کیا اسلامی بلاک کی راہ ہمواہ ہوجائے گی؟

مقبوضہ بیت المقدس پر امریکی پالیسی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مشرق وسطیٰ امن میں روس ”اِن“امریکہ”آؤٹ“

بدھ 20 دسمبر 2017

Kya Islami Block Ki Rahh Hmwaar HU Jaye Gi
امتیاز الحق:
 مسلمانوں کے قبلہ اول ، سب معراج کی حقیقت ، مسلمانوں کی بیت المقدس کے ساتھ تاریخی وابستگی ایک مسلمہ سچائی ہے۔ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کے ٹرمپ کے اعلان نے جہاں اسلامی دنیا میں اتفاق رائے پیدا کردیا ہے وہاں مغرب نے بھی مسلمانوں کی اس اہم جگہ بارے جذبات اور موقف کی حساسیت پر امریکہ کے اس فیصلے کے خلاف آواز بلند کی ہے ۔

مغرب کے واضح موقف اختیار کرنے کا ایک محرک اربوں مسلمانوں، ان کی ریاستوں،حکومتوں کی مارکیٹ کا چھین جانے کا بھی خطرہ ہے۔ علاوہ ازیں برسوں کی مسلم اُمہ کی کوششوں میں پڑتی ایک جان سے مغرب مرعوب نظر آتا ہے۔ فوری طور پر عالمی ردعمل نے ایک جانب واشنگٹن اور یورپ میں دودریاں پیدا کرنے کی بنیاد فراہم کر دی ہے دوسری جانب مشرق ومغرب مذکورہ معاملہ پر ایک پیج پر نظر آرہے ہیں۔

(جاری ہے)

امریکہ کے بہت سے صد ورتاریخی وردایتی طور پر اپنے عوام کے بڑھتے ہوئے مسائل، سطح پر بتدریج سکٹرنے کی وجہ سے ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں کامیاب ہونے والے صدور نے عوام کے اندرونی مسائل کے حل کے نام پر ووٹ لئے لیکن وہ ٹیکسوں کی بھر مار کم کی جانے والی سہولتوں امریکی عام آدمی کے مسائل پر قابونہیں پاسکے ہیں اور اپنے ہی ووٹر کی ناراضگی کو ختم نہیں کرسکے۔

ہر جانے والا صدر آنے والے حکمران کیلئے اندرونی مسائل کا انبار لگا کر چلتا بنا ہے خود موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صحرا بن جانے والی انڈسٹری کی تناہی والے شہروں کے امریکی ریاستوں کے ڈیمو کریٹ ووٹرز کے ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی اور دنیا کے امریکی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین ، تجزیہ نگاروں اور مبصرین کو حیرت زدہ کردیا تاہم خیال کیا جارہا تھا کہ سابق صدر کے چھوڑے ہوئے کے ورثہ کو ٹرمپ ختم یا کم نہیں کرسکیں گے جس نے جرام کو بڑھایا، نسلی تفریق پیدا کی بیروز گاروں کی ایک فوج ظفر موج میں اضافہ کیا۔

افغانستان میں مسلسل فوجی ناکامی سے مجموعی فوج کو مورال کم ہو ا۔ خفیہ سکیورٹی اداروں میں باہمی چپقلش ایک ہی معاملے کی تحقیق پر خفیہ ایجنسیوں کی مختلف رپورٹیں ان کی باہمی لڑائیاں، سٹاف میں بددلی، حکمران اشرافیہ میں ابہام عوام میں صحت کی سہولتوں پر پریشانی وناراضگی کا اظہار بے گھر لوگوں کی تعداد میں اضافہ کانگرس میں ریپبلکن کی باہمی ناراضگیاں ڈیمو کریٹ کا نگرس میں کاریپبلکن کی اور ریپبلکن کا ڈیمو کریٹس کی پوزیشن پر آنا ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اپنی پالیسیوں کیلئے دونوں پارٹیوں کے نمائند گان کا مطمئن کرسکیں۔

مزید براں ان کے عہدہ صدارت سنبھالتے ہی لاکھوں لوگوں کا حلف برادری کے موقع پر ٹرمپ کے خلاف مظاہرہ ، عدالتوں کی جانب سے ان کے خلاف فیصلے امریکی ریاستوں میں گاہے بگاہے مظاہرے مظاہروں میں جذباتیت کے ساتھ تشدد کا عنصر غالب آنا عام امریکیوں کو اسلحہ رکھنے اور اسکے استعمال سے انسانی جونوں کے ضیاع کے علاوہ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی منظم ،جرائم پیشہ اور مجرموں کی بڑھتی کاروائیاں واقتصادی بدعنوانیاں ایسی صورتحال میں بقول سابق صدر بل کلنٹن”بہت سے امریکی صدور داخلی ناکامیوں کی بدمزگی دور کرنے کے لئے خارجہ پالیسی کو ترجیح دیتے ہیں۔

“ یہ امریکی صدر 55 فیصد معیشت اور ہیلتھ کیئر 25 فیصد فارن پالیسی اور 20 فیصدداخلی امور پر اپنا وقت گزارتے ہیں موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ مجموعی طور پر 75 فیصد داخلی معاملات پر توجہ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ راہ فرار اختیار کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ دنیا میں ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ اس 75 فیصد سے جان چھوٹ جائے ۔ کرپشن ”منی لانڈرنگ“ روس بارے تحقیقات کے ضمن میں شرمندگی کمزور ہوتی ہوئی اپنی اپوزیشن بااثر اور امیر یہودی ہی سہارا بن سکتے ہیں۔

ٹرمپ سوچے سمجھے منصوبے پر عمل کررہے ہیں بلکہ یوں کہنا بہتر ہے کہ منصوبہ پر ان کے ذریعے عمل درآمد کرایا جارہا ہے ۔ مقصد بہت واضح ہے کہ مشرق وسطیٰ میں قومی تقسیم کو نسلی تقسیم میں بدل کر مسلکی تضاد پیدا کیا جائے۔ شام میں واضح شکست روس اور بشار الاسد کا مضبوط ہونا ، لبنان میں اسرائیل مخالف حزب اللہ کے جنگجوؤں کا اسرائیلی بحریہ کو شکست ، اسرئیلی ایجنوں کا حزب اللہ کے خفیہ ٹھکانوں کا سراغ لگانے میں ناکامی کا خوف ایران، عراق، ترکی ، شام کی مشرق وسطیٰ میں مضبوط ہوتی صورتحال تعاون دوستی علاوہ ازیں پاکستان کا واضح طور پر امریکی قیادت کے سامنے موقف ڈومور سے انکار ”ڈبل کوششوں“ سے معذرت روس، چین ،ایران، ترکی سے بڑھتے ہوئے مضبوط ہوتے تعلقات کے اعتماد نے امریکی انتظامیہ ، قیادت ، اشرافیہ کو محض پریشان نہیں کیا ہے بلکہ امریکی انتظامی ڈھانچے میں تفریق اور تقسیم بھی پیدا کردی ہے۔

انتظامیہ میں تقسیم کے باعث پاکستان کو اس حصے کی بھی حمایت مل گئی ہے جودنیا کے حالات کے باعث حقیقت پسندانہ پالیسی، رویہ اور فیصلے کرنے پر زور دیتا ہے لیکن اندرونی طور پر یہ حصہ کمزور ہے اس کے برعکس بحرانوں کو پیدا ، جنگوں کا اضافہ، کشیدگی بڑھانے کی وکالت کرنے والا عنصر مضبوط دکھائی دیتا ہے جس نے ٹرمپ پر زور دیا کہ شام کا قضیہ ختم، افغانستان میں کامیابی سے دور لیکن ایشیائی ملکوں کے سرپر موجودگی کافی نہیں ہے۔

مشرق وسطیٰ میں عرب اسلامی ریاستیں باہمی دست وگریباں ہیں لہٰذا موقع ہے کہ شام سے بیدخلی کے نتیجہ میں مصر، لبنان میں داخل ہوا جائے اس کے لئے مناسب یہی ہے کہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارلحکومت بنانے کے حوالے سے نیا شوشہ چھوڑا جائے جس سے دو فوائد حاصل ہونگے امریکی عوام کی توجہ بیرونی خطرات پر چلی جائیگی اور وہ اندرونی طورپر خوفزدہ ہونگے کہ اب داعش ایسی تنظیمیں امریکہ اور مغرب میں حملہ آور ہونگی کیونکہ مغرب ومشرق میں زبانی جمع خرچ ہوگا مجموعی طور پر ان کی بے عملی القاعدہ، الشباب النصرہ کے بھگوڑوں ، داعش لڑکوں کو مداخلت کا جواز فراہم کریں گے جس کے نتیجہ میں مسلم ممالک میں نسلی وفرقہ وارانہ بحران سے کشیدگی بعد ازاں جنگ کا اکھاڑا بنے گا۔

ندائے ملت کے گزشتہ شمارے میں اب بات کا تذکرہ کیا گیا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں جنگ اور امن کی کوششیں تیز ہونگی۔ امریکی اشرافیہ ، پینٹا گون ، سی آئی اے مذکورہ مسئلہ میں نئی جنگ کی تیاری کررہی ہیں۔ شام میں اس کی شکست اسے ہضم نہیں ہورہی ۔ اس اشرافیہ نے لبنان میں وزیراعظم سعد حریری کے ذریعے مصنوعی بحران پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن لبنان میں عوام اور اسرائیل مخالف کو شامل کرکے لبنان پر حملہ کرنے کی صورت میں کی گئی لیکن سعودی عرب نے واضح طور پر ایسی کسی سازش کا حصہ بننے سے انکار کردیا، مزید براں روس کی خطہ میں مضبوط ہوتی پوزیشن سعودی عرب کو اسلحہ سازی کی انڈسٹری لگانے اور اس کے ماہرین کو تربیت دینے، تجارت اور دفاعی ضرورتوں کوپورا کرنے کے مثبت اشاروں نے سعودی قیادت میں اعتماد پیدا کیا کہ روس سعودی عرب کے اندرونی معاملات میں دلچسپی نہیں بلکہ جیسی بھی حکومت ہے اس کا احترام کرتا ہے ایسی پالیسی نے ایران پر اعتماد اور ترکی سے تعاون سے مجبور کردیاہے۔

تینوں ملکوں نے مشرق وسطیٰ میں امن قائم کرنے کیلئے روس کے شہر سوچی میں اجلاس منعقد کیا ۔ بعد ازاں پاکستان نے شنگھائی کانفرنس میں شریک ہوکر سوچی اجلاس کی اہمیت بڑھا کہ مشرق میں پاکستان بھی اہم کھلاڑی کی حیثیت رکھتا ہے قبل ازیں پاکستان کی عسکری قیادت تہران بعد ازاں ریاض کا دورہ کرکے امریکہ کو پیغام دے چکی تھی کہ ”نومور“ ایسی صورتحال حالات میں روس خطہ میں امن معاہدہ کرانے کی پوزیشن میں آگیا ہے ۔

واضح نظر آرہا ہے کہ نام نہاد مشرق وسطیٰ امن کا دعویدار امریکہ آؤٹ اور”روس“ اِن ہورہا ہے ۔ صدر ٹرمپ کے فیصلے کی مہذب دنیا میں بین الاقوامی قانون کی واضح خلاف ورزی تصور کی جارہی ہے۔ فلسطین کے عوام کے حقوق کے خلاف حق میں اور بداخلاقی اور نفرت کی شکل میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اس فیصلے سے قابل عمل امن قائم نہیں ہوسکتا ۔ ایسا امن جو فلسطینیوں کو انصاف مہیا کرے۔

صدر ٹرمپ کے اس عمل سے امریکہ اور اسرائیل عالمی سطح پر تنہا گئے ہیں۔ فلسطین پراسرائیل کا حق ناقابل یقین ہے۔21 ویں صدی میں بین الاقوامی قانون کی بالادستی اور سفارتکاری کا امتحان ہے کہ کتنی دانشمندی سے خطہ کو پر امن بنایا جاسکتا ہے۔ یروشلم غیر مساوی طور پر اور بے شک فلسطین کا حصہ ہے۔ اقوام متحدہ یورپ، افریقہ، ایشیاء، لاطینی امریکہ عالمی سطح پر چوتھے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی پر آواز بلند ہورہی ہے جو آرٹیکل 49 کے تحت فلسطینی شہریوں کی جبری بید خلی ، منتقلی ان کے علاقے پر قبضہ کرنے کے خلاف ہے۔

وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان عالمی برادری کے ذریعے ایران ، ترکی عرب ومسلم ممالک کی کانفرنس کا انعقاد کرے جو اس کی ان حالات میں بین الاقوامی ذمہ داری بھی بنتی ہے۔ عالمی برادری پر زور دیا جائے کہ وہ بھی اپنی قانونی ، اخلاقی، سیاسی، سفارتی ذمہ داری پوری کریں۔ امریکہ اور اسرائیل اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ عالمی برادری کو مذکور ہ ذمہ داریوں سے روکے یہ بہتر توقع ہے کہ طویل عرصہ کے بعد غیر معمولی اتحاد کا مظاہرہ ہوتا نظر آرہا ہے۔

امریکی عوام کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ تاریخ کے اس موڑ پر اپنا کردار ادا کریں۔ امریکی عوام کی تاریخ ہے کہ انہوں نے اپنے حکمرانوں کی ویت نامی پالیسی افغانستان میں امن کے حوالے انہیں کامیاب کرایا ہے لیکن ان حکمرانوں نے ان کے جذبات کے خلاف اقدامات کئے جس پر امریکی عوام نے شدید ردعمل بھی ظاہر کیا ہے اور حکمران ویت نام سے افواج بلانے پر مجبور ہوگئے ۔

امریکی صدر نے بیت المقدس کے حوالے سے ایک کھیل کھیلا ہے جو اب بھی دنیا کے طاقتور صدر ہونے کے زعم میں مبتلا ہیں لیکن ”تیسرے انتفادہ“ کی آواز آچکی ہے جو مزاحمت کی جانب بڑھ رہی ہے۔ نئے یروشلم میں قلعہ نما سفارت خانے بھی آنے والے سٹاف کو تحفظ فراہم نہیں کرسکیں گے۔ یہ درست ہے کہ ٹرمپ نے ریڈ لائن عبور کی ہے دنیا کے ساتھ ساتھ امریکی عوام کے مفاد کو بھی خطرہ میں ڈال دیا ہے۔ حالات کا تقاضا اور ہے کہ پاکستان ایران، ترکی اسلامی اسلامی کانفرنس ایک اسلامی بلاک یا یونین کے قیام کی کوششیں تیز کردیں۔ باہمی طور پر تعاون، تعلقات کو مضبوط کرنے کا اس سے بہتر موقع نہیں ہوسکتا ۔ ٹرمپ کی بیوقوفی اور عالم اسلام کی قیادت وذہانت نتیجہ کی منتظر ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Kya Islami Block Ki Rahh Hmwaar HU Jaye Gi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 December 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.