منشیات کوبین الاقوامی سطح پر انتہائی خطر ناک قرار دیا گیا ہے

پاکستان میں ہیروئن کا استعمال روس اور افغانستان کی جنگ کے بعد شروع ہوا۔ انگریز کیمیادان نے دشمنوں کو نقصان پہنچانے کے لیے اسکو 1874 میں دریافت کیا

ہفتہ 27 مئی 2017

Manshiyat Ko Bain ul Aqwami Satah Par Intahai Khatarnak Qarar Dia Gaya Hai
رمضان اصغر:
ہیروئن کا اصل نام ڈی اسٹیل مرفین ہے جسے 1874 ء میں ایک انگریز کیمیادان نے دریافت کی اس دریافت کی اصل وجہ دشمنوں کو نقصان پہنچاتا تھا۔پاکستان میں ہیروئن کا استعمال روس اور افغانستان کی جنگ کے بعد شروع ہوا۔پاکستان میں 1984 سے آج تک ایک اندازے کے مطابق 30 لاکھ کے قریب لوگ ہیروئن سے ہلاک ہو چکے ہیں اور آج بھی 45 لاکھ کے لگ بھگ چھوٹے بڑے مرد عورتیں ہیروئن استعمال کر رہے ہیں۔

یہ اکثریت ہمار نوجوان طبقہ ہے جو کم عقلی اور مختلف مایوسیوں سے گھبرا کر منشیات کی دنیا میں کود پڑتے ہیں۔ہیروئن کا عادی ہیروئن کو سگریٹ،بیڑی یا انجکشن کے ذریعے استعمال ہے دوران استعمال اسکی زندگی موت کی دہلیز پر گھٹنے ٹیکے ہوئے ہوتی ہے۔اگر تھوری سی بھی اونچ نیچ ہو جائے تو موت کا شکار ہوجاتے ہیں اگر انہیں وقت پر ہیروئن نہ ملے تو انکی حالت بگڑنے لگتی ہے انکی آنکھیں ڈبڈبا نے لگتی ہیں۔

(جاری ہے)

ناک سے پانی بہنا شروع ہو جاتا ہے انکو بھوک کم لگتی ہے درد اور خوف سے انہیں پورے جسم میں جنجلاہٹ سی محسوس ہوتی ہے۔انکی جسمانی اور ذہنی حالت بے چینی،بے سکونی اور گھبراہٹ کا شکار ہوتی ہے اس وقت یہ اپنے ناخنوں سے اپنے جسم کو کاٹنے لگتے ہیں اور ہیروئن کا عادی ہیروئن کے لیے دنیا کا کوئی بھی کام کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔کیونکہ اس وقت اسکی سوچ اسے جواب دے چکی ہوتی ہے۔

یہ اپنے کنٹرول سے باہر ہوتا ہے اور اسے اپنے اور پرائے کا خیال نہیں رہتا۔یہ نہ کمانے کے لائق ہوتا ہے اور نہ کہی بیٹھنے کے۔بلکہ یہ اپنے رشتے داروں اور دوست احباب پر بوجھ بنے رہتے ہیں۔اور اکثرخاندان انہیں کی وجہ سے مختلف مسائل میں گھرے رہتے ہیں۔بلکہ ہیروئن کے عادی کے اہل خانہ کی پوری زندگی شرم ساری اور ذلت میں گزرتی ہے کیونکہ یہ پورے معاشرے میں بدنما داغ ہوتے ہیں۔

انکی اپنی زندگی بھی مختلف پریشانیوں،بیماریوں اور دھکوں میں گزر جاتی ہے۔لوگ انہیں نہ صرف بر ابھلا کہتے ہیں بلکہ ان سے نفرت کرتے ہیں یہ ہر وقت غلیظ حالت میں گندگی کے ڈھیروں پر پڑے رہتے ہیں انہیں نا اپنی فکر رہتی ہے نہ گھر والوں کی عزت کا خیال،ان کا Traget صرف ان کا نشہ ہوتا ہے۔منشیات فروش ڈیلر پاکستان میں سالانہ کروڑوں ،اربوں روپے منشیات کے ذریعے کماتے ہیں۔

اور اس رقم کا 20 فیصد حصہ کرپٹ قانونی آفیسران میں تقسیم کرتے ہیں جس کی وجہ سے انکے خلاف سخت کاروائی نہیں کی جاتی۔ لیکن آپ صرف ایک منٹ کیلئے ان ماؤں کے بارے میں سوچئے جن کے لخت جگر انکے سامنے روز تڑپتے اور مرتے ہیں۔جنکی جوانیاں اجڑ جاتی ہیں جن سے وابستہ درجنوں زندگیاں تباہ ہو جاتی ہیں یہ مائیں گڑگڑا کر ان کرپٹ حکمرانوں،کرپٹ افسران اور منشیات فروشوں کو بددعائیں دیتی ہیں۔

آج ہیروئن،چرس ، بسوں ،ٹرکوں اور دوسری قیمتی گاڑیوں کے خفیہ خانوں میں یا پھلوں کے کریڈوں میں یا لیڈیز سامان کے ذریعے باآسانی پاکستانی شہروں میں منتقل کی جاتی ہیں۔منشیات کو بین الاقوامی سطح پر انتہائی خطرناک قرار دیا گیا ہے۔ ان پر سخت سے سخت قانونی قوانین بنا کر ان پر عملدرآمد کیا جارہا ہے۔بعض ممالک منشیات کو کافی حد تک کنٹرول کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے ہیں منشیات کے خلاف کئی مہمیں چلیں ہو ئی ہیں کچھ ملکوں کے اندر آپریشن بھی ہوئے ہیں۔

لیکن بدقسمتی سے پاکستانی حکمرانوں نے منشیات کے خلاف سخت ایکشن نہیں لیا۔یہاں ہیروئن ،چرس،افیون اور شراب اتنی تیزی سے پھیل رہی ہے جس کا آپ اندازہ نہیں لگا سکتے یقین کیجئے شراب اور چرس ہمارے ملک میں اتنی عام ہو گئی ہے اب ہمارانوجوان طبقہ سگریٹ،چرس اور شراب کو بطور فیشن استعمال کرتا ہے۔ آپ کو گلی محلے میں بیشمار چہرے دیکھائی دیں گے جو چرس اور شراب کو استعمال کرتے ہوں گے سگریٹ اور تمباکو تو ہر دوسرے گھر کا حصہ بن چکا ہے اور پریشان کن بات تو یہ ہے کہ ہماری بیٹھکوں،چوکوں اور گراؤنڈوں میں کھلے عام چرس اور شراب پی جاتی ہے لیکن ڈر اور خوف سے کوئی اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا سب انہیں دل میں برابھلا کہہ کر بات کوختم کردیتے ہیں۔

1979 میں چرسی اور شرابی کہیں کہیں نظر آتے تھے وہ بھی اہل علاقہ ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ان پر طرح طرح کی باتیں کرتے،ان پر سختی کی جاتی آج صورتحال یہ ہے کہ آپ کسی کو اچھا مشورہ بھی نہیں دے سکتے کیونکہ لوگ برا منا جاتے ہیں۔جس کی وجہ سے مزید نوجوان طبقہ شراب اور چرس کی طرف بڑھ رہا ہے۔اور شرابی،چرسی بے حس لوگ منشیات استعمال کر کے اپنے بچوں بڑوں کے درمیان بیٹھے ہوتے ہیں افسوس ہمارے ضمیر جواب دے گئے ہیں۔

تمباکو سگریٹ اور شراب امریکہ کی شروعات ہیں افیون برصغیر میں سکندراعظم نے متعارف کرائی تھی کیونکہ جب سکندراعظم کا کوئی بھی سپاہی زخمی ہو جاتا تو یہ اسے افیون کا ٹکڑادیتے اس سے انسان کو درد کی شدت کم محسوس ہوتی ہے۔اب ہیروئن چرس افغانستان میں تیار کی جاتی ہے امریکہ نے 1988 میں اپنی 78 فیصد ادویات میں افیون کا استعمال کیا تھا اور 1913 میں امریکہ نے چین میں افیون اتنی عام کی کہ چین کا ہر تیسرا بندہ افیونی تھا،اور چینی قوم دنیا میں افیونی مشہور تھی۔

لیکن آج چینی قوم دنیا میں کہاں کھڑی ہے یہ ہمارے لیے ایک عمدہ مثال ہے ہیروئن کے عادی لوگوں کے لیے پاکستان میں نئی زندگی کے نام سے مختلف ہسپتال بن چکے ہیں لیکن یہ مختلف مسائل کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔یہاں مریضوں کی صحیح دیکھ بھال نہیں کی جاتی جس کی بڑی اور اہم وجہ وسائل کی کمی اور حکومتی لاپرواہی ہے۔دنیا کا ہر ملک اپنی نوجوان نسل کو محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں نواجوان طبقہ زیادہ ہے اور پاکستانی حکمران اپنے نوجوانوں کیلئے کچھ نہیں کر رہے اگر ایسی صورتحال رہی تو ہمارا نوجوان طبقہ مزید منشیات سے تباہ ہوجائے گا جو زندہ قوموں کے لئے پریشان کن بات ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Manshiyat Ko Bain ul Aqwami Satah Par Intahai Khatarnak Qarar Dia Gaya Hai is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 May 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.