کلبھوشن کا معاملہ او ر میچ فکسنگ کے الزامات

عالمی عدالت انصاف میں پاکستان کا موقف کمزور کیوں؟۔۔۔ وزیراعظم نے فاٹا کو خیبر پختونخواہ میں ضم کرنے کیلئے قانون سازی روک دی۔

ہفتہ 27 مئی 2017

Kulbhushan Ka Muaamla Aur Match Fixing K Ilzamat
زاہد حسین مشوانی:
پانامہ لیکس پر جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کام جاری رکھے ہوئے ہے اور گواہوں کے بیانات قلم بند کرانے کا آغاز کیا گیا ہے جبکہ حکومت پی ٹی آئی اور دیگر اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے درمیان سیاسی ملاکھڑا بھی جاری ہے۔دوسری جانب فاٹا کو خیبر پختونخواہ میں ضم کرنے پر قانون سازی روک دی گئی اور یہ کام مولانا فضل الرحمان کی مداخلت پر کیا گیا۔

اس معاملے پر قومی اسمبلی میں ہنگامہ آرائی بھی دیکھنے میں آئی۔کلبھوشن یادیو کی سزائے موت روکنے سے متعلق عالمی عدالت انصاف کے جاری کردہ حکم امتناعی اور فیصلہ عوام کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔اسلام آباد کے سیاسی اور عوامی حلقوں میں اس پر بحث جاری رہی اور اپوزیشن کی طرف سے حکومتی موقف کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

(جاری ہے)

عالمی عدالت انصاف کے فیصلے میں کہا گیا کہ پاکستان حتمی فیصلے تک کلبھوشن کو پھانسی نہ دے۔

یہ کہا گیاکہ ویانا کنونشن دہشت گردی اور جاسوسی کے الزام میں گرفتار اور زیر حراست افراد پر بھی لاگو ہوتا ہے۔عدالت نے حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے کہا انہیں اس کیس کی سماعت کا اختیار ہے۔اور ملزم ویانا کنونشن سے الگ نہیں۔قونصلر تک رسائی دینے کے لئے بھی کہا گیا۔بنچ نے قرار دیا کہ بھارتی کیس میرٹ پر وہ مطمئن نہیں۔اس کیس کی سماعت سے متعلق عالمی عدالت انصاف کے دائرہ اختیار پر پاکستان کا موقف مسترد کردیاگیا۔

عدالت نے قرار دیا کہ آرٹیکل ون کے تحت ویاناکنونشن کی تشریخ میں تفریق پر فیصلے دینے کا اختیار ہے۔فیصلہ سناتے ہوئے عالمی عدالت انصاف کے جج رونی ابراہیم نے کہا کہ کلبھوشن یادیو مارچ دو ہزار سولہ سے پاکستان کی قید میں ہے اور پاکستان نے بتایا لہ اس نے کلبھوشن کا معاملہ بھارتی ہائی کمیشن کے ساتھ اٹھایا۔جج نے اپنے فیصلے میں کہا کہ جنوری دو ہزار سترہ میں پاکستان نے بھارت سے تحقیقات میں معاونت کے لئے خط لکھا۔

پاکستان نے بھارت کو بتایا کی قونصلر پاکستانی خط کے جواب پر ہوگا۔جج نے اس کیس سے متعلق دفعات کا خلاصہ بھی پیش کیا جن میں بھارت تعلقات،سیاسی معاملات اور اس کے پس منظر کا تذکرہ بھی تھا۔عالمی عدالت انصاف میں پاکستانی وکیل خاور قریشی نے نہ صرف پاکستانی موقف بھرپور انداز میں پیش کیا بلکہ کلبھوشن کے بارے میں ثبوت بھی عدالت میں پیش کئے۔

انہوں نے موقف اختیار کیا کہ پاکستان نے بھارت سے جو معلومات مانگیں اس پر تعاون کی بجائے بھارت نے فرار اختیا ر کیا۔بھارتی جاسوس اور بھارتی نیوی میں حاضر سروس افسر کلبھوشن کی گرفتاری سولہ مارچ دوہزار سولہ کو حساس اداروں اور سکیورٹی فورسز کی مدد سے بلوچستان کے علاقے ماشکیل سے کی گئی جہاں وہ حسین مبارک پٹیل کے نام سے پاکستان مخالف تحزیبی اور دہشت گردی کی کاروائیوں کی منصوبہ بندی کررہا تھا۔

کے چند روز بعد کلبھوشن کا اعترافی بیان بھی جاری کیا گیا جس میں اس نے اعتراف کیا کہ وہ ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا۔اس سے قبل دو ہزار چار اور دو ہزار پانچ میں بھی وہ،،را،، دہشت گردی مقاصد کے حصول کے لئے کراچی کے دورے بھی کرچکا ہے۔کلبھوشن کے اعتراف کے بعد دس اپریل دو ہزار سترہ کواسے سزا سنائی گئی عدالت کو بتایا گیا کہ پاکستان نے اس بارے میں تمام ثبوت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے حوالے بھی کئے۔

کلبھوشن کے معاملے پر پاکستان نے اپناموقف پیش کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ قومی سلامتی پر عالمی عدالت کا دائرہ کار مانتے ہیں نہ حکم امتناعی کوئی بری بات ہے ۔پاکستان نے اس عزم کا اظہار کیا کے بھارتی چہرہ بے نقاب کرے گے۔مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ حتمی فیصلے تک سزا پر عمل درآمد روکا گیا ہماری عدالتوں میں بھی سزا کے خلاف اپیلوں پر ایسا ہی ہوتا ہے اور قونصلر کی رسائی کو حوالے سے حکم نہیں رائے دی گئی ہے۔

دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ عدالتی دائرہ کار کے حوالے سے ڈیکلریشن جمع کراچکے ہیں۔بھارت دہشت گردی اور جاسوسی کے اپنے جرائم سے دنیا کی توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔پاکستان کی طرف سے اس فیصلے پر ردعمل میں کہا گیا کہ عالمی عدالت انصاف کی طرف سے آنے والا فیصلہ مقدمہ اور اختیار سے ہٹ کرہے۔اٹارنی جنرل اشتراوصاف کا کہنا ہے کہ عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن کے معاملے پر بھرپور دفاع کیا جائے گا۔

اور بھارت کو منہ کی کھانی پڑے گی۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے میں ابھی کچھ حتمی نہیں ہے عدالت کی جانب سے صرف سماعت ختم نہ ہونے تک کلبھوشن کو پھانسی نہ دینے کی بات کی گئی ہے کونسلر رسائی کی بات عالمی عدالت انصاف کے فیصلے میں کہیں نہیں۔انھوں نے کہا کہ کلبھوشن دہشت گرودں کو فنانس کرتا تھا اور بھارت کی جانب سے پہلے کلبھوشن کی شناخت کے حوالے سے بھی انکار کیا جاتا رہا۔

اٹارنی جنرل نے بتایاکہ سکیورٹی معاملات پر کونسلر رسائی نہ دینے کے حوالے سے 2008 کا ایک معاہدہ بھی موجود ہے۔اٹارنی جنرل اشتراوصاف کا کہنا ہے کہ کلبھوشن جاسوس ہے اور طرح کے فیصلے سے اس کا سٹیٹس تبدیل نہیں ہوگا۔اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔انہوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ عالمی عدالت انصاف میں بھارت کا ایک مستقل جج بھی موجود ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عالمی عدالت کے فیصلے سے کلبھوشن کے کیس پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔پاکستان نے عالمی عدالت کو یقین دہانی کرائی ہے کلبھوشن کو تمام قانونی مواقع فراہم کئے جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ کلبھوشن کے پاس اپیل کا موقع ہے۔انہوں نے کہا کہ عدالتی احترام میں پاکستان انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں پیش ہوا اور عدالتی دائرہ کار پر اعتراض عدالت میں پیش ہو کر بھی کیا جاسکتاہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ تمام مسائل پرامن طریقے سے ہی حل کئے جاسکتے ہیں اور بھارت کلبھوشن کی امن مخالف سرگرمیاں نہیں چھپا سکتا۔عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ آیا تو پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے حکومت پر کڑی تنقیدکی اور فیصلے پر سیاسی جماعتوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ۔عمران خان نے کہا کہ یہ ممکن ہے کلبھوشن کے معاملے پر میچ فکس کیا گیا ہواور بھارتی سرمایہ کا جندال کی پاکستان آمد ایک سوالیہ نشان بھی ہے۔

عمران خان کا کہنا تھا کے حکومت جس طریقے سے عدالت گئی اس پر یہی فیصلہ آنا تھا۔وزیراعظم نے دہشت گرد کلبھوشن کا کہیں نام نہیں لیا۔عمران خان نے سوال کیا کے کہ پندرہ مئی سے قبل پاکستان نے عدالت میں جواب کیوں جمع نہیں کرایا۔عمران خان نے سوال کیا کہ ناتجربہ کا وکیل کیوں چنا گیا۔اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ ،جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق،شاہ محمود قریشی اور دیگر نے بھی کہا کہ اس پر پاکستان کا موقف کمزور ہے اور بھارت کو پاکستان خلاف ایک موقع فراہم کردیا گیا۔

پاکستان کے پاس تمام شواہد موجود ہیں پھر کیوں موثر اندا ز نہیں اپنایا گیا۔پاکستانی وکیل کے پاس نوے منٹ تھے انہوں نے صرف پچاس منٹ میں اپنے دلائل کیوں نمٹائے خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ کلبھوشن کے معاملے پر حکومت کی نااہلی نظر آرہی ہے اور اب شکوک وشہات بڑھ گئے ہیں۔خورشید شاہ کے بقول کہ وکیل فوج کی طرف سے مقرر کیا گیا۔عدلیہ کے حوالے سے فوج کا تجربہ کم ہوتا ہے حکومت نے اٹارنی جنرل کو کیوں نہیں بھیجا۔

حکومت واک اوور دینا چاہتی تھی اس لئے خاموشی سے بیٹھی رہی۔حکومت کا اپنا موقف ہے لیکن اپوزیشن کی جماعتوں کا کہنا بھی درست ہے کہ اس پر مضبوط موقف اپنانے کی ضرورت ہے۔حکومت کو چاہیے کہ اس معاملے پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے اور آگے بڑھا جائے۔پانامہ پیپرز پر جے آئی ٹی کام جاری رکھے ہوئے ہے۔اور گواہوں کے بیانات قلم بند کئے جارہے ہیں جبکہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں ڈان لیکس کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے کا مطالبہ کردیا ہے اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ڈان لیکس حکومت اور فوج کا نہیں قوم کا معاملہ ہے ٹوئیٹ واپس لینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

پی ٹی آئی کی شیریں مزاری نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ بندکمروں میں قومی سلامتی سے متعلق معاملات حل کرلیئے گئے کسی کو تفصیلات نہیں معلوم انہوں نے کہا کہ اگر یہ قومی سلامتی کا مسئلہ نہیں تھا تو کور کمانڈرز اور وزیر داخلہ اپنے موقف سے دستبردار ہوں اسد عمر نے کہا کہ ڈان لیکس کا معاملہ ٹوئیٹ واپس لینے سے حل نہیں ہوگا یہ قوم سلامتی کا مسئلہ ہے پارلیمنٹ فیصلہ کرے اس سے صرف فوج کی نہیں بیس کروڑ عوام کی بدنامی ہوئی ان کا کہنا تھا کہ یہ قومی سلامتی سے متعلق معاملہ نہیں تھا تو اسے اتنا اچھالا کیوں گیا شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اگر طارق فاطمی کو قومی سلامتی کے منافی اقدام پر ہٹایا گیا تو وہ چین میں سرکاری وفد کے ساتھ کیا کررہے تھے۔

محمود اچکزئی نے کہا کہ آج سب نے اس ایوان کی بالادستی کی ہے جو جمہوریت کی مظبوطی کے لیئے ضروری ہے۔ایم کیو ایم کے شیخ صلاح الدین نے کہا کہ ڈان لیکس کا معاملہ اہم ہے اس پر پارلیمنٹ کا الگ اجلاس بلایا جائے نوید قمر نے کہا کہ ڈان لیکس پر تمام اراکین کو بات کرنے کا موقع دیا جائے۔قومی اسمبلی میں پانامہ لیکس میں شامل تمام افراد کے خلاف تحقیقات کا بل عزرافضل نے پیش کیا۔

وزیر قانون زاہد حامد نے بل کی مخالفت کی ان کا موقف تھا کہ سپریم کورٹ نے پانامہ پر فیصلہ سنا دیا اس کی ضرورت نہیں نوید قمر نے کہا کہ سپریم کورٹ میں کیس صرف ایک خاندان کا تھا اس بل میں کمیشن بنا کر سب کر شامل تفتیش کرنے کوکہا گیا ہے۔ایوان نے کثرت سے بل مسترد کیا۔فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخواہ میں ضم کرنے کا معاملہ التوا کاشکار ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Kulbhushan Ka Muaamla Aur Match Fixing K Ilzamat is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 May 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.