ایمان کا عندیہ دیا گیا۔ میڈیا کو توقع تھی کہ یہ ”کچھ“ کہیں گے پھر سیاست دانوں سے کچھ کہلوائیں گے مگر ایسا نہ ہوسکا ، بحیثیت ایک محب وطن پاکستانی ایک چھوٹا سا مشورہ یہ ہے کہ اگر ذمہ دار لوگ آپس میں میڈیا کی زینت بنے بغیر پالیسی مرتب کریں اور طے کرلیں تو پھر میڈیا میں آکر دنیا بھر میں تماشہ نہیں بنیں گے نیز پاکستان کے عوام بھی غیر یقینی صورتحال کا شکار نہ ہون گے ،جو پہلے سیاست دانوں کے جھوٹ اور انکے بیانات سے پریشان ہیں۔

وہ پریشان ہیں کہ جو لوگ اربوں روپے کی کرپشن کرتے ہیں وہ کس طرح سیاست میں دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اور دوسروں پر کرپشن کے الزام لگاتے ہیں، وغیرہ وغیرہ، اس سے نہ صرف نئی نسل مایوسی کاشکار ہوتی ہے بلکہ سیاستدان جگ ہنسائی کا سبب بنتے ہیں ، سیاست دانوں کا مارشل لاء کا خوف رہتا ہے جبکہ پاکستان کی ہر سیاسی پارٹی نے ہمیشہ کچھ جنرلوں کا سہارا لے کر اسلام آباد کی دوڑ لگائی ہے، مگر اب افواج پاکستان کی صورتحال مختلف ہے وہ اس ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنے پر مصروف ہیں چونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کا ناسور اس ملک کی ترقی اور اس میں سرمایہ کاری کا دشمن ہے غیر ممالک ہماری نادانیوں سے اپنی جنگ ہماری سرزمین پر لڑنے کے خواہاں رہتے ہیں اور ایسا ہوتا بھی رہا ہے۔

ستر سالوں ، میں ملکی معیشت میں بہتری کی بازگشت میاں نواز شریف کے دور میں ہی سنی جاتی رہی ہے مگر اب انہیں اس بہتری کی سزا مل رہی ہے اور عاقبت اندیش مشیروں نے انہیں نہ جانے کہاں لاکھڑا کیا ، جس کا نقصان صرف اور صرف میاں خاندان کو ہورہا ہے۔ دوست یہ بھی کہتے ہیں کہ ”مشورہ بازوں“ کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیاسی شہید بنا جائے ، مستقبل میں کچھ کہنے کو تو ہوگا اور سیاست کرنے میں آسانی ہوگی۔

مگر یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ سیاسی شہداء کا زمانہ چلا گیا ہے اور ، اب پاکستانی افواج کی ایسی کوئی خواہش نہ ہے نہ ہی بین الاقوامی طور پر یہ پسندیدہ عمل ہے بلکہ ملک کو مزید گہرے گڑھے میں دھکیلنے کے مترادف ہوگا۔ اس لئے آئی ایس پی آر نے بہت واضح الفاظ میں اس بات کی تردید کی ہے اور سیاست دانوں اور حکومت کا آگاہ کیا ہے کہ افواج پاکستان کے تمام تر اقدامات حکومت وقت کے ایماء پر ہوتے ہیں یہ ایک بڑی مزے دار یاددہانی ہے، افواج پاکستان اور تمام ادارے حکومت کے ماتحت ہوتے ہیں مگر ان کی تعیناتی کے بعد سیاست دان اپنے کرتوتوں کی بناء ان سے کائف رہتے ہیں۔ چونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایک افواج پاکستان ادارہ ہے جو ”ہینکی پھینکی“ پسند نہیں کرتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Maqroozo pr Mabni Aarzi paliciya is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 02 November 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.