لاہور سموگ کا شہر کیوں بن گیا؟

لاہور باغوں اور پھولوں کے حوالے سے مشہور چلا آرہا ہے گزشتہ سال سے سموگ کی ایک وسیع چادر لاہورکی فضامیں چھائی نظر آتی ہے جس کی موجودگی میں دیکھنے کی صلاحیت سو میٹر بھی نہیں رہ گئی جبکہ سموگی فضامیں سانس لینا اور آنکھوں کو کھلا رکھنا ناممکن ہوچکا ہے۔

پیر 13 نومبر 2017

Lahore Smog Ka Shehar Kiun Ban Gaya?
اسلم لودھی:
لاہور باغوں اور پھولوں کے حوالے سے مشہور چلا آرہا ہے گزشتہ سال سے سموگ کی ایک وسیع چادر لاہورکی فضامیں چھائی نظر آتی ہے جس کی موجودگی میں دیکھنے کی صلاحیت سو میٹر بھی نہیں رہ گئی جبکہ سموگی فضامیں سانس لینا اور آنکھوں کو کھلا رکھنا ناممکن ہوچکا ہے۔ شہریوں نے اپنے طور پر آپریشن ماسک اور رومال سے چہرے ڈھانپ لئے ہیں کچھ لوگ یہ زحمت بھی گوارا نہیں کرتے اور موذی بیماریوں کی گرفت میں آجاتے ہیں اس سے پہلے کہ ہم حکومتی اور انتظامی اداروں کی نااہلی اور غیر ذمہ داری کی بات کریں۔

بحیثیت انسان اور پاکستانی ہمیں اپنے گریبان میں ضرور جھانکنا چاہیئے کیونکہ ایک انفرادی فعل جب اجتماعی بن جاتاہے تو ایسے سانحات یقینا رونماہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس میں انتظامی کوتاہیاں بھی شامل ہیں پرانی فصلوں کو جلانا ، پیٹرول کی آلودگی ، فیکٹریوں کارخانوں ، سٹیل ملوں اور اینٹوں کے بھٹوں سے نکلنے والے دھواں اور گیسیں بھی فضائی آلودگی کا باعث بنتی ہیں یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ لاہور پنجاب کادارالحکومت ہے صفائی نہ ہونے کے برابر ہے جگہ جگہ کوڑا بکھرا دکھائی دیتا ہے۔

کوڑا بکھیرنے اور جگہ جگہ احتجاجی جلوس نکال کر پرانے ٹائروں کو آگ لگانے میں ہم جیسے شہری بھی کسی سے پیچھے نہیں ایک اور اندازے کے مطابق لاہور میں پچاس لاکھ سگریٹ نوش ہیں جو سرے عام سگریٹ کے کش لگا کر دھویں کے مرغولے بناتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ پچاس لاکھ افراد جب اکٹھے ہوئے دھواں نکالیں گے تو اینٹوں کے بھٹے سے بھی زیادہ دھواں ان کی وجہ سے پیدا ہوگا۔

میں والٹن کنٹونمنٹ بورڈ کے علاقے میں رہتا ہوں ۔ جہاں وائس چیرمین چوہدری سجاد احمدکی تمام تر کوششوں کے باوجود کنٹونمنٹ کا علاقہ صفائی کے اعتبار سے مثالی نہیں بنا جگہ جگہ کوڑے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں یہی حال میٹروپولیٹن کارپوریشن کا ہے جہاں ایک منظور نظر شخص کو نوازے کے لیے لارڈ میئر تو بنا دیا گیا ہے لیکن شہرکوصاف ستھرا اور روشن رکھنے میں لارڈ میئر کی کوئی دلچسپی نہیں۔

پنجاب یونیورسٹی کے کالج آف ماحولیات کے پرنسپل ڈاکٹر ساجد رشید کے مطابق اس سموگ سے گلے ، سانس ، جلد ،دل اور آنکھوں کی بیماریوں تیز ی پھیل رہی ہیں ان کے مطابق سموگ سے نجات کے لیے حکومت کو کھیتوں میں آگ اور سڑکوں پر اور اسٹیل ملوں میں پرانے ٹائر جلانے پر پابندی لگائے کوئی بھی گاڑی اس وقت تک سڑک پر نہ آئے جب تک اس کے پاس فٹنس سرٹیفکیٹ نہ ہو۔

مزیدبرآں زیادہ سے زیادہ درخت اور پھول دار پودے ،شاہراہوں ، گھروں کے اندر اور باہر لگائے جائیں۔ فیکٹریوں ، بھٹوں ، سٹیل ملوں کو پابندکیاجائے کہ وہ ٹریٹ کے بغیر اپنے پیداکردہ دھوئیں کو فضا میں نہ چھوڑے۔ بہرکیف اس لمحے جبکہ لاہور کے رہنے والے سموگ کی وجہ سے سخت پریشان ہیں۔ عدالت میں اس حوالے سے سماعت جاری ہے دیکھیں انتظامی ادارے کیا جواب دیتے ہیں اور شہریوں کو بچانے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں لیکن شہریوں کو چاہیئے کہ ہر چھوٹا بڑا شخص اپنے حصے کا ایک درخت لگائے اور پھول دار پودے گھر کے اندر یا باہر لگانا کبھی نہ بھولیں اور گرمیوں میں سایہ فراہم کرتے ہیں حکومت وقت کو چاہیے کہ ہر یونین کونسل میں کم ازکم ایک چھوٹا بڑا پارک بنائے جہاں لوگ سیرکے لیے جایا کریں یہ وہ طریقے ہیں جن سے عذاب الٰہی سے بچتے ہوئے سموگ جیسی صورت حال سے بچا جا سکتا ہے اور انسانی صحت بھی قابل رشک ہو سکتی ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Lahore Smog Ka Shehar Kiun Ban Gaya? is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 13 November 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.