خوراک کی قلت اور عالمی معاشی بحران!

پانی کی کمی‘فاقہ کشی سے ایک ارب آبادی موت کے منہ میں․․․․․ گرین ہاؤس گیسز کے اخراج اور ماحولیاتی آلودگی سے دنیا تشویش واضطراب میں مبتلا!

منگل 28 نومبر 2017

Kurakk Ki Qilat or Aalmi Muashi Buhraan
محبوب احمد:
گرتی ہوئی عالمی معیشت کے باعث دنیا کو آج جن بڑے مسائل کا سامنا کرناپڑا رہا ہے ان میں خوراک اور پانی کی قلت کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی سر فہرست ہے ۔سائنس دان اور ماہرین ایک عرصے سے موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ پانی اور غذا کی قلت کے خدشے سے خبردار کررہے ہیں۔ آب وہوا میں تبدیلی اور آلودگی سے جانی ومالی نقصان کے باعث دنیا کی مجموعی اقتصادی پیداوار میں بھی کافی کمی دیکھنے میں آئی ہے، ہر سال جہاں 15 ارب درختوں کے بے دریغ کٹائی 24 ارب ٹن زرخیز زمین کے خاتمے کا سبب بن رہی ہے وہیں گرین ہاؤس گیسز کے اخراج سے پانی ، ہوا اور درجہ حرارت جیسے گونا گوں ماحولیاتی مسائل جنم لے رہے ہیں جو صحت مند معاشرے کی تشکیل میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔

(جاری ہے)

جنگلات کا بے دریغ کٹاؤ ، پھیلتی آبادیاں اور قابل کاشت زمین کا نامناسب استعمال خوراک کی کمی کے محرکات میں شامل ہیں۔ کرہٴ ارض پر اقوام عالم کے خود پیدا کردہ انتشار ، دہشت گردی طاقت ، دولت واختیارت کا غلط استعمال او ر دوسروں کے حقوق کو نظر انداز کرنا یہ چند ایسے عوامل ہیں جنہوں نے خطے میں قیام امن کیلئے کی جانے والی کاوشوں کا داؤ پر لگا رکھا ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں سے زمین کی زرخیز میں تیزی سے کمی آرہی ہے اور اب کئی زرعی علاقے کاشت کا قابل نہیں رہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے ترقی کے اس جدید دور میں بھی بنی نوع انسان آلودہ ہوا میں سانس لینے اور زہریلا پانی پینے پر مجبور ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے شکار ممالک میں چین پہلے ، بھارت دوسرے ، روس تیسرے، پاکستان چوتھے جبکہ یو کرائن پانچویں نمبر پر ہے۔

ایک اندازے کے مطابق دنیابھر میں فضائی آلودگی سے ہونے والی کل اموات میں نصف سے زائد صرف 2 ممالک بھارت اور چین میں ہوتی ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک دونوں پر پڑتا ہے لیکن ان تبدیلیوں کا سامنا زیادہ تر ترقی پذیر ممالک کو کرنا پڑتا ہے ۔ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے گلوبل وارمنگ میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جس سے انسان کی محفوظ بقاء سنگین خطرات سے دوچار ہیں، یہی وجہ ہے کہ کاربن کا اخراج کرنے والے سب سے بڑے ملک چین نے 2024ء جبکہ امریکہ نے 2019ء سے اس پر عملدرآمد کا عندیہ دیا ہے، اس کے علاوہ 2020ء تک چین نے کوئلے کی پیداوار میں 500 ملین ٹن کمی لانے کا ہدف رکھا ہوا ہے جبکہ بھارت اور بعض خلیجی ریاستوں نے 2028ء تک مہلت مانگی ہے ۔

یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے جاپان میں ہونیوالے آب وہوا کی تبدیلی کے تیسرے فریم ورک کنونشن میں 160 سے زائد ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کئے تھے جس کے تحت متعین کردہ اہداف میں اس ایجنڈے کو فوقیت دی گئی تھی کہ گرین پاؤس گیسز جو کہ گلوبل وارمنگ کی سب سے بڑی وجہ ہیں ان کے اخراج کو کم سے کم کیا جائے گا لیکن فروری2005ء سے اس معاہدے کو جب عملی جامہ پہنانے کا وقت آیا تو امریکہ نے اس کی توثیق سے انکار کر دیا تھا۔

فضا میں اس وقت 31 فیصد کے لگ بھگ کاربن ڈائی آکسائیڈجیسی مہلک گیسیں موجود ہیں۔ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج اور ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے عالمی درجہ حرارت میں گزشتہ چند دہائیوں سے تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور یہ موسمی تغیر ہی ہے کہ مختلف ممالک کو طوفانی بارشوں ، سیلابی ریلوں اور سمندری طوفانوں سے ہونیوالے نقصانات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے حالانکہ پیرس معاہدے کے تحت امریکہ اور دیگر 187 ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 2 ڈگری تک محدود کیا جائے۔

ایک اندازے کے مطابق ہر 10 سے 9 افراد آلودہ فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا اوردنیا کے کئی دیگر ممالک میں ہر3 میں سے2 اموات آلودگی سے پیدا شدہ بیماریوں کے باعث ہوتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق 2100 ء تک سمندر کالیول 9 سے 100 سینٹی میٹر تک بڑھ جائے گا جس سے ساحلی شہر ڈوب جائیں گے۔ خشک سالی، جنگل کاٹنے ، حد سے زیادہ چراگاہوں کے استعمال سے جہاں ماحولیاتی مسائل جنم لیتے ہیں وہیں خوراک اور پانی کی کمی سے لوگ شہروں اور دیگر مقامات کا رخ کرتے ہیں لہٰذا وسائل کی کمی سے تصادم کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جو معیشت کی تباہی کا باعث بنتے ہیں ، گزشتہ30 برس میں زمین کے قدرتی ذخائر کا استعمال دوگناہوا ہے جس سے کرہٴ ارض کی ایک تہائی زمین کی زرخیزی شدید طور پر متاثر ہوئی ہے۔

اقوام متحدہ کی ہی ایک رپورٹ کو اگر دیکھا جائے تو دنیا بھر میں سو ارب سے زائد افراد کو زمین کی کم ہوتی ہوئی زرخیزی کے سبب خوراک، پانی کی کمی اور افلاس کا خطرہ ہے۔ جنوبی سوڈان کی صورتحال اتنی سنگین ہے کہ ایک لاکھ لوگوں کو بھوک کی وجہ سے موت کا سامنا ہے جبکہ مزید 10 لاکھ قحط کے دہانے پر ہیں، یمن ، صومالیہ اور شمال مشرقی نائیجریا میں بھی قحط نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔

کینیا میں شدید قحط سالی سے تقریباََ ملک کا نصف حصہ متاثر ہوا ہے جس سے لوگ اپنے مال مویشیوں کو بچانے کے لئے انہیں اپنے حصے کی خوراک دینے پر مجبور ہیں، کبھی یہ علاقہ جانوروں کی چراگاہ ہوا کرتا تھا لیکن اب بھوک اور پیاس کی وجہ سے یہاں جگہ جگہ مرنے والے جانوروں کی ہاقیات دکھائی دیتی ہیں خشک سالی کی وجہ سے مرنے والے جانوروں کی باقیات دکھائی دیتی ہیں۔

خشک سالی کی وجہ سے لوگوں کو پانی حاصل کرنے کے لئے 10 کلومیٹر تک کا سفر کرنا پڑتا ہے اس وقت زمین پر بھوک کے پھیلنے کی کیفیت یہ ہے کہ ہر 9 میں سے ایک شخص خوراک سے محروم ہے، اناج میں کمی کی ایک وجہ زمین میں زرخیزی میں کمی بھی ہے۔ 2030ء میں دنیا کی آبادی 8 ارب60 کروڑ جبکہ 2050ء میں یہ آبادی 10 ارب کے قریب پہنچ جائے گی۔ چین نے 2002ء میں زمین کے ریگستان میں بدلنے کے خلاف پہلا قانون بنایا تھا اور تب سے اس نے ہزاروں ہیکٹر زمین کو منگولیا کے اندرونی حصے میں سبزہ زار بنا دیا ہے جس کے نتیجے میں مزید غذا اور نوکریاں پیدا ہوئی ہیں اور مقامی لوگوں کی زندگی بہتر ہوئی ہے ، لہٰذا یہاں ضرورت اب اس امرکی ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کے ساتھ ساتھ پانی اور خوراک کی کمی پر قابو پانے کیلئے اقوام متحدہ بھی ٹھوس منصوبہ بندی کرے تاکہ مزید ہلاکتوں سے بچایا جاسکے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Kurakk Ki Qilat or Aalmi Muashi Buhraan is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 November 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.